اچھے فیصلے درخت کی قلم کی طرح ہوتے ہیں
تم جانتے ہو دنیا کا مصروف ترین ائیرپورٹ کون سا ہے" ان کی نظر یں میرے چہرے پر جم گئیں، میں نے پانچ سات ائیرپورٹوں کا نام لیا لیکن ہر نام پر انھوں نے نفی میں سر ہلا دیا، میں نے تھک کر عرض کیا "سر آپ ہی فرما دیجیے" وہ میٹھے لہجے میں بولے "شکاگو کا او۔ ہیر (O, HARE) کا شمار دنیا کے مصروف ترین ائیر پورٹس میں ہوتا ہے، اس ائیرپورٹ سے روزانہ 119 انٹرنیشنل فلائیٹس اڑتی ہیں، یہ اس وقت دنیا کا آٹھواں بڑا جب کہ 2008ء تک یہ دنیا کا دوسرا بڑا ائیرپورٹ تھا، اس نے 2003ء میں شمالی امریکا کے بہترین ائیرپورٹ کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا، اس کے 4 ٹرمینل اور 182 گیٹ ہیں"۔
میں نے انھیں ستائشی نظروں سے دیکھا، وہ مسکرا کر بولے "لیکن کہانی یہ نہیں، کہانی اس ایئرپورٹ کا نام ہے، او۔ ہیر ایک چھوٹا سا سرکاری ملازم تھا، او۔ ہیر کا پورا نام بچ او۔ ہیر (BUTCH-O HARE) تھا، وہ امریکی فوج میں فائیٹر پائلٹ تھا، دوسری جنگ عظیم کے دوران اس کی ڈیوٹی ائیر کرافٹ کیریئر LEXINGTON پر لگ گئی، یہ ائیرکرافٹ کیریئر پیسفک اوشن میں کھڑا تھا، او۔ ہیر اور اس کے دوسرے فائیٹر پائلٹس بحری جہاز سے اپنے طیارے اڑاتے تھے، جاپانیوں پر حملے کرتے تھے اور واپس آ جاتے تھے، 1941ء دسمبر کی ایک شام او۔ ہیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اڑا، یہ لوگ ابھی چند میل دور گئے تھے کہ او۔ ہیر نے اپنے سنگل انجن "گروومین ایف 4 ایف" طیارے کے فیول کی سوئی دیکھی، اس کے طیارے میں پٹرول بہت کم تھا، او۔ ہیر نے اپنے چیف کو اپنی پوزیشن بتا دی۔
چیف نے اسے فوری طور پر واپس جانے کا حکم دے دیا، او۔ ہیر ائیرکرافٹ کیریئر کی طرف واپس مڑ گیا، جب وہ کیریئر کے قریب پہنچا تو اس نے ایک عجیب منظر دیکھا، اس نے دیکھا 9 جاپانی طیارے کیریئر پر حملہ آور ہیں اور کیریئر کی حفاظت کے لیے وہاں کوئی طیارہ موجود نہیں، اس صورتحال میں او۔ ہیر کے پاس دو راستے تھے، وہ اکیلا ان تمام جاپانی طیاروں کا مقابلہ کرتا یا پھر وہ اپنی جان بچا کر فرار ہو جاتا، او۔ ہیر ایک دلیر شخص تھا لہٰذا اس نے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا، وہ جاپانی طیاروں پر پل پڑا، وہ فضا میں طیاروں پر جھپٹتا، ان پر گولے پھینکتا اور دوسری طرف نکل جاتا، وہاں سے واپس پلٹتا اور دشمن طیاروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتا، اس نے آدھے گھنٹے میں دشمن کے 5 طیارے مار گرائے، اس دوران اس کا بارود ختم ہو گیا۔
اس نے نئی تکنیک سے لڑنا شروع کر دیا، وہ دشمن طیارے پر جھپٹتا اور اسے اپنے طیارے کے پر سے چھیلتا ہوا دوسری طرف نکل جاتا، اس تکنیک کے نتیجے میں دشمن کے مزید تین طیارے تباہ ہو گئے جب کہ آخری طیارہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ سمندر میں گر گیا، او۔ ہیر کیریئر پر اتر آیا، اسی اثناء میں اس کے ساتھی پائیلٹس واپس آ گئے او۔ ہیر نے انھیں ساری بات بتائی لیکن ان لوگوں نے یقین کرنے سے انکار کر دیا، اس زمانے میں امریکی فضائیہ کے تمام طیاروں میں کیمرے نصب ہوتے تھے، یہ کیمرے آپریشنز کے دوران تصویریں اتارتے رہتے تھے۔
او۔ ہیر اپنے طیارے سے کیمرہ اتار کر لے آیا، جب تصویریں بن کر آئیں تو پورے امریکا میں شور ہو گیا، امریکا کا بچہ بچہ او۔ ہیر زندہ باد کے نعرے لگانے لگا، حکومت نے فروری 1942ء میں اوہیر کو دوسری جنگ عظیم کا پہلا نیوی ایس (ACE) ایوارڈ دیا جب کہ 1943ء میں اسے امریکن آرمی کے انتہائی شاندار ایوارڈ فلائنگ کراس سے بھی نوازا گیا، او۔ ہیر 26 نومبر 1943ء میں ایک جنگی مہم پر نکلا، اس کا طیارہ دشمن کا نشانہ بنا، وہ سمندر میں گرا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہو گیا، اس کی موت کے بعد امریکی حکومت نے اپنا سب سے بڑا ائیرپورٹ اس کے نام منسوب کر دیا" وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے جذباتی لہجے میں کہا "سر ویل ڈن یہ تو واقعی لاجواب کہانی ہے" وہ مسکرائے "نہیں میں تمہیں اس سے بھی اچھی کہانی سنانا چاہتا ہوں" میں ہمہ تن گوش ہو گیا، وہ بولے "شکاگو میں ایزی ایڈی نام کا ایک وکیل رہتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے بے تحاشا ذہانت سے نواز رکھا تھا، اسے امریکا کا سارا قانون ازبر تھا، وہ شکاگو کا سب سے اچھا مقرر بھی تھا، کیریئر کے آغاز میں اس کی ملاقات الکپون نام کے ایک بدمعاش سے ہو گئی، الکپون شکاگو کا مافیا لارڈ تھا، پورا شہر اس سے ڈرتا تھا، الکپون نے ایزی ایڈی کو اپنا وکیل نامزد کر دیا، پولیس جب بھی الکپون کو پکڑتی ایزی ایڈی بڑی مہارت سے اسے عدالت سے چھڑا لیتا، اس زمانے میں لوگ کہتے تھے اگر الکپون کو ایزی ایڈی کا تعاون حاصل نہ ہو تو اس کا سارا مافیا ایک مہینے میں بکھر جائے۔
ایزی ایڈی نے الکپون سے بے تحاشا مالی فوائد حاصل کیے، اس کا شمار شکاگو کے امراء میں ہوتا تھا، اس کے پاس شہر کا سب سے بڑا فارم ہاؤس تھا، وہ بیسیوں گاڑیوں اور لمبے چوڑے بینک بیلنس کا مالک تھا، ایزی ایڈی کا ایک ہی بیٹا تھا، اس نے اسے دنیا کی ہر نعمت دے رکھی تھی، ایک دن یہ بیٹا گھر آیا اور اپنے باپ کا دامن پکڑ کر بولا، ڈیڈی میں جب بھی باہر جاتا ہوں تو بچے مجھے الکپون، الکپون کہہ کر چھیڑتے ہیں، بیٹے کی یہ بات باپ کے دل پر لگی، وہ بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گیا اور اس نے سوچا میں نے اپنے بیٹے کو دنیا کی تمام سہولتیں دے دی ہیں لیکن میں اسے ایک اچھی شناخت، ایک اچھا نام نہیں دے سکا، ایزی ایڈی نے اسی وقت الکپون کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا، وہ گھر سے نکلا تو وہ جانتا تھا وہ اب کبھی گھر واپس نہیں آ سکے گا۔
الکپون کے کاغذوں میں غداری کی سزاموت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ایزی ایڈی سیدھا تھانے گیا اور اس نے الکپون کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا اعلان کر دیا، پولیس نے اسی وقت الکپون کو گرفتار کر لیا، ایزی ایڈی گھر کی طرف رخصت ہوا تو راستے میں کسی نے اسے گولی سے اڑا دیا تھا" وہ رکے اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے "یہ کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے" میں نے حیران ہو کر عرض کیا "سر یہ تو ایک نہایت ہی فضول اور بچگانہ سی کہانی ہے، جاسوسی ناول اور ڈائجسٹ ایسی کہانیوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں" انھوں نے قہقہہ لگایا "میں ابھی ایک فقرہ بولوں گا اور یہ دنیا کی بہترین اور انتہائی قیمتی کہانی ہو جائے گی" انھوں نے سرکس کے جادو گروں کی طرح میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے "ہماری پہلی کہانی کا ہیرو او۔ ہیر اس ایزی ایڈی کا بیٹا تھا" مجھے جھٹکا لگا اور میں شدت حیرت سے کھڑا ہو گیا۔
وہ مسکرائے "میرے بچے بعض فیصلے، بعض نیکیاں کھجور کے درختوں کی طرح ہوتی ہیں، ایک نسل انھیں کاشت کرتی ہے، ان کی آبیاری کرتی ہے، انھیں جوان کرتی ہے اور اس کے بعد قبر میں اتر جاتی ہے اور دوسری نسل اس نیکی، اس فیصلے کا پھل کھاتی ہے، اگر ایزی ایڈی اس لمحے یہ فیصلہ نہ کرتا تو اس کا بیٹا بڑا ہوکر کسی مافیا کا حصہ بن جاتا، وہ کسی پولیس مقابلے میں مارا جاتا اور تاریخ اس کا نام تک فراموش کر دیتی لیکن ایزی ایڈی نے اپنے بیٹے کو ایک اچھا نام دینے کا فیصلہ کیا، وہ خود مر گیا لیکن اپنے بیٹے کو نیکی اور سچ کے راستے پر کھڑا کر گیا یہاں تک کہ اس کا بیٹا او۔ ہیر اس راستے پر چلتا چلتا امریکا کا قومی ہیرو بن گیا، وہ اپنے باپ کو ایک ایسی شناخت دے گیا جو قیامت تک برقرار رہے گی۔
آج بھی جب کوئی طیارہ او۔ ہیر ائیرپورٹ پر اترتا ہے اور اس کے اندر خواتین و حضرات ہم چند لمحوں میں او۔ ہیر ائیرپورٹ پر اترنے والے ہیں کا اعلان ہوتا ہے تو سب لوگ سر سے ٹوپی اتار کر ایزی ایڈی کی عظمت کو سلام کرتے ہیں، وہ سرخم کر کے اسے زندہ باد کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، ایزی ایڈی اور اس کے بیٹے او۔ ہیر کی کہانی بتاتی ہے اچھے فیصلے درخت کی قلم کی طرح ہوتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں آپ کی اولاد گرمی، تپش اور بارش سے محفوظ رہے تو آپ کو ایزی ایڈی کی طرح اپنے صحن میں کسی اچھے فیصلے کی قلم بونا پڑتی ہے۔
آپ کو اپنی نسل، اپنی اولاد کو اچھا نام دینے کے لیے اپنی جان، اپنی ذات کی قربانی دینا پڑتی ہے، میں چاہتا ہوں اس ملک کا ہر صاحب اولاد اپنی میز پر ایزی ایڈی کا نام لکھ کر لگا دے اور ہر فیصلہ کرنے سے پہلے ایک منٹ کے لیے سوچے کیا میرا یہ فیصلہ میرے بیٹے کو او۔ ہیر بنا دے گا اگر اس کا جواب ہاں ہو تو اسی وقت فیصلے کی طرف اٹھ کھڑا ہو، فیصلہ کا یہ ایک قدم اسے تاریخ کا سنگ میل بنا دے گا"۔