پاکستان میں قبول اسلام جرم
برصغیر کے بے مثل خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اپنے ملاقاتی نوجوان طلبہ سے کہا "بیٹے آپ داڑھی کیوں نہیں رکھتے، یہ سنت رسول ﷺ ہے۔" ایک حاضر جواب طالب علم فی الفور بولا "شاہ جی اسلامیہ کالج میں داڑھی رکھنا مشکل ہے، ہم ساتھی غیر مسلم طلبہ کو کیا منہ دکھائیں گے۔" شاہ جی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا "واقعی بیٹا اسلامیہ کالج میں داڑھی رکھنا مشکل بلکہ ناممکن ہے، خالصہ کالج میں آسان ہے جہاں سارے سکھ طلبہ باریش ہیں۔" ان دنوں مذہب کی جبری تبدیلی کے ایک قانونی بل کے مسودے کا چرچا ہے۔ انگریزی اخبارات کے بقول وفاقی حکومت کی وزارت انسانی حقوق اور وزارت مذہبی امور کے مابین بحث و تمحیص کا موضوع ہے، وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل شیریں مزاری کی وزارت انسانی حقوق سے بھی مجوزہ بل کا مسودہ مانگ رہی ہے مگر اس وزارت کے طاقتور اہلکاروں کا موقف ہے کہ وہ یہ مسودہ دینے کے پابند نہیں، مجوزہ بل کے ذریعے کسی بھی غیر مسلم کے قبول اسلام کو جرم قرار دینے اور کسی غیر مسلم کو بذریعہ تبلیغ، نصیحت و حسن اخلاق اسلام کی طرف راغب کرنے والے شخص کو اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی آڑ میں سزا دلانے کا پکا بندوبست کیا گیا ہے۔
چند برس قبل سندھ اور پھر رحیم یار خان میں عاقل بالغ ہندو خواتین نے اسلام قبول کرکے مسلم نوجوانوں سے نکاح کیا، جس پر غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور اسے مذہب کی جبری تبدیلی کا نام دے کر اندرون و بیرون ملک مہم چلائی۔ متاثرہ خاندان کے علاوہ سندھ کے متمول ہندو سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی نے بھی اس مہم کی حوصلہ افزائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وزیراعظم عمران خان نے فی الفور واقعہ کا نوٹس لیا اور ان خواتین کو ریاستی طاقت سے اپنے والدین اور آبائی مذہب کی طرف لوٹ جانے پر آمادہ کیا گیا مگر پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں ان خواتین نے قبول اسلام کا دفاع کیا اور ثابت ہوا کہ ان خواتین نے کسی دبائو، لالچ کے تحت نہیں، اپنی خوشی سے اسلام قبول اور مرضی سے نکاح کیا۔ کوئی مولوی اور پیر اس معاملے میں ملوث ہے نہ کسی خانقاہ اور مدرسہ کا کوئی کردار، یہ معاملہ تو دب گیا مگر پاکستان میں ہر معاملے کو اسلام دشمن اور مذہب بیزار مغرب کی آنکھ سے دیکھنے والے چند ارکان پارلیمنٹ نے مل جل کر ایک غیر سرکاری بل پیش کردیا جس کا مقصد قبول اسلام کے رجحان کی حوصلہ شکنی تھا، سینٹ کی مجلس قائمہ نے سینٹر انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں ملک بھر سے حقائق اور اعداد و شمار جمع کئے تو یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ سندھ سمیت کسی صوبے میں مذہب کی جبری تبدیلی کا ایک بھی واقعہ منظر عام پر نہیں آیا، البتہ پسند کی شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ مذہب کی جبری تبدیلی کے سدباب کے لیے انسانی حقوق کی وزارت اور سینٹ کی مجلس قائمہ نے (جس کے سربراہ ان دنوں لیاقت ترکئی ہیں) جو مجوزہ بل تیار کیا ہے اس میں صراحت سے لکھا گیا ہے کہ:
" کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلی مذہب کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے گا، جہاں عام طور پر غیر مسلم فردرہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دبائو کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے کا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔۔
جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے مجرمانہ قوت کا استعمال اس شخص کے خاندان، عزیز، برادری یا جائیداد کے خلاف ہو سکتا ہے بشمول شادی۔ جو شخص (شادی) انجام دیتا ہے، کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے یا کسی بھی طرح سے شادی میں سہولت فراہم کرتا ہے، اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ یا تو دونوں فریق جبری تبدیلی کے شکار ہیں وہ کم از کم تین سال قید کے مجرم ہوں گے۔ اس میں کوئی بھی شخص شامل ہوگا جس نے شادی کی تقریب کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور کوئی دوسری ضروری خدمات وغیرہ فراہم کی ہوں۔
مذہب کی تبدیلی کی عمر: کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے جب تک کہ وہ شخص بالغ (18 سال یا اس سے بڑا) نہ ہو جائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا۔"
اسلامی تاریخ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کم سنی میں اسلام قبول کیا اور حضور سرور کائنات ﷺ سے براہ راست کسب فیض کے باعث باب العلم قرار پائے۔ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے خواہش مند عمران خان کے دور حکومت میں مجوزہ بل منظور ہو گیا تو 18 سال سے کم عمر کا کوئی غیر مسلم اسلام قبول نہیں کرسکتا اور زیادہ عمر کے شخص کو قبول اسلام کے بعد تین ماہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرنا پڑے گا تاکہ وہ اپنے ارادے سے باز آئے اور باطل مذہب پر قائم رہ سکے۔ انڈونیشیا، ملائیشیا اور دیگر کئی ممالک میں کثیر تعداد نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کئے بغیر محض مسلمان تاجروں کے حسن عمل اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، جو مجوزہ بل کی روشنی میں ناقابل قبول عمل ہے جبکہ اس بل نے غیر مسلموں کے لیے تبلیغ اسلام کا راستہ بھی بند کردیا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ والدین کی مرضی کے بغیر پسند کی شادی کرنا عورت کا بنیادی حق قرار دینے والے سیکولر، لبرل اور فارن فنڈڈ این جی اوز کے کارندے کسی غیر مسلم کی مسلمان خاتون نوجوان سے شادی کے خلاف ہیں لیکن اگر کوئی مسلم خاتون کسی غیر مسلم سے شادی کرے تو اس پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں۔ وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل اب تک اس بل کی منظوری میں حائل ہیں مگر طاقتور لابی ان دونوں سے بالا بالا غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے نام پر سینٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کی مہم چلا رہی ہے، اقلیتی ارکان تو خیر بل کی منظوری کے خواہاں ہیں کہ ان کا حلقہ انتخاب خوش اور مطمئن ہو مگر بعض مسلم ارکان کی ہمدردیاں بھی انہیں حاصل ہیں۔ یہ وہی حکومتی وزیر، مشیر و ارکان اسمبلی ہیں جنہوں نے ایک اقلیتی رکن اسمبلی کی طرف سے شراب کی ممانعت کی قرارداد کی مخالفت کر کے اپنی عاقبت اور عمران خان کی ساکھ خراب کی۔
سید عطاء اللہ بخاری کے دور میں اسلامیہ کالج میں داڑھی رکھنا دشوار تھا، خالصہ کالج میں آسان، آج امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر ممالک میں سالانہ ہزاروں غیر مسلم بے روک ٹوک اسلام قبول کر رہے ہیں۔ ریاست کو اعتراض نہیں مگر پاکستان میں قبول اسلام کو جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ ریاست مدینہ کا علمبردار عمران خان کاش اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرے۔