ناحق ہم مجبوروں پر
ڈیرہ غازی خان جب بھی جاتا ہوں قابل اعتماد دوستوں سے وہاں کے پولیس اور انتظامی افسروں کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے عزیز و اقارب، دوست احباب اور سیاسی حلیفوں کے بارے میں جاننے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں، آخری بار مارچ میں پندرہ دن کے وقفے سے دوبار شادی کی تقریبات میں شرکت کے لئے گیا تو لوگوں نے محکمہ انہار، شاہرات کے دو افسروں اور کمشنر و ڈپٹی کمشنر کے بارے میں منفی رائے دی(یہ افسران اب تبدیل ہو چکے ہیں ) ان کے کرتوتوں کے باعث تحریک انصاف کی حکومت کی بدنامی کا تذکرہ کیاالبتہ آر پی او عمر شیخ کی کارگزاری کو سراہا اور بتایا کہ صرف پولیس کی کالی بھیڑیں اور علاقے کے جرائم پیشہ گروہ ہی نہیں ڈویژن بھر کے سردار، وڈیرے اور الا ماشاء اللہ منتخب عوامی نمائندے بھی تنگ ہیں، عمر شیخ نے آپریشن کلین اپ کا آغاز اپنے کرپٹ اوربدنام افسروں و اہلکاروں سے کیا، ان کے سرپرست سرداروں اور منتخب عوامی نمائندوں کی سفارش مانی نہ کوئی دبائو قبول کیا۔ قتل، اغوا برائے تاوان، چٹی دلالی اور سرکاری و نجی زمینوں پر قبضے کے مقدمات میں مجرموں کے سہولت کار ایس ایچ او اور ڈی ایس پی سطح کے پولیس افسروں کو ہتھکڑیاں لگوائیں اور سندھ سے محمود کوٹ آنے والی آئل پائپ لائن میں کٹ لگا کر تیل چوری کرنے والے سرداروں کے کارندوں کو دھڑلے سے گرفتار کیا۔ ڈیرہ غازی، تونسہ، راجن پور سے جو دوست بھی لاہور آیا اس نے آر پی او کی تعریف کی یہ گلہ البتہ کئی صحافی دوستوں نے کیا کہ موصوف پبلسٹی کے شوقین ہیں اور یہ شوق کسی نہ کسی وقت انہیں مہنگا پڑ سکتا ہے۔ میں لاہور کی جس نجی رہائشی کالونی میں رہتا ہوں وہ چوہنگ پولیس ٹریننگ سنٹر کے قریب ہے۔ ملنے جلنے والے دوست بتایا کرتے کہ وہاں ایک مستعد، دیانتدار اور صاف ستھرے کمانڈنٹ کی عملداری ہے فاران بیگ نام کے اس نوجوان افسر سے ملاقات ہوئی تو اِسم با مسمی پایا، عمر شیخ کی طرح یہ بھی بیرون ملک تعلیم، ملازمت یا ٹریننگ کے دوران یہ جذبہ لے کر پاکستان آئے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی بدنامی کو نیک نامی میں بدلنے اور پولیس سروسز کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھالنے کے لئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ عمر شیخ سے ڈیرہ غازی خاں میں تو کبھی ملاقات نہ ہو پائی البتہ ایک بار لاہور میں تھوڑی دیر گپ شپ ہوئی یہی معاملہ فاران بیگ کے ساتھ رہا، پرسوں برادرم رئوف کلاسرہ کا کالم پڑھ کر عمر شیخ اور اسی شام فاران بیگ کے تبادلے کی خبر ملی۔ قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کو کسی شکائت، ناقص کارگزاری یا فرائض میں غفلت کی بنا پر نہیں بااثر افراد بالخصوص عوامی نمائندوں کی سفارش پر تبدیل کیا گیا۔ تحریک انصاف کو تعلیم یافتہ، متوسط طبقے میں سب سے زیادہ پذیرائی اس نعرے پر ملی کہ وہ ملک میں میرٹ کا نظام لائے گی، پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرے گی اور دیانتدار و ایماندار افسروں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، گزشتہ دس ماہ کے دوران بیورو کریسی اور پولیس میں وقفے وقفے سے تبادلوں کا جو سونامی آیا اس نے میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف پر لگنے والے الزام کو غلط ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر کسی افسر کو زیادہ دیر کسی ضلع اور ادارے میں ٹکنے نہیں دیتے اور دیانتدار، بااصول اور اہل افسروں کو پریشان دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ پنجاب میں تبادلوں کا یہ تیسرا یا چوتھا جھکڑ ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اس کے ذمہ دار ہیں، چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر یا آئی جی عارف نواز؟ کوئی بھی وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتا، بار بار تبادلوں سے گورننس کا بیڑا تو غرق ہو ہی رہا ہے، اچھے افسروں کے حوصلے بھی پست ہونا فطری ہے سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ عوامی سطح پر امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور حکمرانوں کی تلون مزاجی سے لطیفے جنم لے رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ اپنے دو پرنسپل سیکرٹری بدل چکے ہیں اور مختلف محکموں کے سیکرٹری اتنی بار تبدیل ہو ئے کہ کسی بیٹ رپورٹر سے پوچھیں کہ فلاں محکمہ کا سیکرٹری آج کل کون ہے؟ تو بے چارا چکرا جاتا ہے مبادا کوئی غلط نام لے بیٹھے۔ جن دنوں پاکستانی کرکٹ کے بریڈ مین ظہیر عباس ان فٹ اور صفر پر آئوٹ ہوا کرتے، یہ لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ موصوف بیٹنگ کے لئے جاتے ہوئے ساتھ بیٹھے کھلاڑی کو سلگتا ہوا سگریٹ پکڑا جاتے کہ یہ لو میں ابھی آئوٹ ہو کر آیا۔ ان دنوں پنجاب حکومت کے سیکرٹری گھر سے دفتر جاتے ہوئے بیوی بچوں کو ہدائت کرتے ہیں کہ میں دفتر جا رہا ہوں فون آئے تو کسی کو بتانا نہیں کہ کس دفتر جا رہا ہوں، ممکن ہے راستے میں کسی دوسرے دفتر رپورٹ کرنے یا گھر میں بطور او ایس ڈی آرام کرنے کا پیغام مل جائے۔ عمران خان کو مختلف مافیاز کا سامنا ہے جواپوزیشن کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام کرنے کے درپے ہیں۔ ڈالر کی اونچی اڑان اور مہنگائی نے تاجروں، سرمایہ کاروں اور عام آدمی کے اوسان خطا کر دیے ہیں اور ذخیرہ اندوز، ٹیکس چور، گراں فروش، منشیات فروش بے قابو ہیں مقابلہ اچھی پولیس اور انتظامیہ کے علاوہ عوام اور پرجوش کارکنوں کے تعاون سے ہو سکتا ہے مگر کم از کم پنجاب کی حد تک حکمران خود بھی کنفیوژڈ ہیں اور دوسروں کو بھی حتی الامکان اپنے نقش قدم پر چلانے کے لئے کوشاں، جس افسر کو یہ علم ہے کہ کل معلوم نہیں وہ اپنی سیٹ پر ہو گا یا نہیں وہ خاک مستقبل کی پلاننگ کرے گا، آج کا کام یکسوئی سے نمٹائے گا وہ تو پورا دن ادھر اُدھر سے یہ گن سن لینے میں مشغول رہے گا کہ وزیر اعلیٰ ہائوس، سول سیکرٹریٹ، چیف سیکرٹری آفس اور آئی جی آفس میں کون سا وزیر، سینیٹر ایم این اے، ایم پی اے اس کی جائز ناجائز شکائت لے کر پہنچا ہے؟ وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس اس کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ اور اسے اپنے بچائو کے لئے اب کیا کرنا چاہیے۔ آئے دن تبادلوں سے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ اپنی حکومت بچانے، ناکامیوں سے توجہ ہٹانے اور ارکان اسمبلی کے علاوہ اپنے دوست احباب، عزیز اقارب کو خوش کرنے کے لئے موجودہ حکمران بیورو کریسی کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں جبکہ حکومت کے مخالفین اس پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ عمران خان عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری میں ناکام رہے اور پنجاب میں ان کے وزیر اعلیٰ انتظامیہ اور پولیس پر اپنی مضبوط گرفت ثابت کرنے کے لئے افسروں کو پورے صوبے میں گھماتے رہتے ہیں۔ مخالفین یہ پروپیگنڈا بھی کرتے ہیں کہ عمران خان اور بزدار کے ہاتھ پلّے کچھ نہیں، تقرر و تبادلوں کا فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے اور علیم خان و سبطین خان کی گرفتاری بھی انہی قوتوں کا کیا دھرا ہے، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تو اتنے مجبور و بے بس ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں گنگنا سکتے ؎ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کیجو چاہو سو آپ کرو، ہم کو عبث بدنام کیاقرضے اتارنے، مہنگائی روکنے اور روزگار فراہم کرنے کے لئے تو واقعی اربوں ڈالر درکار ہیں کیا سفارشی کلچر کی روک تھام اور فرض شناس بھلے مانس افسروں کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی آئی ایم ایف، ورلڈ بنک سے اجازت اور قرضے کی ضرورت ہے کہ تبدیلی سرکار حکومت دس ماہ میں یہ کوہ ہمالیہ سر نہیں کر سکی۔ عمر شیخ اور فاران بیگ سے کہیں ملا تو پوچھوں گا ضرور کہ ان کا اصل قصور کیا تھا؟ دل مانتا نہیں کہ تبدیلی سرکار کسی کے دبائو اور سفارش پر یہ بدنامی مول لے۔