کوئی ان سے نہیں کہتا‘نہ نکلو یوں عیاں ہو کر
امریکی اور یورپی میڈیا، حکمران، فوجی حکام اور سابقہ افغان حکومت کے وابستگان یہ تو مان رہے ہیں کہ طالبان نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا، مکمل تسلط کے بعد کسی دبائو کے بغیر، قبائلی روایت کے برعکس محض سرور کائنات رحمتہ للعلمین ﷺ کی پیروی میں اشرف غنی، عبدالرشید دوستم، امراللہ صالح جیسے بدترین دشمنوں سمیت مخالفین اور شکست خوردہ عناصر کے لئے معافی کا اعلان ہوا، قلعہ جنگی یاد رکھا نہ دشت لیلیٰ کے غیر انسانی مظالم کا بدلہ لیا، خواتین کے حقوق کی پاسداری کی، ٹی وی چینلز پر، بازاروں اور دفاتر میں خواتین کو اپنے فرائض انجام دینے کی آزادی ہے اور کابل ایئر پورٹ کے سوا(جہاں تاحال امریکی فوج کا راج ہے) کہیں لاقانونیت، انسانی حقوق کی پامالی کا کوئی واقعہ ظہور پذیر نہیں ہوا، امریکی صدر بائیڈن، سرعام اعتراف کر چکے ہیں کہ طالبان نے انخلا میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالی نہ ملک سے باہر جانے والوں کو روکا، یہ طالبان کی نیک نیتی، مستقبل بینی اور ماضی سے سبق سیکھنے کا ثبوت ہے۔
امریکہ اور نیٹو کی فوجی شکست کا اعتراف سابق صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔ اشرف غنی کا فرار اور افغان فوج کا لڑے بغیر ملک طالبان کے حوالے کرنا کسی سے مخفی نہیں، بورس جانسن امریکی صدر پر زور دے رہے ہیں کہ وہ فوجی انخلا کی مقررہ تاریخ 31۔ اگست میں توسیع کے لئے طالبان سے نیا معاہدہ کریں جبکہ فوجی انخلا کو 31۔ مئی سے 31اگست تک لے جانا بھی دوحا معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ان تلخ زمینی حقائق کا تقاضہ یہ تھا اور ہے کہ طالبان امریکہ، اتحادیوں اور اشرف غنی کو قانونی صدر قرار دے کر کئی سال تک اس کی پشت پناہی کرنے والے ہمسایوں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ امارات اسلامی افغانستان کو جائز اور قانونی ریاست تسلیم کر کے رضا کارانہ طور پر تعمیر نو کے لئے اربوں ڈالر کے فنڈز مختص کریں۔ امریکہ اور یورپ نے جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد جاپان اور جرمنی کی تعمیر نو کے لئے بھر پور امداد دی، جرمنی کے لئے مارشل پلان تشکیل پایا اور ان تباہ شدہ ممالک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی سعی و تدبیر ہوئی۔ ہو مگر کیا رہا ہے؟ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم سے کسی نے پوچھا کہ آپ ہر حکمران کی غلطیوں کو اچھالتے، غیر جمہوری اقدامات کی نشاندہی کرتے اور مخالف سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے احتجاجی تحریک چلا دیتے ہیں کیا آپ نے جمہوریت بحال کرانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ نوابزادہ صاحب نے حقے کی نے منہ میں لی، کش لیا اور کہا ؎
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا، نہ نکلو یوں عیاں ہو کر
طالبان سے ان کے بدترین دشمنوں کی نئے حکومتی ڈھانچے میں شمولیت، خواتین کے حقوق کی پاسداری اور جدید تقاضوں کے مطابق تشکیل کا مطالبہ کرنے والوں سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ انسانی حقوق، مخالفین کے ساتھ درگزر، حتیٰ کہ ازرہ مروت ان کی حکومتی انتظام میں شمولیت، انہیں گزشتہ بیس سال کے دوران کیوں یاد نہ رہا، جب پاکستان نے بون کانفرنس میں طالبان کو مدعو کرنے کا آئیڈیا پیش کیا تو اسے حقارت سے ٹھکرا دیا گیا، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 14نکاتی فارمولے کے ذریعے امریکہ کو دانش مندی کی راہ سجھائی مگر صدر اوبامہ اور مائیک مولن نے سنی ان سنی کر دی ؎
جو کہا تو سن کے اڑا دیا
جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
افغانستان کی بگرام جیل اور امریکہ کے عقوبت خانے گوانتانا موبے میں طالبان اور عرب قیدیوں سے جو سلوک ہوا وہ طالبان نے بھلا دیا مگر امریکہ، یورپ او ران کے دیگر اتحادی اب بھی طالبان سے Do more کہہ رہے ہیں، شکست خوردہ عناصر کی یہ دیدہ دلیری تاریخ کا حیرت انگیز پہلو ہے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کو آخر کیا ہوا؟ وہ بھی ہمسائیگی کے تقاضے، پاک افغان تعلقات کی نزاکتوں اور فاتح طالبان کی نفسیات کو یکسر نظر انداز کر کے کابل کے نئے حکمرانوں سے وہی فرمائش کر رہا ہے جو فقط امریکہ و یورپ کو سازگار ہے، آخر پاکستان اور پاکستانی دانشور و تجزیہ کار امریکہ و یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے سے کیوں کتراتے ہیں کہ بھلے لوگو!طالبان نے اپنی نیک چلنی کا ثبوت دیدیا اب آپ کی باری ہے، طالبان حکومت کو تسلیم کر کے ہی آپ ان کی نگرانی کر سکتے ہیں ان سے کچھ منوا سکتے ہیں، کرپٹ، نااہل اور غیر مقبول حکمرانوں پر آپ نے دو ہزار ارب ڈالر ضائع کر دئیے، ناکامی کا داغ سہا، اب ایماندار، محب وطن اور عوامی سطح پر مقبولیت کا تازہ ترین ثبوت فراہم کرنے والوں کو مزید تنگ کرنے، افغانستان میں عدم استحکام کے بیج بونے اور نت نئے مطالبات دہرانے سے انہیں ایک بار پھر جنگجوئی کی طرف نہ دھکیلیں، مشرق و مغرب، شمال و جنوب کے سب " مہذب۔ ترقی پسند۔ روشن خیال" اور" جدیدیت پرست" انہیں گلے سے لگائیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھیں، اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں اور افغان عوام کو امن و آسودگی فراہم کرنے کے لئے اپنی عالمی و انسانی ذمہ داریاں نبھائیں، کہ صرف اسی طرح افغانستان اقوام عالم کے شانہ بشانہ کھڑا ہو سکتا ہے۔
پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر امریکہ و نیٹو کے باعزت و محفوظ انخلا کی راہ ہموار کی، امریکہ اگر اشرف غنی پر قرار واقعی دبائو ڈال کر مخلوط حکومت کی بروقت تشکیل پر آمادہ کر لیتا تو شکست کے تاثر سے بچ سکتا تھا مگر اس نے 1990ء کے عشرے کی بھیانک غلطی دہرائی، بوریا بستر سمیٹا اور افغانستان میں خانہ جنگی کے اسباب پیدا کر کے چلتا بنا، قدرت کو مگر کچھ اور ہی منظور تھا، یہ جلد بازی اور عیاّری امریکہ کی جڑوں میں بیٹھ گئی، سابق صدر بش اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک سے زائد بار یہ وعدہ کیا کہ ان کا ملک ماضی کی طرح پاکستان اور افغانستان کو بھلا کر واپس نہیں جائے گا مگر بائیڈن انتظامیہ وہی غلطی دہرا رہی ہے، نہیں جانتی کہ کوئی غلطی بانجھ نہیں ہوتی، انڈے بچے دیتی ہے۔ ضرورت اس وقت طالبان سے ڈومور کی نہیں، امریکہ اور یورپ بلکہ اقوام عالم سے ڈومور کی ہے کہ وہ نیک نیتی کا جواب نیک نیتی سے دیں، مفاہمتی جذبے اور مخالفین کو گلے لگانے کی قابل رشک روایت کی قدر کریں۔ جوابی خیر سگالی سے ثابت ہو گا کہ اقوام عالم کو افغانستان کا پرامن مستقبل عزیز ہے یا خانہ جنگی، عدم استحکام اور افراتفری۔ حیلہ جوئی اور بہانہ سازی کی دیرینہ عادت اقوام عالم اور ہمسایہ ممالک کی مشکلات میں اضافہ کرے گی، طالبان سے آپ مزید بُرا کیا کر سکتے ہیں؟ کوئی شخص ہو، گروہ یا قوم اخلاقی برتری کے اُصول پر قائم، عجز و انکسار، عفو و درگزر اور تسلیم و رضا پر آمادہ ہوتو اسے کمزوری سمجھنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ اپنے آپ کو مہذب، جدت پسند اور علم و فضل کا پیکر سمجھنے والوں کو دانش مندی زیبا ہے، ہٹ دھرمی اور من مانی نہیں۔