خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
کس کا یقیں کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں اس کی بزم سے، یار خبر الگ الگ
اسلام آباد ان دنوں قیاس آرائیوں کی زد میں ہے، ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر پاکستان کے جمہوری دور میں پہلی بار ہوا ہے نہ فوج کے محکمہ اطلاعات سے خبر کا اجراء منفرد واقعہ، ماضی بعید کو چھوڑیے، عمران خان کے دور حکومت میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے بطور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس تقرر کی اطلاع میڈیا اور عوام کو آئی ایس پی آر نے دی، وزیر اعظم ہائوس سے اعلان ہوا نہ نوٹیفکیشن منظر عام پر آیا، صحافیوں نے بھی کبھی یہ پوچھنے کا تردد نہ کیا کہ وزیر اعظم نے تقرّر کی منظوری دی ہے یا نہیں اور نوٹیفکیشن کب جاری ہو گا۔ اس بار بھی تقرر، تبادلوں کی خبر کو معمول کا حصہ سمجھا گیا اور دو دن تک ریگولر میڈیا نے بحث و تمحیص کی ضرورت محسوس نہ کی، سوشل میڈیا پر دھوم مچی تو اخبار نویسوں نے آئی ایس پی آر اور حکومتی ترجمانوں سے رجوع کیا اور دونوں کے الگ الگ موقف سے اختلاف رائے کا شگوفہ پھوٹا، غلطی کہاں ہوئی؟ اب تک کوئی ماننے کو تیار نہ بتانے کے موڈ میں، اعتماد کا فقدان؟ یا خودی کا نشہ اُترنے میں نہیں آ رہا؟ کوئی نہیں جانتا، طویل ملاقات میں جو کچھ طے پایا، برف پگھلنے اور معاملہ آئین و قانون کے مطابق حل ہونے کا مژدہ سنایا گیا اُسے بھی ایک ہفتہ بیت گیا گویا خوشگوار ملاقات کی گفتگو محض رات کی بات تھی اور ؎
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑیے رات گئی بات گئی
کابینہ اور پارلیمانی پارٹی میں وزیر اعظم کی گفتگو اور وزرائے کرام کی پریس کانفرنس سے مختلف قیاس آرائیوں نے جنم لیا اور وہ جو کہتے ہیں "منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی" ہر زبان پر ایک نئی سازشی کہانی ہے، سازشی کہانیوں میں سرفہرست تو چلہ کشی، استخارہ اور موکلوں کی مداخلت والی کہانی ہے۔ مگر واقفان حال اسے سیاسی مخالفین کی اڑائی ہوئی ہوائی قرار دیتے ہیں اور ایک باپردہ خدا رسیدہ خاتون پر تہمت و بہتان، ویسے بھی اپنی گفتگو کا آغاز ایاک نعبدو ایاک نستعین سے کرنے والے حکمران سے توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ ماضی کے تجربات کے پیش نظر ایک مقبول کہانی یہ بھی چل رہی ہے کہ خان صاحب بھی ایوان اقتدار میں تین سال گزارنے کے بعد محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی طرح خود مختار اور طاقتور وزیر اعظم کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کے درپے ہیں۔ اپوزیشن اور میڈیا کے ایک حصہ کی طرف سے" سلیکٹڈ "کی گردان سن کر ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا، امریکی ٹی وی کے اینکر نے انتہائی بدتمیزی سے انہیں اسلام آباد کا میئر قرار دے کرہمالیہ سے بلند انا کو ٹھیس پہنچائی اور موقع ملتے ہی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ عوام اور مخالفین کو یہ باور کرایا کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں مداخلت پسند کرتے ہیں نہ سابقہ وزراء اعظم کی طرح محض زبانی کلامی معاملہ فہمی(انڈر سٹینڈنگ) پر یقین رکھتے ہیں، ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر میرا اختیار ہے تو نوٹیفکیشن کا اجراء بھی میرے دفتر سے ہونا چاہیے اور میں اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت فیصلے کو ایک بار بدلوں یا سو بار کسی کو مداخلت کا حق ہے نہ ماضی کی روایت یاد دلانے کی ضرورت۔ یوٹرن ویسے بھی دانا اور مضبوط حکمران لیتے ہیں، ہر ایرے غیرے نتھو خیرے میں یہ ہمت کہاں؟
میاں نواز شریف کے آخری دور اقتدار میں لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی فرائض انجام دئیے، میں نے میاں صاحب کے قریبی رفقا کار سے پوچھا تو ان میں سے ایک نے اپنی معلومات اور دوسرے باخبر و بااعتماد دوست نے میاں صاحب سے احتیاطاً تصدیق کے بعد بتایا کہ دونوں بار ماضی کی روایت کے مطابق آرمی چیف نے کور کمانڈرز کانفرنس کے فیصلوں کی روشنی میں ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل کا نام پیش کیا، اس کی اہلیت و صلاحیت اور سابقہ کارکردگی پر روشنی ڈالی، زبانی منظوری لی اور فوج کے محکمہ اطلاعات عامہ نے خبر جاری کر دی، سمری آئی بھی تو صرف ایک نام پر مشتمل، زبانی گفتگو کو کافی سمجھا گیا اور نوٹیفکیشن جاری ہو گیا، لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کے تقرّر کا اعلان ایسے ہی ہوا اور لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ناموں کا اعلان بھی عمران خان کے دور حکمرانی میں آئی ایس پی آر نے کیا، کسی کو سمری یاد ہے نہ نوٹیفکیشن کا تکلّف۔
یہ بے پرکی بھی اڑائی جا رہی ہے کہ عمران خان تین سال میں احتساب کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے نہ گڈ گورننس کا اہتمام کر پائے، مہنگائی اور بے روزگاری روز افزوں ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ کی پیش قدمی جاری، جن سیاسی مخالفین کو وہ تاحیات جیل میں اور سیاسی و انتخابی عمل سے مستقلاًخارج دیکھنا چاہتے ہیں وہ اعلیٰ عدالتوں سے ضمانتیں منظور کرانے کے بعد ملک بھر میں دندناتے پھرتے ہیں، مریم نواز، میاں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف، ایک بھی قید ہے نہ سزا یاب، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج نے اگلے عام انتخابات کی واضح تصویر کشی کی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے اگلے انتخابات "شفاف انداز" میں ہونے کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، دانا مشیروں نے عمران خان کو 1993ء، 1999ء اور 2017ء کا نواز شریف بننے کا مشورہ دیا، "چڑھ جا سولی پہ رام بھلی کرے گا" تین سالہ ناکامیوں کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ رکاوٹوں، مداخلت بے جا اور عدلیہ کی طرف سے شریف خاندان کی بے جا ناز برداری پر ڈال کر عوام کا سامنا کرنا آسان بلکہ ماضی کا آزمودہ نسخہ ہے سو خان صاحب نے بھی ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر اپنے حامیوں کو باور کرایا ہے کہ وہ آئین و قانون کی بالادستی اور وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیارات کی بحالی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور تخت یا تختہ کی اس لڑائی میں اقتدار کی قربانی دینے، سیاسی شہید بننے پربخوشی آمادہ، دور کی یہ کوڑی لانے والے دو تین گھنٹے کی مار نوٹیفکیشن کے اجراء میں کم و بیش دو ہفتے کی تاخیر کے ڈانڈے محمد خان جونیجو سے ملاتے ہیں جو جنرل ضیاء الحق کے روبرو اپنا آپ منوانے کے لئے کبھی صدر کے اردلی پیر محمد کی فائل روک لیتے تھے، کبھی متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زائد بن سلطان النہیان کے دورہ پاکستان کی فائل پر لکھتے کہ "انہیں صدر ضیاء الحق نے کس حیثیت میں دعوت دی؟ "اور کبھی ایوان صدر کے معمولی اخراجات کی منظوری دینے سے انکار کر دیا کرتے تھے، آج کل صورتحال اگرچہ اس قدر خراب نہیں مگر ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کا معاملہ لٹکا کر حکومت اور فوج کی ایک صفحہ پر موجودگی کا تصوّر پاش پاش کر دیا گیا۔
کون سے ملک میں وزیر اعظم کو کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے سامنے اس وضاحت کی ضرورت پیش آئی کہ اس کے اپنے آرمی چیف کے ساتھ تعلقات مثالی ہیں؟ وزیر خارجہ، وزیر اطلاعات، وزیر داخلہ اور دیگر وزراء بار بار یہ یقین دہانیاں کب کرواتے ہیں کہ معاملہ طے پا گیا ہے بس قاعدے ضابطے کی کارروائی مکمل ہوتے ہی نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا؟ طویل خوشگوار ملاقات کو ایک ہفتہ گزر چکا، تادم تحریر نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، اگر خوشگوار ملاقات کا یہ حال اورحاصل ہے تو خدانخواستہ ناخوشگوار صورتحال سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا یا ہو گا؟ اللہ کرے کہ فواد چودھری، شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید احمد کے اعلانات کے مطابق مثالی تعلقات برقرار رہیں اور سازشی کہانیاں اپنی آپ موت آپ مرجائیں لیکن اگر قانونی طریقہ کار کے مطابق سمری اور صوابدیدی اختیار کے تحت حق انتخاب پر، اصرار جاری رہا اور لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے تقرّر کو بطور روایت و مثال کافی نہ سمجھا گیا تو کتاب جمہوریت کا خوش نما صفحہ خوب داغ دار ہو گا، ضد، ہٹ دھرمی اور انا کسی کو زیبا ہے نہ لگائی بجھائی کرنے والے کسی ایک کے خیر خواہ ؎
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ، مگر بنا نہ گیا