کھودا پہاڑ نکلا چوہا
مولانا فضل الرحمن نے ساری اپوزیشن کو مشکل میں ڈال دیا، نگلنا آسان نہ اگلنا سہل۔ اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے اور چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، کہنا آسان ہے کرنا مشکل۔ مولانا بھولے ہیں نہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سوچ سے ناواقف۔ اگر اسمبلیوں سے استعفے دینے ہوتے تو آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف اپنے منتخب ساتھیوں سمیت پچھلے سال رکن اسمبلی کے طور پر حلف کیوں اٹھاتے، پبلک اکائونٹس سمیت قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے لئے سر دھڑ کی بازی کیوں لگاتے اور نیب میں پیشیوں اور گرفتاریوں کے باوجود اسمبلیوں میں کیوں بیٹھے نظرآتے؟ مولانا عرصہ دراز سے اقتدار کا حصہ ہیں اور سیاسی حرکیات سے واقف مگر انہیں شریف اور زرداری خاندان کی مجبوریوں کا حقیقی ادراک ہے نہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی میں اندرونی کشمکش سے کامل آگہی۔ وہ میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ کام کر چکے ہیں مگر مریم نواز اور بلاول بھٹو کے عزائم سے واقف ہیں نہ انداز فکر سے کماحقہ آشنا۔ میثاق معیشت کی تجویز پر مریم نواز شریف نے اپنے چچا اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف کو جس شرمندگی سے دوچار کیا مولانا اس کا شائد کبھی تصور نہ کر سکیں۔ میاں شہباز شریف نے میثاق معیشت کی تجویز پیش کی اور اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں نے بجٹ اجلاس میں بار بارتجویز کو دہرایا۔ توقع یہ تھی کہ عمران خان رد کر کے مخالفین کے علاوہ میڈیا کو منفی پروپیگنڈے کا موقع دیں گے مگر ہوا برعکس اور مریم نواز نے سنجیدہ تجویز کو مذاق معیشت قراردے کر شہباز شریف کو ایاز قدر خود بشناس کا احساس دلایا۔ پاکستان میں معیشت کی زبوں حالی سے پریشان عوام اور خواص دونوں کو مایوسی ہوئی، جو ماضی کے تلخ تجربات کی بنا پر معاشی پالیسیوں کا تسلسل چاہتے اور معیشت پر سیاست، پوائنٹ سکورنگ کو عوام دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بھارت میں کروڑوں نہیں تو لاکھوں انسان اب بھی بھوکے پیٹ فٹ پاتھوں پر سوتے، رفع حاجت کے لئے، کھیتوں، کھلیانوں کا رخ کرتے اور باعزت روزگارکو ترستے ہیں۔ مگر مجال ہے کوئی اس معاملے پر سیاست کرے اور روٹی، کپڑا، مکان جیسا جذباتی نعرہ لگائے۔ ہر سیاستدان جانتا ہے کہ ریاست کے پاس وسائل ہیں نہ کوئی جماعت مختصر مدت میں اتنے بڑے انسانی مسئلہ کو حل کر سکتی ہے۔ برسر اقتدار آ کر بی جے پی نہ تو کانگرس کے ترقیاتی منصوبوں کو ٹھپ کرتی ہے نہ عوام دوست پالیسیوں کو محض اس بنا پر کالعدم قراردیتی کہ اس کا کریڈٹ ماضی کے کسی حکمران کو جا رہا ہے۔ پالیسیوں کا تسلسل ترقی و خوشحالی، معاشی استحکام اور جمہوریت کی مضبوطی میں اہم کردار اداکرتا ہے اور میثاق معیشت کی تجویز اس مقصد کے لئے دی گئی مگر مریم نوازنے مسترد کر کے حکومت و اپوزیشن کے مابین مفاہمت کا امکان ختم کر دیا۔ شریف خاندان میں جنگ اقتدار تو عرصہ دراز سے چل رہی ہے مگر شدت اب پیداہوئی ہے۔"چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کریگا" کا راگ الاپنے والے مشیر کچھ بھی کہیں مگر اندر خانہ یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ میاں شہباز شریف اور نثار علی خاں کے برعکس میاں نواز شریف نے مریم نواز، پرویز رشید اور طارق فاطمی کے مشوروں کو قبول کر کے پارٹی اور شریف خاندان کو اندھی گلی میں دھکیل دیا ہے اور تصادم و محاذ آرائی کی پالیسی سے مشکلات بڑھ سکتی ہیں، کم ہونے کا امکان نہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں شریف خاندان کا اعتبار برقرارتھا اور اندرون و بیرون ملک ہمدردوں کی تعداد زیادہ۔ مدمقابل بھی کوئی مقبول سیاسی حکمران نہیں ایک ایسا فوجی آمر تھا جس نے آٹھ سال تک عوام میں مقبولیت حاصل کی نہ مقبول سیاسی قیادت کو ساتھ ملا کر بے نظیربھٹو اور نواز شریف کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی تدبیر فرمائی۔ یہ اندیشہ بھی ہے کہ اگر حکومت اسحق ڈار کو وطن واپس لانے میں کامیاب ہو گئی تو سودے بازی کی پوزیشن مزید کمزورہو گی اوربچائو کی رہی سہی امیدیں دم توڑ جائیں گی کہ کمزور دل ڈار صاحب شریف خاندان کے کاروبار کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیں گے اور حدیبیہ پیپرز ملز کیس سے حاصل فوائد سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ لہٰذا جس قدر جلدممکن ہے کچھ دے دلا کر جان چھڑا لی جائے۔ میاں نواز شریف اورمریم نواز بیرون ملک جا کر حسین نواز، حسن نواز، سلمان شہباز اور علی عمران کی طرح عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں اور میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز سے مل کر اچھے وقت کا انتظار۔ آل پارٹیز کانفرنس کو شریف اور زرداری خاندان دونوں بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کرنے کے خواہش مند تھے مگر مولانا نے جلد بازی میں اے پی سی کی افادیت کم بلکہ ختم کر دی۔ اے پی سی کے اختتام پر جاری ہونے والا اعلامیہ تو دل کے پھپھولے پھوڑنے کے مترادف ہے۔ کہاں اجتماعی استعفوں کی باتیں اور کہاں یہ لفاظی کا شاہکار اعلامیہ۔ بے ضرر اعلامیہ نے ڈیل کی اطلاعات کو تقویت پہنچائی ہے۔ مریم نواز اور بلاول کی موجودگی میں اگر اجتماعی استعفوں کا فیصلہ نہیں ہو سکا اور سڑکوں پر نکلنے کے دعوے بھی ٹھس ہو گئے تو مولانا یا اپوزیشن کی پٹاری میں اور کون سا سانپ ہے جس سے حکومت خوفزدہ ہو۔ دس ماہ بعد حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک مولانا اور مریم نواز کی خواہش ہو سکتی ہے کسی پختہ فکر سیاستدان کا فیصلہ نہیں جبکہ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو محروم اقتدار کر کے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں سے کوئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے نہ تحریک انصاف کا کوئی گروپ یا مسلم لیگ ق ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کو تیار۔ نئے انتخابات کے حوالے سے کون یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ اپوزیشن کی یقینی کامیابی کا پیش خیمہ ثابتہوں گے، یہ عمران خان کی سادہ اکثریت میں اضافے کا باعث بھی تو بن سکتے ہیں۔ سابقہ تنخواہ پر کام کرنے کے سوا کوئی چارہ کار ہے نہ موجودہ برے بھلے جمہوری پارلیمانی نظام کو برقرار رکھنے کی کوئی دوسری صورت۔ یہ موجودہ نظام کا کرشمہ ہے کہ نیب کے قیدی اسمبلیوں میں اور میڈیا کے روبرو گرج برس رہے ہیں اور ریاست و ریاستی مشینری ان کے سامنے ہاتھ باندھے ملزموں کی طرح کھڑی ہے۔ ہر ہوش مند جانتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے باعزت انخلا کی حاجت ہے، پاک فوج بیرونی اور اندرونی محاذوں پر الجھی ہے اور معاشی صورتحال دگرگوں۔ ایسے میں نئے انتخابات یا ایوان میں تبدیلی کا آپشن پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم عناصر کے سوا کسی کے لئے پرکشش و قابل قبول تھا، ہے۔ نواز شریف، مریم نواز، مولانا اور اچکزئی اور اسفند یار ولی کا درد مشترک ہے مگر اس کا درماں وہ کیوں کریں جو پارلیمانی رکنیت کے باعث ان صعوبتوں سے بچے ہیں، جن کا عام معصوم اور بے قصور شہریوں کو آزاد زندگی میں سامنا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں مریم نواز اگر مولانا کی طرح اپنے چچا میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو ہمنوا بنا کر کوئی پتہ کھیل جاتیں تو شائد سودے بازی کی پوزیشن بہتر ہوتی مگر یہ کانفرنس نشستند، گفتند، خوردند و برخاستند تک محدود رہی، مولانا کی خطابت رنگ جما پائی، نہ اسفند یارولی کی جذباتیت اورنہ مریم نواز کی نسوانی اپیل۔ مولانا کی آل پارٹیز کانفرنس ؎بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کاجو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلاثابت ہوئی، اب شاید احتساب کا عمل مزید تیز ہو، کچھ دے دلا کر جانا چھڑانے کی شریفانہ کوششوں میں پیش رفت کا امکان بڑھے اور میثاق معیشت کی تجویز زیادہ سنجیدگی سے آگے بڑھے، یہی حالات، وقت، ملک، قوم اورجمہوری نظام کی ضرورت ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں سے تو لگتا یہی ہے کہ اپوزیشن میں بھی مصالحت پسند گروپ حاوی رہا۔ میاں شہباز شریف کا بیانیہ موثر ہے اور مریم نواز شریف وہاں بھی اپنا رنگ جما نہیں سکیں اے این پی کی حمائت اکارت گئی اور مولانا کی طلاقت لسانی محض پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی۔ چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جب آئی تو دیکھا جائے گا کہ ہونٹوں اور چائے کے کپ کے مابین ابھی بہت فاصلہ، بہت کچھ حائل ہے۔