حمیّت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
سری نگر اور دیگرشہروں کا فوجی محاصرہ جاری ہے۔ مارشل لاء کے دوران جموں و کشمیر کے عوام کی حالت ہٹلر دور میں نازی کیمپوں کے مکینوں سے بدتر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کشمیریوں کو اپنے گھروں میں رہ کر انہی مصائب کا سامنا ہے جن سے نازی کیمپوں کے باسی گزرے۔ عزیز و اقارب سے رابطہ منقطع، خوراک و ادویات کی کمی، باہر نکلنے پر گولی لگنے کا اندیشہ اور تاریک مستقبل کا خوف۔ بی بی سی سمیت بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور بھارت میں کام کرنے والی این جی اوز کے جو نمائندے سرینگر پہنچ پائے ان سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ بھارتی حکومت اور فوج نے جبر و تشدد کی شرمناک مثالیں قائم کی ہیں، بڑے تو بڑے گیارہ بارہ سال کے بچے تک اٹھا کر حراستی کیمپوں میں پہنچا دیے جہاں ان پر دن رات بہیمانہ تشدد ہوتا ہے ان زیر حراست افراد پر تشدد کے دوران ان کی آہ و بکا کی آواز لائوڈ سپیکروں کے ذریعے گھروں میں دبکے مردوزن کو سنائی جاتی ہے تاکہ وہ خوفزدہ ہوکر مزاحمتی سوچ سے توبہ کر لیں اور ظالمانہ بھارتی اقدامات کو درست مانیں۔ دوران تشدد جاں بحق ہونے والے نوجوانوں کو رات کے اندھیرے میں گمنام قبروں کا رزق بنانے کی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں اور بیمار سید علی گیلانی، یاسین ملک سمیت کشمیری قائدین کے بارے میں کسی کو علم نہیں کہ کس حال میں ہیں؟
انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر دنیا بھر کے انسان دوست حلقے مضطرب ہیں۔ اپنے اپنے انداز میں ردعمل بھی ظاہر کر رہے ہیں مگر جتنی بے حسی عالم اسلام بالخصوص عالم عرب میں نظر آتی ہے وہ کہیں بھی نہیں۔ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے تو کمال کر دیا۔ نریندر مودی کو دورے کی دعوت غالباً پہلے سے دے رکھی تھی، اب اعلیٰ ترین سول شیخ زید ایوارڈ دینے کا اعلان بھی کر دیا۔ 1990ء میں سرینگر میں پرامن حریت پسند عوام کے خلاف بھارتی حکومت نے پر تشدد کارروائی کی، شہادتیں ہوئیں تو ایران کے وزیر خارجہ نے نئی دہلی کا دورہ منسوخ کر دیا۔ یہ کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا اور اسلامی اخوت کا عظیم مظاہرہ ؎
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
اسی دور میں او آئی سی کا کشمیر رابطہ گروپ تشکیل پایا جس کے اجلاسوں میں حریت کانفرنس کے رہنما شریک ہوتے اور جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورت حال سے شرکاء کو آگاہ کرتے۔ اب مگر حالت یہ ہے کہ بھارتی فوج اور آر ایس ایس کے غنڈے جموں و کشمیر کے عوام کی نسل کشی میں مصروف ہیں، بھارت میں کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے اور امریکہ، برطانیہ، روس تک تشویش میں مبتلا ہیں مگر متحدہ عرب امارات کی حکومت گجرات کے قصائی، کشمیریوں کے قاتل اور عہد جدید کے ہٹلر نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازرہی ہے۔ پانچ سالہ دور اقتدار میں مودی نے مسلمانوں سے نفرت، کشمیریوں کی نسل کشی اور پاکستان کے خلاف جارحیت کے سوا کون سی انسانی اور سماجی خدمات انجام دیں صرف یو اے ای کے حکمرانوں کو علم ہو گا، کوئی بھارتی شہری جانتا ہے نہ عالمی میڈیا۔
عرب دنیا کو اللہ تعالیٰ نے وسیع رقبے، معدنیات اور دیگر نعمتوں سے نوازا، محض مسلمانیت اور عربی زبان کے طفیل دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان ان کی عزت کرتے اور انہیں اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی، علم اور ٹیکنالوجی سے لیس انسان نسل، انفس و آفاق کی وسعتوں میں گم ہے مگر ہمارے عرب بھائی محض تیل و گیس اور دیگر معدنیات کو دنیا و آخرت کی سربلندی کا وسیلہ سمجھ کر بدترین خود پسندی و مفاد پرستی کا شکار ہیں، کھجور کی گٹھلی کے برابر صیہونی ریاست اسرائیل نے ان کا ناک میں دم کر رکھا ہے اور وہ وقتاً فوقتاً گریٹر اسرائیل کی صورت میں حجاز مقدس تک پائوں پھیلانے کی دھمکیاں دیتی ہے لیکن عرب بھائیوں کی دانش و بصیرت کا یہ عالم ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں اپنی قوت جمع کرنے کے بجائے اس سے کہیں بڑے زیادہ تنگ نظر، اسلام دشمن اور توسیع پسندانہ عزائم کے حامل بھارت کے عشق میں مبتلا ہیں اور نریندر مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سرگرداں۔ بے حسی بلکہ سنگدلی اس قدر کہ انہیں جموں و کشمیر کے طول و عرض میں بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے کشمیری نوجوانوں کی مائوں بہنوں، بیٹیوں کے بین سنائی دیتے ہیں نہ عیدالاضحیٰ اور جمعہ کے روز ویران عید گاہیں اور مسجدیں نظر آتی ہیں اور نہ یتیموں، بیوائوں کی آہیں ان کے دل و دماغ پر ہتھوڑے برساتی ہیں ؎
بے دلی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
صرف عرب اور غیر عرب مسلمانوں کا رونا کیوں؟ پاکستان میں سترہ اٹھارہ روز سے کون سا ماتم برپا ہے۔ سیاسی اور فوجی قیادت سفارتی اور عسکری محاذ پر سرگرم عمل ہے، سلامتی کونسل کا ایک اجلاس ہو چکا، کھلے اجلاس کے لئے کوششیں جاری ہیں، کنٹرول لائن پر ہمارے سرفروش جانبار شہادتوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور بھارتی جارحیت کا پامردی سے مقابلہ کرنے میں مصروف۔ باقی قوم مگر حال مست ہے یا مال مست۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی ریلیاں نکال کر اپنے حکمرانوں اور اقوام عالم کو متوجہ کرنے کا رواج ہے، 14اگست کو یوم پاکستان کے موقع پر نکلنے والی ریلیوں میں بھی اتنے ہی لوگ تھے جتنے ہر سال ہوتے ہیں، باقی لوگ عید کے تیسرے دن قربانی کے گوشت سے پیٹ پوجا کرتے رہے۔ عالم عرب اور اُمہ سے ہمیں شکوہ ہے مگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کے انداز فکر سے واقفیت کے باوجود ہم مسلم عوام سے رابطہ کیوں نہیں کر رہے؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ چھوٹے سے چھوٹے واقعہ پر ملک بھر میں اودھم مچانے، موم بتیاں جلانے اور آسمان سر پر اٹھانے والی آنٹیاں اور انکلز کہاں مر گئے؟ ان میں سے کسی کو بی بی سی، اے ایف پی اوررائٹرز کی رپورٹنگ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا پتہ چلا نہ شہلا رشید، ارون دھتی رائے اور ڈاکٹر امریتا سین کے بیانات سے ان کی غیرت جاگی۔ ترکی، ملائشیا اور ایران میں عوام سڑکوں پر نکلے، پھرخاموش بیٹھ گئے کہ مدعی سست ہو تو گواہ کو زیادہ چست بننے کی ضرورت نہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام "پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ " کا نعرہ لگاتے، اپنے شہیدوں کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کردفن کرتے اور پاکستان سے الحاق کے لئے کٹ مرے ہیں مگر ہم ؎
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے
پوری قوم کا یہ حال نہیں، اہل دل کی کمی ہے نہ اہل جنوں کی قلت مگر فیصلہ سازاشرافیہ کا معاملہ دگرگوں ہے اور وہ کبھی ٹرمپ کی طرف دیکھتی ہے کبھی بورس جانسن کی طرف اور کبھی پوٹن کی جانب۔ عمران خاں کی نیت پر کسی کو شک ہے نہ ارادوں کے بارے میں دو رائے، وہ مودی کو عہد حاضر کے ہٹلر کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب رہا۔ مگر باقی سیاسی و مذہبی قیادت؟۔ جنگ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ جنگ کی خواہش کوئی راسخ العقیدہ مسلمان نہیں کر سکتا مگر جب اپنے ہی مسلمان بھائی محض کلمہ گو ہونے کی سزا بھگت رہے ہوں، پاکستان سے وفا کے جرم میں جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دینے پر مجبور ہوں تو ان کی عملی اعانت سے گریز کا رویہ؟ نہتے کشمیری عوام آخر کب تک نو لاکھ بھارتی فوج کے مظالم برداشت کریں گے؟ ؎
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہوں، کافر نہیں ہوں میں
گناہگار بھی وہ بھارت کے ہیں ہمارے یا اُمہ کے نہیں کہ ان کے حال کی کوئی خبرہی نہ لے۔ کشمیری عوام پاکستان کی بفر سٹیٹ ہیں اور پاکستان عالم عرب و عالم اسلام کی بفر سٹیٹ، خدانخواستہ بھارت اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب رہا تو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغرترکی کے سوا ایک بھی مسلمان ریاست ہندو توا کے روبرو ٹھہرنے کے قابل نہیں۔ اعلیٰ سول ایوارڈ پیش کرنے والوں کو تو شائد اس مندر میں بھی پناہ نہ ملے جو ڈیڑھ دوسال قبل ایک نسل پرست اور اسلام دشمن قصاب کی خوشنودی کے لئے تعمیر ہوا۔ ع
حمیّت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے