غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
مریم نواز شریف کے طرح مصرعے پر بلاول بھٹو نے خوب گرہ لگائی، پی ڈی ایم کے اجلاس میں میاں نواز شریف کی طویل غزل پر آصف علی زرداری کے جواب آں غزل سے مشابہ۔ مریم نواز شریف کی میڈیا ٹاک خواتین خانہ کے طعنوں کو سنوں سے ملتی جلتی تھی، بلاول بھٹو کے جواب میں جمہوری و سیاسی منطق کا تڑکہ نظر آیا، پی ڈی ایم روز اول سے تضادات کا مجموعہ اتحاد تھا جس پر جلی حروف میں "مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی "کندہ تھا مگر ذاتی خواہشات اور خاندانی مفادات کے اسیر ساون کے اندھوں کو ستمبر سے فروری تک ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آیا اور اگر آصف علی زرداری اپنے حلیفوں کو سینٹ کے گھاٹ نہ اتارتے تو انہیں یہ گہرے تضادات کبھی بھی نظر نہ آتے۔
سینٹ اور چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری سے ایسا کوئی جرم سرزد نہیں ہوا جس کی سزا کے طور پر مسلم لیگ(ن) اور اس کے حواری زبان طعن دراز کر سکیں، پی ٹی آئی کے ووٹ چرا کر گیلانی صاحب کی بطور سینیٹر کامیابی پر خوشی سے بھنگڑے ڈالنے والی مسلم لیگی قیادت قائد حزب اختلاف کو "باپ "کے ووٹ ملنے پر رنجیدہ کیوں ہے؟ اگر یہی ووٹ لے کر گیلانی چیئرمین سینٹ منتخب ہوتے تو کیا مریم نواز شریف اور ان کے دیگر ساتھی تب بھی ایسا ہی واویلا کرتے؟ آصف علی زرداری، بلاول اور گیلانی کو غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار قرار دیتے اور پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکالنے کا مطالبہ کرتے؟ قومی اسمبلی میں گیلانی صاحب کو ملنے والے حکمران اتحاد کے پانچ ووٹ حلال تھے تو سینٹ میں چار آزاد ووٹ حرام کیسے ہو گئے؟ یہی ارکان اگر اعظم نذیر تارڑ کی حمایت کرتے تو مسلم لیگ(ن) کیا فتویٰ صادر کرتی؟ ساری عمر سیاستدانوں کی یہ لاف زنی سنتے کان پک گئے کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے اور اُصول سے زیادہ مفاد کی اہمیت ہے۔ نام نہاد جمہوریت پرست سیاستدانوں نے کرپشن کو بھی اس بنا پر قابل قبول بتایا کہ یہ سسٹم کے تسلسل میں مددگار ثابت ہوتی ہے مگر ان خود پسندوں کو آج تک کوئی یہ نہیں سمجھا سکا کہ سیاست میں ہار بھی ہوتی ہے لچک اور رواداری بھی، اور اپنے حلیفوں کے لئے قربانی دینی اور وضع داری نبھانی بھی پڑتی ہے۔ صرف جیتنے اور ذاتی مفاد سمیٹنے کے لئے سیاست موزوں کھیل ہے نہ ہارنے پر بچوں کی طرح رونا دھونا اور طعن و تشنیع پر اُتر آناشیوۂ دانش منداں۔
مسلم لیگ(ن) کے خوردوکلاں رونا یہ رو رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے ان کا سینٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، ممکن ہے یہ سچ ہو لیکن "وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے" کا مشہور زمانہ قول یاد رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ سیاستدان تو ویسے بھی رات گئی بات گئی کے قائل ہوتے ہیں۔ اور شریف خاندان کی اپنی شہرت بھی چنداں مختلف نہیں، اس یقین دہانی پر اس قدر اعتماد اور وعدہ خلافی پر اتنا زیادہ غصہ؟ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو میں سے کسی کو بھی شائد علم نہ ہو کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی کا کلچر پاکستان میں پرانا ہے، 1949ء میں ملتان کے گیلانی گروپ نے میاں ممتاز محمد خان دولتانہ سے کتاب اللہ کے ایک صفحہ پر تحریری معاہدہ کیا جس کی تحریر یہ تھی "ہم مندرجہ ذیل مسلمان اس کلام پاک پر ایمان رکھتے ہوئے عہد کرتے ہیں کہ ہم آپس میں متفق رہیں گے اور ایک دوسرے سے متفق اور وفادار رہیں گے اور گیلانی پارٹی کے اکثریت کے فیصلے کے پابند ہوں گے"۔ قرآن مجید پر حلف اٹھا کر کیے گئے اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں کے نام مخدوم یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب "چاہ یوسف سے صدا" میں درج کئے ہیں۔ ممتاز محمد خان دولتانہ، سید شوکت حسین گیلانی، محمد علمدار حسین گیلانی(والد یوسف رضا گیلانی) محمد انور رانا نون، فیض بخش کھوکھر، محمد اکرم بوسن سمیت اس وقت کے اکیس نامور سیاستدان شامل تھے مگر جونہی دولتانہ صاحب نے 1951ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھایا، معاہدے سے منحرف ہو گئے اور گیلانی گروپ کے سیاسی حریف علی حسین گردیزی کو کابینہ میں شامل کر لیا۔
میاں صاحب نے 2013ء کے انتخابات سے قبل ہم خیال گروپ سے جو معاہدہ کیا اس کا ذکر چند روز قبل میں اپنے کالم میں کر چکا ہوں، اخلاقیات کا جنازہ نکال کر ہمارے جمہوریت پسندوں نے ملک میں جو طرز سیاست متعارف کرایا اس میں عہد شکنی عیب نہیں، ہنر ہے۔ وعدہ خلاف، مکار، عیّار، فریب کار اور پرلے درجے کا کاذب شخص کامیاب سیاستدان کہلاتا اور لوگ اس سے سیاست سیکھنے کی تلقین کرتے ہیں مگر صادق امین کے لفظ سے الرجک یہی خواتین و حضرات خوداس بے وفائی کا شکار ہوں تو انہیں جمہوری اصول، سیاسی اقدار اور اخلاقی ضابطے یاد آ جاتے ہیں۔ پی ڈی ایم اب چاہے نہ چاہے آصف علی زرداری کی طے کردہ تنخواہ پر گزارا کرے گی اور اللہ نے چاہا تو زرداری صاحب مفاہمتی سیاست کا گر آزما کر مولانا فضل الرحمن کو بھی فیصلہ سازوں سے کچھ مراعات دلانے میں کامیاب رہیں گے، تصادم اور محاذ آرائی کی غیر دانش مندانہ سیاست کے کریا کرم کے بعد نظریہ آتا ہے کہ میاں شہباز شریف درخواست ضمانت کی منظوری پر پی ڈی ایم میں فعال کردار ادا کریں گے، مریم نواز کے لئے دو راستے کھلے ہیں خاموشی اور ممکنہ طور پر رضا کارانہ جلاوطنی یا پھرطویل اسیری، جس کی انہیں عادت نہیں۔ میاں صاحب کی خاموشی کا موسم بھی قریب ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کا تقاضا ہے اور مسلم لیگ و شریف خاندان کے وسیع تر مفادات کی مجبوری، پی ڈی ایم کو مولانا اور نواز شریف اپنے اپنے مفادات کے لئے بطور سیڑھی استعمال کرنے کے خواہش مند تھے مگر آصف علی زرداری زیادہ ہوشیار نکلے، دونوں کو دھوبی پٹکا لگا کر اپنی سودے بازی پوزیشن مضبوط کر لی۔
پیپلز پارٹی سے درپردہ مفاہمت کے لئے مراد علی شاہ اور یوسف رضا گیلانی کی صورت میں دو کھڑکیاں کھلی ہیں جن پر دستک دینا عمران خان کی سیاسی مجبوری ہے۔ یہ اب ان پر منحصر ہے کہ وہ مرکز اور پنجاب میں اپنی نالائق ٹیم کی پرفارمنس بہتر بنانے پر توجہ دیں اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لئے پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کریں لیکن اگر اب بھی وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہے اور پنجاب کے علاوہ وفاقی کابینہ میں مناسب تبدیلی کو روکنے کی غلطی کی تو رائیگانی کا سفر زیادہ دیر جاری نہیں رہ سکتا۔ بلدیاتی انتخابات میں اڑھائی تین سالہ غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بزدار حکومت کا بوجھ وفاقی حکومت کی کشتی کے لئے ناقابل برداشت ہے، چودھریوں کو روکتے روکتے کہیں حمزہ شہباز کا منہ نہ دیکھنا پڑے کہ ارکان اسمبلی نے سینٹ انتخاب میں وفاداری بدلنے کی مشق کر لی ہے جو خاصی کامیاب رہی، ویسے بھی کہتے ہیں پوری جاتی دیکھیو تو آدھی دیجیو بانٹ، مسلم لیگ اور تحریک انصاف دونوں نے آصف علی زرداری کی جوڑ توڑ صلاحیت کا مزہ چکھ لیا دیکھیں سبق کس نے سیکھا؟