چارج شیٹ
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں اگلا الیکشن خلائی مخلوق کرائے گی، الیکشن کمشن کا اصرار ہے "نہیں آئین کے آرٹیکل218کے تحت آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کمشن کے فرائض میں شامل ہے اور وزیر اعظم کا بیان آئین کی روح، کمشن کے مینڈیٹ کے خلاف ہے" وزیر اعظم کی مانیں تو ایک قومی ادارے الیکشن کمشن کی بے بسی، بے اختیاری اور بے عملی کا پہلو نکلتا ہے اور الیکشن کمشن کے دعوے پر یقین کریں تو وزیر اعظم غلط بیانی اور مبالغہ آرائی کے مرتکب ٹھہرتے ہیں اور جمہوریت کی بے ادبی ہوتی ہے۔ پاکستان کئی بار بحرانوں کی زد میں آیا اور قومی اداروں کے مابین کشمکش کی نوبت آئی مگر اتنا بُرا وقت کبھی نہ آیا تھا کہ ملک کا وزیر اعظم عدلیہ، الیکشن کمشن اور فوج کے خلاف برسر پیکار ہو اور اس کی وفاداری کا مرکز ریاست یا قومی اداروں کے بجائے اپنی پارٹی کا قائد ہو جبکہ الیکشن کمشن جیسا بے ضرر ادارہ بھی وزیر اعظم کے بیان کو رد کرنے پر مجبور نظر آئے۔ میاں نواز شریف سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد عدلیہ، فوج، الیکشن کمشن اور دیگر تمام قومی اداروں کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے اور ان کے بغل بچے موقع بے موقع اداروں کی بھد اُڑاتے ہیں۔ ان کے نزدیک محمود اچکزئی، حاصل بزنجو اور مولانا فضل الرحمن کے سوا پاکستان کے سارے سیاسی و مذہبی رہنما اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار ہیں اور جو شخص یا ادارہ میاں صاحب کی ہاں میں ہاں نہ ملائے، ان کے شخصی بیانیے کی تائید نہ کرے وہ جمہوریت دشمن ہے۔ جمہوریت طاقت کے توازن اور آئینی اداروں کے مابین منقسم اختیارات کو سلیقے سے برتنے کا نام ہے مگر یہاں میاں نواز شریف جمہوریت ہیں اور جمہوریت کا دوسرا نام میاں نواز شریف۔ ڈیگال نے سارتر کو فرانس کہا تھا ہمارے ہاں کے سارتر نواز شریف کو جمہوریت ماننے لگے ہیں اور جو ان سے اختلاف کرے وہ گردن زدنی۔ شاہد خاقان عباسی پر اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی انہیں نیو کلیئر پاکستان کا وزیر اعظم بنایا مگر وہ اس منصب کو میاں نواز شریف کی عطا جان کر ان چاپلوسوں کی صف میں کھڑے ہو گئے جنہیں میاں نواز شریف کے بغیر اپنی دنیا تاریک نظر آتی ہے اور وہ ملک و قوم کے مفاد اور منصبی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف باپ بیٹی کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں ان خوشامدیوں اور اپنے لیڈر کی خوشامد پسندی کا کچا چھٹا بیان کیا، یہ پریس کانفرنس کم، میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کے خلاف چارج شیٹ زیادہ تھی اور ڈان لیکس کے علاوہ پانامہ سکینڈل میں میاں نواز شریف کے غلط، بے بنیاد اور گمراہ کن موقف کا ابطال۔ نثار علی خاں نے واقف حال اور چشم دید گواہ کے طور پر شریف برادران اور ان کے قلمی کارندوں کے پھیلائے ہوئے اس تاثر کی نفی کی کہ ڈان لیکس یا پانامہ سکینڈل میاں نواز شریف یا جمہوریت کے خلاف سازش تھی اور عدالتی فیصلہ کسی کے دبائو کے تحت آیا، انہوں نے وہی بات کی جو ہر غیر جانبدار اور معقول شخص کی زبان پر ہے کہ جب آپ نے خود ہی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا، ٹی وی اور پارلیمنٹ کے خطاب میں فیصلہ ماننے کی یقین دہانی کرائی اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تو پھر فیصلہ کے خلاف چوں چرا کیوں؟ اور سڑکوں پر دہائی دینے کا مطلب؟ وزیر اعظم کے خلائی مخلوق اور عمران خان کے 2013ء کے انتخابات میں فوج کی مداخلت کے بیان پر چودھری نثار علی خاں کا ردعمل ایک پختہ کار اور محب وطن سیاستدان کا ہے مگر نواز شریف کے خلاف چارج شیٹ پیش کرنے کے بعد انہی کے ساتھ مل کر چلنے کا عزم ع اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا شریف خاندان کے خیر خواہ اور مسلم لیگ کے اہم رہنما کے طور پر نثار علی خان کی چارج شیٹ کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ان عناصر کو سوچنے سمجھنے کا موقع ملے گا جو تاحال میاں صاحب کے بیانات کو محض جذباتی ردعمل اور شاہد خاقان عباسی کی تائید و حمایت کو وفاداری کا اظہار قرار دے کر نظر انداز کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ ایک طے شدہ ایجنڈا ہے جس کا مقصد پاکستان کے قومی اداروں کی تضحیک اور عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی سنجیدہ کوشش ہے کہ یہاں فوج اور عدلیہ مل کر جمہوریت کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ آزادی اظہار پر قدغن ہے اور جمہوریت کی لڑائی میں مصروف سیاستدانوں کے لیے قدم قدم پر صلیبیں گڑی ہیں۔ دار ورسن کے یہ سلسلے اس وقت تک نہیں ٹوٹ سکتے جب تک پاکستانی فوج پنجاب پولیس اور عدلیہ جسٹس قیوم والی ماما جی کی عدالت بن کر مجسم جمہوریت میاں نواز شریف کے قدموں میں ڈھیر نہیں ہوتی۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی اور شاہد خاقان کی خوش قسمتی ہے کہ موصوف وزیر اعظم ہیں مگر قومی اداروں پر اعتماد کرنے، انہیں مزید بہتر بنانے کے بجائے اپنے لیڈر کے بے سروپا بیانئے کو آگے بڑھانے میں مگن ہیں اور سوچنے پر تیار نہیں کہ خلائی مخلوق نے آخر انہیں وزیر اعظم بننے سے کیوں نہ روکا؟ نواز شریف نے موجودہ عہد اقتدار میں سینئر جرنیلوں کو بائی پاس کر کے اپنے مرضی کے دو جرنیلوں راحیل شریف اور قمر باجوہ کو آرمی چیف لگایا، کسی نے رکاوٹ نہیں ڈالی؟ اور میاں صاحب چودھری نثار علی خاں کے بقول تنخواہ دار ملازمین کے مشورے پر چمڑے کے سکے چلاتے، میرٹ، جمہوری اقدار اور سیاسی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے رہے کسی نے ہاتھ نہیں پکڑا؟ اب جبکہ مسلم لیگ کی حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے اور کرپشن سے تنگ آئے عوام برہم ہیں تو میاں صاحب اور اُن کے کٹھ پتلی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو خلائی مخلوق دکھائی دینے لگی ہے۔ رنگ بازی شائد اسی کا نام ہے۔ کل سے اصغر خان کیس کی سماعت شروع ہو رہی ہے یہ کیس ہمارے جمہوریت پسندوں کے ماضی اور خلائی مخلوق سے گہری وابستگی کی دیومالائی داستان ہے۔ فوج، عدلیہ، خفیہ ایجنسیوں، میڈیا اور اہل مذہب کو اپنے مذموم ذاتی و سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کے کالے کرتوتوں کی فہرست ہی سامنے نہیں آنی چاہیے بلکہ سرکاری خرچ پر سیاسی مقبولیت حاصل کرنے والوں کو سزا بھی ملے تو جمہوری اور سیاسی عمل میں 1985ء سے ڈالا جانے والا گند صاف ہو، سیاست کے ڈان اور سسلین مافیا کی تشکیل، تعمیر اور ترقی میں جس ادارے کا جو کردار تخریب و انہدام میں حصہ ڈال کر کفارہ ادا کر سکتا ہے تاکہ کھانے اورغرّانے والی اس سیاسی مخلوق کا خاتمہ ہو جسے اپنے عہدہ و منصب کا پاس ہے نہ حلف کا لحاظ۔ ڈھیٹ یہ اتنے ہیں کہ جھوٹ، خیانت اور مکروفریب کی دیرینہ عادت تبدیل نہیں کرتے62، 63کو برقرار رکھنے پر پچھتاتے ہیں۔ لوٹ مار سے باز نہیں آتے۔ نیب ختم کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ عدلیہ، فوج اور آئی ایس آئی کو بھی سٹیل ملز اور پی آئی اے کے انجام سے دوچار کرنے کے خواہش مندوں کو خلائی مخلوق سے نہیں اپنے مکروہ ارادوں، عوام کے غیظ اور خدا کے غضب سے ڈرنا چاہیے کہ بے ڈھب ہے پکڑ اس کی۔ الیکشن کمشن کا بیان پڑھ کر شاہد خاقان عباسی بے مزہ نہ ہوں کہ ع اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں