Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Irshad Ahmad Arif
  3. Benazir Bhutto Ki Farmaish

Benazir Bhutto Ki Farmaish

بے نظیر بھٹو کی فرمائش

"اقتدار کی مجبوریاں " میں جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ نے سیاستدانوں کے ساتھ باہمی ربط و ضبط، ان کے انداز حکمرانی اور محلاتی ریشہ دوانیوں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے بے نظیر بھٹو کے حوالے سے بتاتے ہیں:

"بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں مجھے محترمہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ میرا محترمہ کے ساتھ بھی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرح احترام و عزت کا رشتہ تھا، جنہوں نے تدبر و ذہانت سے ایک تھوڑے سے عرصے میں 1971ء کی شکست کے بعد پاکستان کی عزت کو بحال کیا اور او آئی سی(OIC) جیسی تنظیم کو نئی جہت دی۔ شاہ فیصل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی مرکزی قیادت کے قیام کا تصور پیش کیا۔ یہی وہ صفات تھیں جو امریکہ کو پسند نہ تھیں اور ان دونوں شخصیات کو یکے بعد دیگرے منظر سے ہٹا دیا گیا۔

میں نے جنرل ضیاء کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے سے منع کیا تھا لیکن ان کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ انہوں نے بھٹو کو پھانسی دے دی۔ ان کے انتقال کے بعد ہم نے جب 1988ء کے الیکشن کا فیصلہ کیا تو ہم پر لعن طعن ہوتی رہی کہ ملک جہادیوں سے بھرا ہوا ہے، بڑا فساد پیدا ہو گا لیکن الحمد للہ انتخابات منعقد ہوئے، ان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ یہ میرا مینڈیٹ(Mandate) نہیں تھا لیکن پھر بھی بے نظیر بھٹو کو گھر پر دعوت دی اور مستقبل کی وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کو اہم ملکی معاملات سے متعلق ضروری باتیں بتائیں اور صرف تین باتوں کی درخواست کی:

٭ فوج سے کوئی شکایت ہو تو مجھے بتائیے گا، میں دیکھ لوں گا، یہ میری ذمہ داری ہے۔

٭ جنرل ضیاء کے لئے آپ کا دل سخت ہے، ان کے اہل خانہ کے لئے نرمی کی گنجائش رکھیے گا۔

٭ جب صدر بنانے کا وقت آئے تو غلام اسحق خان کا نام بھی سامنے رکھیے گا، وہ 1975ء سے لے کر اب تک ایٹمی پروگرام سے منسلک رہے ہیں۔ محترمہ نے ان تینوں کا احترام کیا۔"

محترمہ کو اقتدار سنبھالے ابھی چند ہفتے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری میجر جنرل امتیاز کو میرے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ موجودہ سینئر آفیسرز میں جنرل ضیاء کے قریبی اور بااعتماد آفیسرز کون ہیں تاکہ انہیں مناسب جگہوں پر ایڈجسٹ کر لیا جائے۔ میں حیران رہ گیا کہ جنرل امتیاز یہ پیغام لے کر آئے ہیں۔ میں نے کہا:

"جنرل صاحب، آپ کو تو معلوم ہے کہ فوج میں سیاسی جماعتوں والا طریقہ نہیں ہوتا کہ برسر اقتدار جماعت اپنی پسند کے لوگوں کو لاتی ہے اور پچھلی جماعت کے لوگوں کو ادھر ادھر لگا دیا جاتا ہے۔ فوج میں ایسا نہیں ہوتا۔"

"ہمارا ہر آفیسر خواہ سینئر ہو یا جونیئر ہو وہ اپنی اہلیت اور عہدے کی مناسبت سے متعین کیا جاتا ہے۔ اس کی وفاداری کسی شخص کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ اس کی پہچان اپنے کام سے ہوتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت میرے ساتھ وہی آفیسرز ہیں جو جنرل ضیاء کے ساتھ تھے۔ میں نے کسی ایک کو بھی تبدیل نہیں کیا ہے اور یہی سبب ہے کہ ہمارے پیشہ وروں (Professionals) کی ایک مضبوط ٹیم ہروقت موجود ہوتی ہے جو ہر ذمہ داری سنبھالنے کی اہل ہوتی ہے، مثلاً یہی ٹیم تھی جس نے آرمی ماڈرنائزیشن پروگرام ترتیب دیا، اسے عملی جامہ پہنایا اور ضرب مومن جیسی مشقیں منعقد کر کے 1971ء کی ندامت کا داغ دھویا اور دشمن کے دلوں پر ہیبت طاری کی۔ اگر محترمہ کو نام چاہیے تو میں ایک نام دے سکتا ہوں جو جنرل ضیاء کے بہت ہی قریبی اور بااعتماد سمجھے جاتے تھے۔ وہ جنرل اسلم بیگ ہے۔"

"میرا یہ جواب سننے کے بعد شاید محترمہ نے مجھے تبدیل کرنے کا سوچا جیسا کہ مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے ایک کور کمانڈر اس کوشش میں تھے کہ وہ میری جگہ لے لیں اور مجھے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے۔ ادھر محترمہ کے معتمدین اشخاص میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو مجھ سے بلاوجہ کی مخاصمت رکھتے تھے۔ وہ بھی اس سازش میں شریک ہو گئے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ ایسی کوئی کھچڑی پک رہی ہے تو میں نے فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں اس سازش کا ذکر کیا اور سختی سے کہا کہ فوج کی طرف سے جو کوئی بھی اس سازش میں شریک ہیں وہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں وگرنہ ان کے خلاف انضباطی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اس کانفرنس میں وہ صاحب بھی شریک تھے جو چیف بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ظاہر ہے انہوں نے محترمہ کو بتایا۔ محترمہ تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے میرے نام ایک خط میں اعتراف کیا کہ وہ مجھے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا کر کسی اور کو چیف آف آرمی سٹاف بنانا چاہتی تھیں لیکن ساتھیوں سے مشورے کے بعد انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ یہ ان کی بڑائی تھی۔"

"جب 1988ء کے الیکشن کا ہنگامہ زوروں پر تھا تو مجھے خبر ملی کہ عدالت جونیجو حکومت کو بحال کرنے جا رہی ہے اور ہمارا الیکشن کرانے کا وعدہ پورا نہیں ہو گا تو میں نے عدالت تک اپنی تشویش پہنچانے کی کوشش کی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، الیکشن مکمل ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کے ابھری۔ اس واقعے کے چار سال بعد میرے خلاف مقدمہ دائر ہوا کہ میں توہین عدالت کا مرتکب ہوا ہوں۔ خصوصاً میڈیا نے اس معاملے کو بہت اچھالا لیکن عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دیا۔ ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہوں گا:

"1988ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو اس کے چند ماہ بعد مجھے پیغام ملا کہ ایم کیو ایم کے قائد میرے گھر پر مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ شام کو وہ میرے گھر آئے اور رسمی بات چیت کے بعد ہم ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ اسماء، میری بیگم بھی کھانے میں شامل ہو گئیں۔ کھانا کھاتے ہوئے الطاف حسین صاحب بولے:

"بیگم صاحبہ کونسی ڈشیں آپ نے بنائی ہیں؟ میں تو جہاں جاتا ہوں بیگمات اپنے ہاتھ سے طرح طرح کی ڈشیں تیار کرتی ہیں۔"تڑاخ سے جواب آیا:"میں تو جنرل صاحب کے لئے کوئی ڈش نہیں بناتی، تو آپ کو یہ کیسے گمان ہوا کہ آپ کے لئے میں بنائوں گی۔"

لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے ان کا ہاتھ رک گیا۔ پانی پیا اور جانے کی اجازت چاہی۔ اس کے بعد پھر کبھی ان سے ملاقات نہ ہوئی۔"

Check Also

Tareekh Ka Sab Se Bara Jhoot

By Gul Bakhshalvi