اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
یہ وقت بھی آنا تھا، بزعم خویش دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کی نائب وزیر خارجہ(ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ) وینڈی شرمین اسلام آباد آئی وفد کا استقبال ڈائریکٹر سطح کے ایک افسر نے کیا، دفتر خارجہ پہنچی، تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پورچ میں آکر ان کا خیر مقدم کیا نہ تعریفوں کے پل باندھے، وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات خیر کیا ہونا تھی، وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی نوبت بھی نہیں آئی۔ محترمہ ملاقات کے لئے گئیں تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سویلین لباس میں آمنے سامنے بیٹھ کر چار باتیں کیں اور رخصت کر دیا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نائب وزیر خارجہ سے یہ سلوک اس ملک میں ہوا جہاں صدر، نائب صدر، وزیر خارجہ اور نائب وزیر خارجہ تو بڑی بات ہے سفیر اور اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ سطح کے سفارتی اہلکار بھی وائسرائے کے انداز میں وارد ہوتے، صدر، وزیر اعظم سے ملتے، تصویر کھینچواتے اور پاکستان کو "بندے کا پتر" بن کر رہنے کا بھاشن دے کر رخصت ہو جایا کرتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق پاکستان کے وہ آخری حکمران تھے جنہوں نے امریکہ کو اپنی حدود میں رکھا اور گلین، سمنگٹن، پریسلر ترمیم کی موجودگی میں ایٹمی پروگرام مکمل کیا، وطن عزیز میں یہ جھوٹ اب بھی بولا جاتا ہے کہ امریکہ ضیاء الحق کو ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے شروع کئے گئے ایٹمی پروگرام کی بندش کے لئے اقتدار میں لایا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ایٹمی پروگرام شروع بھٹو نے کیا، مکمل ضیاء الحق نے اور ایٹمی تجربات کا سہرا میاں نواز شریف کے سر ہے، باقی سب ع
باندھے گئے ہیں جھوٹ کے طومار بھی بہت
محترمہ بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے دور میں ہماری حالت یہ تھی کہ ایک امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ(معاون وزیر خارجہ) ایئر پورٹ سے سیدھی ایوان صدر آتی، صدر پرویز مشرف سے ملتی، مشترکہ پریس کانفرنس کرتی اور واپس چلی جاتی، وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کو محترمہ کی آمد پر علم ہوتا یا واپسی کے ہنگام۔
میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم پہلے دور حکومت میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کوتین ماہ تک ملاقات کے لئے وقت نہ دیا، موصوف بے نظیر بھٹو کے دور میں جب چاہتے، منہ اٹھاتے اور وزیر اعظم ہائوس پہنچ جاتے، وزیر اعظم سے ملتے اور ایٹمی پروگرام کے بارے میں جو چاہتے لاف گزاف کہہ کر چلے جاتے، اس باعث انہیں اسلام آباد کی محفلوں میں وائسرائے پکارا جاتا اور وہ بھی اپنے آپ کو وائسرائے ہی سمجھتے، میاں صاحب مگر انہیں "لمبو" کہتے، بے تکلف نہ ہونے دیتے، تیسرے دور حکومت میں مگر ہمارے منتخب وزیر اعظم واشنگٹن کے دورے پر گئے تو وزیر خارجہ جان کیری کو ملنے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پہنچ گئے، وزیر اعظم کے حواریوں نے توجیہہ یہ پیش کی کہ میاں نواز شریف کے پاس وزیر خارجہ کا عہدہ بھی ہے گویا وزیر اعظم کے پاس وزیر خارجہ کا منصب ہو تو یہ اس کی قدر و منزلت گھٹا دیتا ہے اور وہ کسی وزیر خارجہ سے اپنے آفس یا قیام گاہ پر ملاقات کا اہل نہیں رہتا۔ چند ماہ قبل امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے وزیر اعظم عمران خان سے فون پر بات کرنا چاہی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ وہ اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی کو کال کریں مجھ سے بات کرنی ہے تو صدر جوبائیڈن کرے کہ ع
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
یار لوگوں نے اس باوقار موقف کو سراہنے کے بجائے یہ شور مچایا کہ امریکی صدر پاکستانی وزیر اعظم سے فون پر بات کرنے کا روادار نہیں جو ملک و قوم کے لئے گھاٹے کا سودا ہے۔
پچھلے تین عشروں سے ہم محکوم، مرعوب اور کاسہ لیس قوم کے طور پر جینے کے عادی ہیں اب یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کو امریکی حکمران کی طرف سے فون کال موصول نہ ہونے پر اسے اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی غیرت و وقار کی قیمت تصوّر کرنے کے بجائے تلملا اٹھتے، احساس جرم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ گویا بائیڈن کا فون نہ کرنا سپر پاور کے حکمران کی ناشائستگی اور بدتہذیبی نہیں، ہمارے حکمران کی کسی گستاخی کا شاخشانہ اور سفارتی نااہلی ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین بھارت سے پاکستان آئی تھیں اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کو علم تھا کہ محترمہ کی پٹاری میں ہمارے لئے کیا کچھ ہے، افغانستان میں امریکی مرضی کی حکومت، خطے میں امریکی و بھارتی مفادات کے تحفظ اور افغان جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے جوبائیڈن حکومت کی ترجیحات اب کسی سے مخفی نہیں، پاکستان کی کمزور معاشی حالت اور ماضی کی تباہ کن سفارتی و سیاسی غلطیوں کو امریکہ بطور ہتھیار استعمال کرنے کے درپے ہے اور ہمارا بازو مروڑ کر بنیادی طور پر ہمیں چین کے خلاف صف آرا یا روس، چین، ایران تکون سے یکسر خارج کرنے کا خواہش مند، پاکستان کی موجودہ ہئیت مقتدرہ یہ طے کر چکی ہے کہ امریکہ اب بھارت کا سٹریٹجک پارٹنر ہے اورچین ہمارا "پرنسپل "سٹریٹجک پارٹنر، ہم امریکہ کو خواہ مخواہ ناراض کرنا چاہتے ہیں نہ دشمن بنانے کے روادار و متحمل، مگر ماضی کی ناز برداری اور خوئے غلامی کی توقع نہ رکھی جائے، بقول فراز ؎
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے، لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
محبت کی جگہ امریکہ پڑھ لیں، ان دنوں پاک امریکہ تعلقات کی ساری کہانی سمجھ آ جائیگی۔ جو دوست اپنی لاعلمی یا تعصب کی بنا پر تین سال سے یہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے امریکہ کو راضی رکھنے کے لئے چین کو ناراض کر لیا، سی پیک پر کام روک دیا اور افغانستان میں امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہیں، انہیں شائد علم نہیں کہ اسلام آباد کا امریکی سفارت خانہ 2018ء سے سفیر کے بغیر ایک چارج ڈی افیئر کے ماتحت کام کر رہا ہے اور وینڈی شرمین سے پہلے امریکی وزیر خارجہ بلنکن کا فون سننے، سی آئی اے سربراہ کو وزیر اعظم عمران خان ملنے سے انکار کر چکے ہیں، میں گزشتہ روز اتفاق سے اسلام آباد میں تھا، سارا دن دفتر خارجہ میں پاک امریکہ وفود میں ملاقات کی گن سن لیتا رہا، پتہ یہ چلا کہ پاکستانی حکام نے وینڈی شرمین کو لگی لپٹی رکھے بغیر قومی تحفظات سے آگاہ کیا، ایف اے ٹی ایف اور دیگر اداروں میں امریکی کردار سے واقفیت کی اطلاع دی اور کھل کر کہا: "پاکستان اب امریکی گھڑے کی مچھلی نہیں، ہاتھ کی چھڑی نہ جیب کی گھڑی"نائب وزیر خارجہ سے وزیر اعظم کے نہ ملنے کا سبب بھی یہی ہے امریکہ کو یہ باور کرانا مقصود کہ ع
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
ایک اطلاع یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل اعلیٰ سطحی اجلاس میں سابق سفارت کاروں اور اعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری شخصیات سے اس بات پر تبادلہ خیال ہوا کہ ہم قومی آزادی اور خود مختاری کی منزل کی طرف گامزن ہوں، آزاد خارجہ پالیسی اپنائیں اور امریکی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار کر دیں تو اس کی کیا قیمت چکانا ہو گی، افغانستان سے پسپاسپر پاور کی طرف سے کس قسم کی مشکلات کا اندیشہ ہے؟ حکمرانوں نے اگر واقعی کمر کس لی ہے تو یہ اقبال، قائد اعظم کے پاکستان کی بازیافت ہے مگر ٹیکس کے بجائے رشوت دینے اور دل و دماغ کے بجائے پیٹ سے سوچنے کی عادی اشرافیہ کا ردعمل کیا ہو گا؟ قومی حمیت اور عزت نفس کے الفاظ سے نامانوس، آٹے، چینی اور دال کے لئے سرگرداں مخلوق کی سوچ کا محور کیا ہے، یہ سوچنا فیصلہ سازوں کا کام ہے کہیں قوم موسیٰ ؑ کی طرح کا جواب نہ ملے "سو تو اور تیرا رب جائے، تم دونوں لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں "آزادی و خود مختاری کی قیمت عمران خان اور اس کے ساتھ کھڑی اسٹیبلشمنٹ چکائے ہمیں تو شکم پروری عزیز ہے، فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم۔