اندیشہ ہائے دور دراز
افغانستان کی صورتحال دن بدن، لمحہ با لمحہ تبدیل ہو رہی ہے، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے دورہ واشنگٹن کی ناکامی دونوں افغان رہنمائوں کے ماتھے پر لکھی ہے، صدر جوبائیڈن کے ساتھ پریس کانفرنس میں دونوں کی بدن بولی مایوسی اور بے یقینی کا مرقع تھی اور چہرے سے خوب عیاں، غصہ دونوں افغان رہنمائوں کو یہ تھا کہ طوطا چشم امریکی قیادت نے حرف تسلی تک نہ کہا ؎
امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا
ماضی کے مزاروں کی مجاور ہمارے ہاں دانشوروں کی ایک نسل ابھی تک غلط فہمی کا شکار ہے کہ امریکہ افغان طالبان کا راستہ روکنے کے لیے بالآخر کوئی تدبیر کرے گا، کوئی نہ کوئی بحری بیڑا ایئربیس کا کام دے گا اور جو کام امریکہ و نیٹو کی ڈیڑھ لاکھ فوج بگرام اڈے پر بیٹھ کر نہ کرسکی، وہ بحری ایئربیس سے کر گزرے گی۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد اڑھائی تین سال تک کابل پر قبضہ برقرار رکھا، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ بھی اتنی مدت بآسانی نکال لیں گے۔ عبدالرشید دوستم بھی کمک کو آ پہنچے اور احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے کی تائید و حمایت حاصل رہی تو طالبان کابل میں داخل نہیں ہو پائیں گے اور اگر کشت و خون کے ذریعے افغانستان کے دارالحکومت میں "ننگے پائوں " داخل ہوئے بھی تو پاکستان سمیت کوئی ملک اس حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا اور "امارت اسلامی افغانستان" ایک بار پھر اچھوت بن کر رہ جائے گی۔
ماضی کے تناظر میں یہ باتیں قرین قیاس نظر آتی ہیں، گزشتہ دو تین ہفتوں کے واقعات مگر ان کی تائید نہیں کرتے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کو سوویت یونین نے کابل پر مسلط کیا مگر خلق اور پرچم پارٹیاں ان کی پشت پر تھیں جو بہرحال کمیونسٹ نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں تھیں اور اس وقت افغان فوج کی تشکیل بھی نظریاتی بنیادوں پر ہوئی تھی، یہ کرپٹ، موقع پرست اور مقصد حیات سے عاری وار لارڈز کا اجتماع نہ تھا جو محض روبل بٹورنے کے لیے پہلے نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل کی قیادت میں جمع ہوا اور پھر ڈاکٹر نجیب اللہ کا پرچم اٹھا کر مجاہدین اور طالبان کے مقابل کھڑا ہوگیا۔ سوویت یونین واپسی پر اپنا اسلحہ برسراقتدار گروہ کے حوالے کر کے گیا اور اس کی اپنی شکست و ریخت تک سپلائی لائن برقرار رہی جبکہ افغان مجاہدین کی صفوں میں بھی اتحاد و یکجہتی کی وہ کیفیت نہ تھی جو طالبان میں نظر آتی ہے۔ گلبدین حکمت یار سے مولانا یونس خالص اور محمد نبی محمدی نالاں تھے اور برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور عبدالرب عبدالرسول سیاف بھی برگشتہ، طالبان کی صفوں میں 9/11 کے بعد آج تک کوئی دراڑ پڑی نہ مستقبل میں امکان نظر آتا ہے۔
9/11 سے قبل طالبان کا اثر و نفوذ صرف افغانستان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں تھا جبکہ ہزارہ جات، بدخشانی شیعان حیدر کرار، ازبک اور تاجک مسلکی، لسانی اور نسلی بنیادوں پر ان کے بدترین مخالف بلکہ دشمن تھے، آج صورتحال کافی حد تک نہیں، سو فیصد مختلف ہے۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے دل ملے ہیں، نہ عبدالرشید دوستم کابل کے حکمرانوں سے خوش، ذبیح اللہ مجاہد اور ڈاکٹر نعیم نے گزشتہ روز اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر بلند مرتبہ طالبان لیڈر شیر محمد عباس کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد کی تصویر شیئر کی ہے جو ایرانی وزیر خارجہ اور دیگر اہم ایرانی رہنمائوں سے مذاکرات میں مصروف ہے۔ ایرانی قیادت کی طرف سے ہزارہ کمیونٹی کے لیے یہ پیغام ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکا ہے کہ وہ طالبان مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں۔ افغانستان کے شمال اور مغربی اضلاع پر جس تیز رفتاری سے طالبان قبضہ کر رہے ہیں وہ محض جنگجوئی اور قوت بازو کا نتیجہ ہے نہ ان اضلاع کے حکام اور فوجی اہلکاروں کی پست ہمتی کا مظہر، یہ طالبان کی ان علاقوں میں قبولیت اور جنگ سے تنگ آئے عوام کی رغبت کا اظہار ہے، امریکہ اور نیٹو کی موجودگی، دو ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود شمال اور جنوب کو امن ملا نہ تعلیم، صحت، روزگار کے بہتر مواقع اور نہ عہد جدید کا انفراسٹرکچر کہ ان کی زندگی میں آسودگی آتی، امریکی موجودگی میں شمالی اتحاد کی پوری قیادت بشمول برہان ربانی اور احمد شاہ مسعود کی باقیات نے اقتدار کے مزے لوٹے مگر افغان عوام کے بارے میں نہ سوچا، کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا اور برسراقتدار وار لارڈز کے بدقماش غنڈے عوام کی جان و مال عزت و آبرو کے لیے خطرہ بنے رہے۔ طالبان کو امریکی پسپائی کے باعث برسراقتدار گروہ پر نفسیاتی برتری حاصل ہے اور وہ عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب نظر آتے ہیں کہ انہوں نے پینتالیس ممالک کی فوج اور اس کی پشت پر موجود نام نہاد عالمی برادری کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا۔ 9/11 سے قبل چین اور روس کی کوئی قابل ذکر عسکری حیثیت تھی نہ معاشی اور اقتصادی اہمیت، آج یہ دونوں ممالک خطے کی ابھرتی ہوئی اقتصادی، معاشی، سیاسی اور عسکری قوتیں ہیں اور امریکی خلا کو پُر کرنے کی اہل۔ چینی صدر شی جن پنگ نے بلاوجہ اپنے دشمنوں کا سر "دیوار چین" سے ٹکرانے اور پاش پاش کرنے کی دھمکی نہیں دی، دشمن کسی سے مخفی نہیں۔
میرا نہیں خیال کہ امریکہ کو خطے کی سیاست اور علاقائی سطح پر عسکری غلبے سے بے دخل کرنے کا یہ موقع چین اور روس ضائع، دونوں مل کر افغانستان میں ایک مضبوط حکومت کی تشکیل اور تعمیر نو سے گریز کریں۔ عالمی برادری کے لیے اب صرف افغانستان تک محدود طالبان خطرہ نہیں، داعش ہے جس نے مختلف براعظموں میں سب کو پریشان کر رکھا ہے اور جسے القاعدہ کا جانشین قرار دیا جا سکتا ہے۔ قطعاً بعید از قیاس نہیں کہ اپنے دعوئوں کے برعکس طالبان کے کابل پر عسکری قبضہ کے بعد روس اور چین سے بھی پہلے امریکہ نئی حکومت کو خوش آمدید کہے اور اپنے سرعت انگیز انخلا کی طرح دوستوں اور دشمنوں سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دے۔ طالبان سے تنہا مذاکرات اور مقررہ مدت سے پہلے انخلا کی طرح امریکہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ وہ جنگل کا بادشاہ ہے اور بادشاہ کی مرضی انڈا دے یا بچہ کون پوچھ سکتا ہے۔ اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور امریکہ کے دیگر پسماندگان ڈاکٹر نجیب اللہ کی طرح مقابلہ اور مزاحمت کی پوزیشن میں ہیں نہ کسی غیبی امداد کے حوالے سے پرامید، نظر یوں آتا ہے کہ جن لوگوں نے گزشتہ بیس سال کے دوران امریکہ سے ڈالر بٹورے اور بیرون ملک جائیدادیں بنائیں وہ طالبان کے مقابلے میں ملیشیا کی تشکیل پر قیمتی ڈالر ضائع کرنے کے بجائے امریکہ، یورپ اور نئی دہلی میں موجود عشرت گاہوں کا رخ کریں گے اور طالبان بھی ہزارہ، بدخشانی اہل تشیع، ازبکوں، تاجکوں کا تعاون حاصل کرکے ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کو ترجیح دیں گے جس میں امریکی کٹھ پتلیوں کے بجائے مختلف مسلکی، نسل اور لسانی گروہوں کی حقیقی نمائندگی ہو اور جو جنگی تباہ کاریوں کا ازالہ کر سکے۔ بلاشبہ عسکری پسپائی کے بعد امریکہ سوویت یونین کی طرح مالی طور پر کنگال ہوا، نہ جغرافیائی شکست و ریخت کا شکار مگر اسے یہ سمجھ ضرور آ گئی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی چابی طالبان کے پاس ہے۔ اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور ان کے اتحادیوں کے پاس ہوتی تو دو ہزار ارب ڈالر زیاں ہوتانہ دہشت گرد قرار دیئے گئے طالبان سے مذاکرات کرنے پڑتے اور نہ بگرام ایئربیس رات کے اندھیرے میں کسی کو بتائے بغیر خالی کرنے کی نوبت آتی۔"سپر پاورز کے قبرستان" سے آنے و الی خبروں سے مجھے تو خانہ جنگی اور نقل مکانی کے اندیشے بھی اندیشہ ہائے دور دراز نظر آتے ہیں، لڑے گا کون اور شمال و مغرب سے بھاگ کر پاکستان کا رخ کون کرے گا؟ ایران اور تاجکستان انہیں قریب نہیں پڑتے۔