اگلی باری کس کی؟
اینٹی نار کو ٹکس فورس کے ہاتھوں مسلم لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کی گرفتاری بڑا واقعہ ہے۔ حنیف عباسی کے بعد رانا ثناء اللہ مسلم لیگ (ن) کے دوسرے لیڈر ہیں جن کو منشیات فروشوں سے تعلق کے سنگین الزام میں اینٹی نارکوٹکس فورس نے گرفتار کیا۔ میاں شہباز شریف اور مریم نواز گرفتاری پر خواہ کچھ کہیں اور اس کا الزام وزیر اعظم عمران خان پر دھریں لیکن طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کے باعث بخوبی جانتے ہیں کہ اے این ایف اچھی ساکھ کا قومی ادارہ ہے جس کی اب تک کسی کارروائی پر کبھی سوال اٹھانہ اندرون اور بیرون ملک چیلنج کیا گیا۔ ایئرپورٹس پر منشیات کی ترسیل روکنے کے لئے یہ ادارہ فعال ہے اور اس کی باگ ڈور ان حاضر سروس افسران کے ہاتھ میں، جو تندہی، فرض شناسی اور دیانتداری کی شہرت رکھتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ کسی عالمی ادارے یا تنظیم نے بیرون ملک مشکوک افراد کے پکڑے جانے پر کبھی اے این ایف پر انگلی اٹھائی ہو، موردالزام ٹھہرایا ہو۔ عدالت عظمیٰ نے مخدوم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا تو آصف علی زرداری نے مخدوم شہاب الدین کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا، پارٹی کے اندر نیک نام مخدوم شہاب صاحب کے مخالفین متحرک ہو گئے اور ایک ایسا کیس ڈھونڈ نکالا جس میں کارروائی کا حکم شہاب صاحب نے جاری کیا تھا۔ ایفیڈرین کا کوٹہ الاٹ کرنے کے الزام میں اے این ایف کاغذی کارروائی کا آغاز کر چکی تھی، معاملہ پریس میں آیا اور مخدوم شہاب صاحب وزارت عظمیٰ کی دوڑسے باہر ہو گئے، راجہ پرویز اشرف کی لاٹری نکلی اور وہ وزیر اعظم بن گئے، تب سے اب تک مخدوم شہاب اور آصف علی زرداری میں سے کسی نے اے این ایف کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا لیکن میاں شہبازشریف، مریم نواز اور ان کے دیگر ساتھی قابل داد ہیں کہ وہ کھل کر رانا ثناء اللہ کو بے قصور، اے این ایف کو گناہگار اور وزیراعظم عمران خان کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، اے این ایف کو بھی نیب کی طرح حکومت کا ماتحت بلکہ غلام بے دام قرار دیا جارہا ہے۔ رانا ثناء اللہ کو کن شواہد اور ثبوتوں کی بنا پر گرفتار کیا گیا؟ ان کی گاڑی سے کچھ برآمد ہوا یا نہیں؟ اور رانا صاحب کے منشیات فروشوں سے رابطوں کی اطلاعات میں کس قدر صداقت ہے؟ کوئی بات بھی کسی نے اب تک کھل کر بتائی نہ وثوق سے کچھ کہا جا سکتا ہے۔ نواب آف کالا باغ کے دور میں شراب کی بوتل برآمد کر کے انقلابی شاعرحبیب جالب کوگرفتار کیا گیا تو الطاف گوہر مرحوم نے یہ کہہ کر رند خرابات کی جان چھڑائی کہ لوگ کیا کہیں گے ایوبی حکومت ایک شاعر سے ڈرتی ہے؟ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چودھری ظہور الٰہی مرحوم پر بھینس چوری کا الزام لگا اور نوازشریف دور میں عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ کو ٹائلوں کی غیر قانونی سمگلنگ میں گرفتار کرنے کی کوشش ہوئی۔ سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کی روش عام رہی ہے لہٰذا اب بھی کوئی سیاسی شخصیت کسی سنگین اخلاقی جرم میں گرفتار ہوتو شور یہی مچتا ہے کہ حکومت کے انتقام کا نشانہ بن رہی ہے۔ خواہ حکومت کے کسی اہم فرد کو کسی ادارے کی کارروائی کا سرے سے علم ہو یا نہ ہو۔ رانا ثناء اللہ آج عدالت میں پیش ہوں گے تو الزامات کی فہرست بھی سامنے آجائے گی۔ آخری فیصلہ پھر بھی قانون کی عدالت میں ہو گا کہ وہ قصور وار ہیں یا بے قصور؟ ماڈل ٹائون کیس کے وہ نامزد ملزم ہیں مگر تاحال قانون کی گرفت سے بچے ہوئے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے اور چودہ بے گناہ مرد و خواتین کے قتل کا الزام لگنے پر بھی رانا صاحب کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکا۔ ویسے بھی پاکستان میں قانون غریب اور کمزور کی گردن مروڑتا اور امیر و طاقتور کے سامنے کورنش بجا لاتا ہے۔ ماڈل ٹائون میں دن دیہاڑے قتل عام ہوا اور ٹی وی کیمروں کے سامنے مرد و خواتین پر گولیاں چلائی گئیں، کسی دوسرے ملک میں یہ سب ہوتا تو بھونچال آ جاتا مگر مقتولوں کے وارثوں کی طرف سے ایف آئی آر ایک سال بعد آرمی چیف کے حکم پر درج ہوئی اور ایک شہید خاتون کی کم سن بچی حصول انصاف کے لیے آج تک عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہے۔ حکومت اس قدر طاقتور اور ہر ادارے پر غالب ہوتی تو میاں شہباز شریف اور اپنے دیگر مخالفین کو قانون کی گرفت میں لا کر سزا دلوا چکی ہوتی اور علیم خان و سبطین خان کوکبھی گرفتار نہ ہونے دیتی۔ مگر یہ زمینی حقیقت ہے اور ہر ایک پر عیاں۔ رانا ثناء اللہ کی گرفتاری سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی اور پارلیمانی سطح پر دھچکا لگا ہے۔ الزام اس قدر مکروہ اور سنگین ہے کہ قانون پسند، شریف اور دیانتدار مسلم لیگی ارکان اسمبلی و کارکنوں کیلئے اس کا دفاع آسان نہ ایک ایسی جماعت میں ڈٹے رہنا ممکن جس کی ٹاپ لیڈر شپ کسی نہ کسی اخلاقی جرم میں سوئے زنداں رواں دواں ہے اور معاملات بہتر بنانے، اپنے بیانئے اور انداز فکر پر نظرثانی کرنے کے بجائے قیادت ہر معاملے میں حکومت اور فوج کو مورد الزام ٹھہرا کر اقتدار کے ایوانوں سے فاصلے روز بروز بڑھا رہی ہے۔ رانا ثناء اللہ کے بعد اگر شاہد خاقان عباسی اور رانا مشہورد بھی گرفتار ہوگئے جس کا قوی امکان ہے تو مسلم لیگ کی قومی اور صوبائی پارلیمانی پارٹی میں فاورڈ بلاک کی تشکیل کا عمل تیز ہوگا اور عمران خان سے اگلی بار ملاقات کرنے والوں کی تعداد نہ صرف زیادہ ہوگی بلکہ یہ انکار و تردید کا تکلف بھی شاید نہ کریں۔ میاں شہباز شریف کے بارے میں یہ تاثر پختہ تھا کہ ان کے روابط برقرار ہیں اور معاملات بہتر مگر دو تین روز سے ان کے بیانات میں تلخی بڑھ گئی ہے اور وہ بھی مریم نواز شریف کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ کے منتخب ارکان اسمبلی کی اکثریت اس مزاج کی ہے نہ پاک فوج کے بارے میں امریکہ اور بھارت کے بیانئے کو پاکستان میں رائج کرنے کی روادار۔ تلخ بیانات مخالفین کو یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ مسلم لیگی ارکان اسمبلی کو بآسانی ورغلا سکیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون ہوا تومیاں شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ لیکر اعلیٰ اخلاقی مثال قائم کی مگر منشیات کی ترسیل اور فروخت میں ملوث ہونے کا سنگین الزام لگنے پر انہوں نے رانا صاحب کو بے قصور قرار دیکر اے این ایف کو عمران خان کے اشاروں پر چلنے والا ایسا ادارہ باور کرایا جو حکومت کے سیاسی مخالفین سے کئی کلو منشیات برآمد کرسکتا ہے۔ یہ تک نہیں سوچا کہ پاکستان کے ایئرپورٹس پر منشیات کی ترسیل اور سمگلنگ روکنے والے ادارے پر سنگین الزام لگا کر وہ ملک کی کیا خدمت کر رہے ہیں اور پاکستان دشمن عناصر کے ہاتھ میں کس قسم کا ہتھیار پکڑا رہے ہیں۔ رانا صاحب کی گرفتاری مسلم لیگ (ن) کیلئے دھچکا ہے اور مختلف مقدمات میں ملوث دیگر تمام سیاستدانوں کیلئے پیغام کہ قانون کے لمبے ہاتھوں سے اب کوئی نہیں بچ سکتا، کوئی سیاستدان، حکمران، جج، جرنیل، جرنلسٹ کوئی بھی نہیں، آج وہ کل ہماری باری ہے۔