صدر عارف الرّحمان علوی
صدر ڈاکٹر عارف الرّحمان علوی ہمیشہ سے ایسے نہ تھے۔ ان کا تعلق ایک با وقار خانوادے سے ہے۔ والد مرحوم ڈاکٹر حبیب الرحمان الٰہی نہایت نیک نام شخص تھے۔ جواہر لعل نہرو کے معالج رہے۔ جماعتِ اسلامی سے سرگرم وابستگی رہی۔ عارف علوی بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے وابستہ رہے۔ جماعت کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا۔ جلد سیّد مودودی کے حجرہئِ بے آب و رنگ سے اُکتا گئے اور 1996ء میں ایک بڑی زقند بھر کے عمران خان کے نگار خانہئِ خوش رنگ میں آ بیٹھے۔ وہ دِن اور آج کا دِن، انہوں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ پیا رنگ میں کچھ ایسے رنگے گئے کہ میر تقی میر کا سا احوال ہوگیا۔
"قشقہَ کھینچا، دَیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا"
پیا رنگ ہی کا اعجاز ہے کہ پچہتر سال کی عمر میں بھی اُن کے رَگ و پے میں وہی بجلیاں کوند رہی ہیں جو پی ٹی آئی کے آتش مزاج طفلانِ خود معاملہ کو "برق پاشیوں" پر اُکساتی رہتی ہیں۔
فرہنگِ آصفیہ نے "طائفہ" کے معنی ملّت، قوم، جماعت، جتھّا، غول اورگروہ بتائے ہیں۔ تحریکِ انصاف کا ستائیس سالہ چال چلن، سیاسی جماعت کے بجائے غول، گروہ، جتھے اور طائفے ہی کا رہا ہے۔ میں ایسے کئی شائستہ و نجیب افراد کو جانتا ہوں جو اس طائفے کا حصہ بنے اور اُن کی کایا کلپ ہوگئی۔ اہلِ فارس کا محاورہ نما قول ہے "ہر کہ درکانِ نمک رفت نمک شد" جو بھی نمک کی کان میں گیا، خود بھی نمک ہوگیا۔ اچھے بھلے ڈاکٹر عارف الرّحمان علوی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
1973ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد، دو جرنیلی صدور کو چھوڑ کر، بیشتر کا تعلق سیاسی جماعتوں سے تھا۔ فاروق لغاری صاحب کو تقریباً نو ماہ متحارب جماعت، مسلم لیگ(ن) کے ساتھ کام کرنا پڑا۔ انہوں نے قانون سازی اور روزمرہ دفتری معمولات کے حوالے سے کبھی کوئی رخنہ نہ ڈالا۔ یہاں تک کہ صدر کے اختیارات سلب کرنے والی تیرھویں ترمیم کا زخم بھی سہہ لیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے حوالے سے اڑچن آ پڑی تو ایوانِ صدر کو سیاسی اکھاڑا بنانے کے بجائے استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔
آصف علی زرداری نے بطور صدر تین ماہ اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف، وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کام کیا۔ کبھی کوئی خانگی نوعیت کی بد مزگی بھی پیدا نہ ہوئی۔ آر ٹی ایس کی مرگِ ناگہانی سے عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ نے جنم لیا تو مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے و الے ممنون حسین، صدرِ پاکستان تھے۔ انہوں نے عمران خان سے حلف لینے میں کوئی تامُّل نہیں کیا اور لگ بھگ ایک ماہ منصبی متانت کے ساتھ گزارے۔ ان میں سے کسی کو بھی محض سیاسی کدورت کی بنا پر حکومت کو زِچ کرنے یا پارلیمنٹ کے منظور کردہ بلوں کے حوالے سے ہیرا پھیری اور کرتب کاری کی نہ سوجھی۔ اور تو اور پرویز مشرف نے بھی اختیارِ کُلّی کا ذائقہ شناس ہونے کے باوجود، پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ تقریباً پانچ ماہ رکھ رکھاؤ سے کام کیا۔
جون بدلنے کا پہلا مظاہرہ کراچی میں ایک پہّیہ جام ہڑتال کی کال پر کیا۔ جس انداز سے گاڑی کا دروازہ کھول کر قانون نافذ کرنے والے کسی اہلکار کی طرف لپکے اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر ان کے جوہر شاہراہئِ دستور کے چار ماہی دھرنے میں نئی چکا چوند کے ساتھ سامنے آئے جب پی ٹی وی پر حملہ آور ہونے، توڑ پھوڑ کرنے اور نشریات بند کرا دینے والے بلوائیوں کی فاتحانہ پیش قدمی کی خبر، اپنے چیئرمین کو دیتے ہوئے علوی صاحب سے اپنے لہجے کی کامرانیوں و سرشاری اور سومنات فتح کر لینے کی طرحداری سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔
ایوانِ صدر میں، اُن کے کردار کے ساتھ کوئی ایک بھی قابلِ رشک روایت وابستہ نہیں۔ کبھی تحقیق و تفتیش کا دفتر کھلا تو شاہانہ اخراجات کا اندازہ ہوگا جو پُرتکلف ضیافتوں اور پُر تعیش ساز و سامان سے لے کر بے ذَوق مشاعروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے پُر وقار آئینی منصب کے تقاضوں سے قطع نظر، وہ پورے عہدِ صدارت میں بنی گالہ اور زمان پارک کے مدار کا دُم دار ستارہ بنے رہے۔ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت رہی انہوں نے ایک بل پر بھی اعتراض لگا کر واپس نہ کیا۔ کسی ایک بل کو بغیر دستخطوں کے لوٹا دینے کے زبانی احکامات جاری نہ کیے۔
پی ٹی آئی نے ایک دن چند منٹوں کے اندر چالیس سے زیادہ بل منظور کر لیے۔ صدر عالی مقام کے ماتھے پر کوئی شکن نہ آئی۔ سب پہ ٹھپہ لگایا اور اگلے دن واپس بھیج دیئے۔ پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سال میں صدر عارف الرّحمان علوی نے وزیر اعظم کے حکم پر ستتر(77) آرڈیننس جاری کیے جو پاکستان کی چھہتر سالہ تاریخ کا ریکارڈ ہے۔ وزیر اعظم نے نہ جانے کس کی اُکساہٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہا تو علوی صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اپنی توثیقی مہر ثبت کی اور سپریم کورٹ بھیج دیا۔ عدالت نے اسے مسترد کر دیا لیکن صدر کو خجالت نہ ہوئی۔ جب وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے یہ ریفرنس نہیں بھیجنا چاہیے تھا تو صدر بھی بُزِاَخفش کی طرح گردن ہلاتے ہوئے بولے "ہاں مجھے بھی نہیں بھیجنا چاہیے تھا"۔ امریکی سائفر کا ناٹک رچانے، جنرل باجوہ کو تا حیات توسیع کی پیشکش کرنے اور ڈپٹی سپیکر سے شرمناک رولنگ دلانے کے باوجود بات نہ بنی تو شکست خورد ہ وزیر اعظم نے آئینی تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ٹھانی۔
صدر نے لمحہ بھر توقف کے بغیر دستخط کرکے اسمبلی تحلیل کر دی۔ عدالت نے صدر کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا لیکن طائفہ، نفسیات کے عین مطابق انہوں نے نادم ہونے کے بجائے اسے اپنی وفا شعار ی کا تمغہئِ اعزاز بنا لیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے "گڈ ٹو سی یو" کہہ کر عمران خان کی شبِ اسیری کو ایک آراستہ پیراستہ بنگلے کی شبِ نشاط میں بدل دیا تو سب سے بلند آئینی منصب پر فائز صدر علوی کو رنگا رنگ کھانوں کی طشتریاں اٹھائے زیرِ حراست ملزم کی بارگاہ میں حاضری دیتے کوئی قباحت محسوس نہ ہوئی۔ ، طائفہ کی نفسیات اس طرح کی سوچ کو کُھرچ ڈالتی ہے۔
گیارہ دن بعد، 9 ستمبر کو انہیں پانچ سال پورے ہو جائیں گے لیکن علوی صاحب کو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ پارلیمنٹ کے منظور شدہ بلوں کے حوالے سے آئین کا آرٹیکل 75 کیا کہتا ہے؟ وہ یہ بتانے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے کہ جو کچھ ٹویٹ میں کہہ رہے ہیں وہی کچھ بلوں پر کیوں نہ لکھ دیا؟ آئین کی رُو سے وہ پانچ سالہ عہدِ صدارت پورا کرکے بھی اُس دن تک اپنے عہدے پر قائم رہیں گے جب تک نئی اسمبلیاں نیا صدر منتخب نہیں کر لیتیں۔ رہا استعفیٰ تو اس کے لیے احساس و ضمیر پر پیہم ڈنک مارنے والی حسّاسیّت چاہیے اور وہ یہ خرخشے بہت دور چھوڑ آئے ہیں۔
طائفے کا حصّہ بننے کے بعد محمود اعظم فاروقی، نعمت اللہ خان، سید منور حسن، پروفیسر غفور احمد اور عبد الستار افغانی جیسے درویشانِ خدا مَست کا رنگ پھیکا پڑ چکا بلکہ معدوم ہو چکا ہے۔ اب علوی صاحب کے ذہن و فکرکے افق پر علی زیدی، فواد چودھری، زلفی بخاری، اسد عمر اور شہزاد اکبر کے شوخ رنگوں کی قوس قزح جھولا جھول رہی ہے۔ سیّد مودودی کے خطبات پر عمران خان کے ملفوظات غالب آ چکے ہیں۔ سو اپنے پس منظر سے قطعِ نظر، آج صدر عارف الرحمان علوی وہی ہیں جو دکھائی دے رہے ہیں۔ طائفے کا حصہ بن کر اُنہیں ایسا ہی ہونا چاہیے۔