قصہ ایک "کالے قانون" کا!
عالی مرتبت چیف جسٹس پاکستان، مسٹرجسٹس عمر عطابندیال نے فیصل واوڈا مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا قانون ایک کالا قانون ہے، جمعرات کو اسی مقدمے کی سماعت کے دوران انہوں نے مزید فرمایا "کسی عوامی نمائندے کو تا حیات نا اہل قرار دینا اتنا آسان کام نہیں، آرٹیکل 62ون۔ ایف کا ڈیکلریشن صرف مجاز عدالت ہی ٹرائل کورٹ کی طرف سے شواہد قلمبند کرنے کے بعد جاری کر سکتی ہے، اس کے بغیر کسی کو بھی بددیانت اور بے ایمان نہیں کہا جا سکتا۔ صادق اور امین کا تعین کوئی آٹومیٹک تصور نہیں، یہ باقاعدہ مکینکل پراسس ہے۔ "
اس بحث میں نہیں پڑتے کہ نواز شریف کو تاحیات نا اہل قرار دینے کیلئے کون سی ٹرائل کورٹ نے چھان بین کی تھی؟ کون سا "ٹیکنیکل پراسس" بروئے کار آیا تھا؟ کس طرح ایک "آٹومیٹک مشین" نے ایک شخص کو سزا دیتے ہوئے اپیل کے حق سے بھی محروم کر دیا تھا؟ اور یہ سب کچھ عدالتِ عظمیٰ کے صوابدیدی اختیارات (184-3) کے تحت ہوا تھا۔
جہاں تک میری فرومایہ معلومات کا تعلق ہے، دستورِ پاکستان، ضابطہِ فوجداری اور مجموعہِ قوانین میں کوئی ایسی شق، کوئی ایسا ضابطہ اور کوئی ایسا قانون موجود نہیں جو کسی شخص کو تاحیات نااہل قرار دینے کی طرف اشارہ بھی کرتا ہو، خاص طور پر ایسی "صفاتِ کردار" کی بنا پر جن کی جانچ پرکھ کا کو ئی معتبر پیمانہ وضع نہیں کیا جا سکا۔ 62۔ ون۔ ایف بھی تاحیات نا اہلی کے تصور سے ناآشنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آرٹیکل 62اور اس کی تمام ذیلی شقوں کا تعلق، منتخب ہونے سے قبل کسی امیدوار کی شرائطِ اہلیت سے ہے۔ یعنی یہ آرٹیکل اُن ارکان کیلئے نہیں جو منتخب ہو کر ایوان میں پہنچ چکے ہیں۔ آئین میں آرٹیکل 62 کا عنوانِ جلی ہے۔
"(Parliament) Qualification for Membership of Majlis-e-Shoora"
یعنی ارکان مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی اہلیت۔
آسان الفاظ میں کہا جائے تو یہ آرٹیکل ایسی چھلنی ہے جس سے گزر کر کوئی امیدوار انتخاب لڑنے کا اہل ہوتاہے۔ آرٹیکل 63 کا عنوان ہے۔
"(Parliament) Disqualification for Members of Majlis -e- Shoora"
یعنی ارکان مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی نااہلیت۔
دونوں شقیں واضح طور پر بتاتی ہیں کہ ایک کا تعلق قبل از انتخاب کے مرحلے سے ہے اور دوسری کا بعد از انتخاب سے۔ آرٹیکل 62کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے۔
کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا ْچنے جانے کا اہل نہیں ہو گا اسی طرح آرٹیکل 63 کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رُکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے اور رُکن رہنے کے لئے نا اہل ہو گا اگر، آئین کے الفاظ اور ان کی روح کو دیکھا جائے تو آرٹیکل 62کی کسی ذیلی شق کے تحت، کسی رکن پارلیمنٹ کو نا اہل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیلئے آپ کو آرٹیکل 63سے رجوع کرنا پڑے گا جو مجلس شوریٰ میں موجود ارکان کی نااہلیت سے بحث کرتا ہے۔
اب آئیے 62ون۔ ایف کی طرف جس کا ترجمہ، وزارت قانون و انصاف کے طبع شدہ آئین میں یوں کیا گیا ہے۔
"کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رُکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہوگا اگر وہ سمجھدار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو اور عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔ "
اس شق میں صرف دوباتوں کا ذکر ہے" منتخب ہونے یا چُنے جانے اس کا مفہوم کسی ابہام کے بغیر واضح کر رہا ہے کہ اس کا تعلق قبل از انتخاب، امیداوار کی اہلیت سے ہے۔ آرٹیکل 63 میں منتخب ہونے اور چنے جانے کے ساتھ اور رکن رہنے کے الفاظ یہ وضاحت کر رہے ہیں کہ اس کا اطلاق موجود ارکان پر ہو گا۔ اب اگر قبل از انتخابات کی شرائط کا اطلاق بعد از انتخابات کی صورت حال پر کیا جا رہا ہے اور کسی رکن پارلیمان کو بعداز انتخاب کی کسوٹی (آرٹیکل 63) پر پرکھنے کے بجائے قبل از انتخاب (آرٹیکل 62) کی میزان میں تولا جا رہا ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ایسا متعدد عدالتی فیصلوں کی بنا پر ہو رہا ہے جن کی رو سے اہلیت اور نا اہلیت کی دونوں شقوں (62اور 63) کو ایک دوسرے میں ضم کر کے پڑھا جا رہا ہے۔
ارکانِ پارلیمان کی اہلیت اور نا اہلیت کی شقیں 1956 اور1962 کے دساتیر میں بھی موجود تھیں لیکن یہ شرائط واضح اور ابہام سے پاک تھیں۔ انہیں کسی عدالتی تاویل و تعبیر کی حاجت نہ تھی۔ مثلاً امیدوار کی عمر، ووٹر لسٹ میں نام کا درست اندارج، شہریت، مالی بدعنوانی جیسے معاملات، ان سب کیلئے صرف دستاویزی شواہد کافی تھے۔
1973 کے آئین میں بھی اہلیت و نا اہلیت کی وہی شقیں رکھی گئیں جن کی جانچ پرکھ کے واضح پیمانے موجود تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے احیائے آئین 1973 کے فرمان مجریہ 1985 کے تحت آئین کے 67 آرٹیکلز اور 280 ذیلی شقوں میں ترامیم کر دیں۔ آرٹیکل 62 میں پانچ اور 63 میں بارہ نئی شقوں کا اضافہ کر دیا گیا۔ یہی تصرف آج کی سیاست کا ایک بڑا نزاعیہ بن چکا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے تحت جمہوریت کے پرچم بردار سیاست دانوں نے بھی ان شقوں کو متبرک قرار دیتے ہوئے برقرار رکھا۔
2018 میں تاحیات نا اہلیت کے حوالے سے کوئی سترہ پٹیشنز سپریم کورٹ میں لگیں۔ ان میں وہی کُچھ کہا گیا تھا جو آج جناب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کہہ رہے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی۔ فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال ہی نے لکھا۔ انہوں نے ہی عدالت میں پڑھا اور قرار دیا کہ۔
Disqualification of any member of Parliament or a public servant under Article (62) (1) (f) in FUTURE will be "permanent"
"آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کسی بھی رُکن پارلیمان یا عوامی عہدیدار کی نا اہلیت مستقبل میں ہمیشہ کیلئے ہوگی۔ " اس حکم نامے سے صاف ظاہر ہے کہ آئین، قانون یا 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی کا پہلے سے کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ عمر بھر کی نااہلی، خود عدالت عظمیٰ نے کشید کی۔
بلاشبہ آئین کی تشریح و تعبیر کی مقدس ذمہ داری عدلیہ ہی کی ہے۔ عدلیہ کے جج صاحبان کو اپنی دانش و بصیرت بروئے کار لاتے ہوئے یہ رہنمائی کرنی چاہیے کہ 62 ون ایف کے تحت طے کی گئی صفات کا تعیُّن کس طرح کیا جائے؟ کس پیمانے سے جانچا جائے کہ کوئی شخص کتنا سمجھدار ہے؟ کس کسوٹی پر پرکھا جائے کہ کون کس قدر پارسا ہے؟ کس ترازو میں تول کر اندازہ لگایا جائے کہ کوئی فاسق ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کس قدر؟ کس مفتیِ اعظم سے کسی کے ایماندار ہونے کا فتویٰ لیا جائے اور کسی کے امین ہونے کا ٹیسٹ کون سی مستند لیبارٹری سے کرایا جائے؟
سچ یہ ہے کہ ماضی بعید اور خاص طور پر ماضی قریب میں عدالتی فیصلوں نے آئین و قانون کی گتھیاں سلجھانے کے بجائے اُلجھا دی ہیں۔ ایسی ایسی گرہیں ڈال دی ہیں کہ دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہیں۔ 62 ون ایف کو بھی قابلِ نفاذ بنانے کی مخلصانہ کاوش کے بجائے مزید پیچیدہ اور متنازع بنا دیا گیا ہے۔ حال ہی میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ہی ایک پرانے فیصلے سے رُجوع کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ جج کسی بھی وقت اپنی پرانی رائے بدل سکتا ہے۔ اس اصول کے تحت عدلیہ کو وسیع مراجعت کا اہتمام کرنا ہوگا۔
اگر کسی فردِ نا مطلوب کو نمونہِ عبرت بنانا ہی مقصدِ اولیٰ ٹھہرے، آئین و قانون کی تشریح اسی نظریہِ عدل کے تحت کی جائے، بات نہ بنے تو "لُغتِ قانونِ سیاہ (بلیک لا ڈکشنری)" کو بروئے کار لایا جائے تو اچھا خاصا گوراِ چٹا قانون بھی کالا قانون بن جاتا ہے اور اس کی کوکھ سے صرف کالے فیصلے ہی جنم لیتے ہیں۔