Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Irfan Siddiqui
  3. Nazriya e Zarurat Se Nazriya Sahulat Tak

Nazriya e Zarurat Se Nazriya Sahulat Tak

"نظریہ ضرورت" سے "نظریہ سہولت" تک

سپریم کورٹ کے تیرہ رُکنی بینچ میں شامل آٹھ معزز جج صاحبان کے "تاریخ ساز" فیصلے کی رُو سے خواتین اور اقلیتوں کی متنازع نشستیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی "سُنّی اتحاد کونسل" کو ملیں گی نہ اسمبلیوں میں موجود دوسری جماعتوں کو۔ اِن نشستوں کے حقدار، مختلف اسمبلیوں میں بیٹھے وہ افراد ہیں جنہوں نے کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ یا نشان پر الیکشن نہیں لڑا، جو آزادانہ حیثیت سے انتخابی اکھاڑے میں اترے، جنہوں نے اسمبلیوں میں آ جانے کے بعد بھی پی ٹی آئی سے وابستگی کا اعلان کرتے ہوئے کوئی اجتماعی نظم قائم نہیں کیا، جو آئین وقانون کی دی گئی میعاد کے اندر اندر بہ قائمی ہوش وحواس اور بصد عجز ونیاز اپنی آزادانہ مرضی وخوش دِلی سے ایک اور رُکن سے جاملے جو اُنہی کی طرح بطورِ آزاد اسمبلی میں آیا تھا۔ انہوں نے خود فریبی کے لئے یہ تصوّر کر لیا کہ ہم "سُنّی اتحاد کونسل" نامی سیاسی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہ ہرگز نہ سوچا کہ ہم ایک بے چہرہ اور بے نام ونشان جماعت میں شامل ہونے کے بجائے خود اپنی جماعت، تحریکِ انصاف، کا احیا کرکے اُس میں کیوں شامل نہیں ہو جاتے؟

جلد ہی پی ٹی آئی اور اُس کے وکلا کو بھیانک غلطی کا احساس ہوگیا لیکن تیرکمان سے نکل چکا تھا۔ قانونی جنگ لڑنے سے پہلے وہ اِس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اب یہ مخصوص نشستیں کسی طور پی ٹی آئی کو نہیں مل سکتیں۔ سو پی ٹی آئی نے، سُنّی اتحاد کونسل کو اُبھارا جو عدالت جا پہنچی۔ پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے اتفاق رائے سے قرار دیا کہ یہ نشستیں پی ٹی آئی کو مل سکتی ہیں نہ سُنّی اتحاد کونسل کو۔ لہذا اُنہیں اسمبلیوں میں موجود دیگر جماعتوں میں، اُن کی تعداد کے مطابق تقسیم کر دیا جائے۔ سُنّی اتحاد کونسل، داد رسی کی اپیل لے کر سپریم کورٹ آ گئی۔

نو طویل سماعتوں کے بعد تیرہ رُکنی بینچ میں شامل آٹھ عالی مرتبت منصفانِ کرام نے معاملے کی نزاکت اور حساسیت کی وجہ سے آئینی و قانونی موشگافیوں میں پڑنے اور بے ثمر دماغ سوزی کرنے کے بجائے، انصاف کا ایک لامحدود، وسیع تر اور آفاقی تصوّر اپناتے ہوئے سارے معاملے کو مسندِ عدل پر بیٹھ کر دیکھنے کے بجائے پی ٹی آئی کے دِل کے نرم ترین گوشے میں آسن جمایا، آئین کی سبز کتاب ایک طرف رکھی اور طویل مراقبے کے بعد بحرِ عدل وانصاف سے یہ گوہرِ تابدار نکال کر لائے کہ بے شک پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے، بے شک اِس کے امیدواروں کے پاس پی ٹی آئی کا ٹکٹ تھا نہ انتخابی نشان، بے شک انہوں نے اسمبلیوں میں آنے کے بعد، آزاد ارکان کے طور پر غیرمشروط حلف اٹھالیا، بے شک اپنی آزاد حیثیت اور پی ٹی آئی سے وابستگی سے دستکش ہو کر وہ "سُنّی اتحاد کونسل" میں شامل ہو گئے، بے شک وہ کوئی عرضداشت اور فریاد لے کر ہمارے پاس نہیں آئے، بے شک وہ بھی مخصوص نشستیں"سُنّی اتحاد کونسل" کو دینے کے آرزو مند ہیں، لیکن آئین وقانون کا تقاضا جو بھی ہو، وسیع تر آفاقی انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ یہ نشتیں ایک بڑے گفٹ پیک میں باندھ کر پی ٹی آئی کے حوالے کر دی جائیں۔

بلاشبہ جج صاحبان کے سامنے "عدلِ جہانگیری" کی ایسی کئی مثالیں موجود ہوں گی جو ہماری بیاضِ عدل میں سنہری اوراق کے طور پر موجود ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، تسلیم کرنا پڑے گا کہ معزز جج صاحبان نے ستّرسالہ پرانے نظریہِ ضرورت "کو فرسودہ خیال کرتے ہوئے ایک نیا، تازہ دَم اور وسیع المقاصد نظریہ تخلیق کیا ہے جسے" نظریہِ سہولت "کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ نظریہ انصاف کے نگہبانوں کی بالغ نظری اور فکری بلُوغت کی دلیل ہے۔ اس نظریے کی اساس زمانہ قبل از مسیح کے پنچایتی نظام پر رکھی گئی ہے۔ پنچوں کے سامنے آئین کی کوئی کتاب ہوتی ہے نہ قانون کا کوئی کتابچہ۔ کوئی ضابطہِ فوجداری نہ ضابطہِ دِیوانی۔ بس چند بڑے بوڑھے کسی گھنے پیڑ کے نیچے چارپائیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حُقے کے کش لیتے، زیرنظر معاملے پر چھلچھلاتی سی نظر ڈالتے اور اپنی صوابدیدپر فیصلہ صادر فرمادیتے ہیں۔

یہ فیصلہ جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، سب فریقوں پر واجب ولازم ہوتا ہے۔ کچھ کم فہم سے لوگ اکیسویں صدی کے اس روشن وبیدار عہد میں زمانہِ قبل از مسیح کے پنچایتی نظام کو ملک وقوم کے لئے نیک شگون خیال نہیں کرتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ آئین وقانون کو بے معنی بنا دیا گیا اور"نظریہِ سہولت" کے مطابق مہم جویانہ فیصلے صادر ہونے لگے تو "مہم جوئی" کو فروغ ملے گا اور من مانی پر مبنی سہولت کاری کسی ایک ادارے کی میراث نہیں رہے گی۔ لیکن میرے خیال میں ہمارے منصفینِ کرام ہم سے کہیں زیادہ زِیرک، کہیں زیادہ معاملہ فہم اور کہیں زیادہ دُوراندیش ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ" نظریہِ سہولت" کا اطلاق کن نیک چلن جماعتوں اور پاکباز شخصیات پر ہوگا۔ " نظریہِ ضرورت" کن صاحبانِ تیغ و تبر کے لئے بروئے کار آئے گا اور آئین وقانون کے تازیانے کس کی پشت پر برسائے جائیں گے۔

بحث مباحثے سے ہٹ کر، زندہ وتابندہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی سمیت پانچ اسمبلیوں میں نابود سمجھی جانے والی پی ٹی آئی "نظریہ سہولت" کی ایک ہی جادوئی پھونک سے، زندہ ہوگئی ہے۔ بقول سینیٹر علی ظفر "ہمیں اس کی کوئی امید تھی نہ توقع۔ سپریم کورٹ نے تو ہماری بہت سی غلطیاں بھی درست کردی ہیں"۔ سینیٹر صاحب کو شاید علم نہیں کہ "نظریہِ سہولت" کیسے کیسے معجزے رقم کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں رائج نظامِ عدل کی رُو سے فیصلہ دینے کے بعد عدالت کا دروازہ بند ہوجاتا ہے لیکن "نظریہِ سہولت" کے تحت "آفٹر سیل سروس" کا اہتمام بھی کیا گیا ہے چنانچہ جج صاحبان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر کسی مرحلے پر پی ٹی آئی کو فیصلے کے حوالے سے ہماری راہنمائی، مشکل کُشائی اور سہولت کاری کی ضرورت محسوس ہو تو بخوشی رابطہ کر سکتی ہے۔

اُدھر پی ٹی آئی سے جُڑے اَرکان پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہے ہیں۔ "ہم کون ہیں؟ کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا ہم سُنّی اتحاد کونسل کے رُکن ہیں؟ کیا اَب ہم پی ٹی آئی میں آ گئے ہیں؟ ہم نے تو حلف نامے داخل کرکے سُنّی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اُن حلف ناموں کا کیا بنے گا؟ کیا کوئی آزاد رُکن حلف نامہ دے کر کسی جماعت میں شامل ہو جانے کے بعد اپنا حلف توڑ کر کسی دوسری جماعت میں شامل ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی عدالت کسی رُکن کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ فلاں جماعت سے نکل کر فلاں جماعت میں چلا جائے؟ کہیں ہم پر آئین کے آرٹیکل 62.63 کا اطلاق تو نہیں ہو جائے گا؟

کوئی اُنہیں سمجھائے کہ دِل چھوٹا نہ کریں۔ پنچایتی فکر پر مبنی "نظریہِ سہولت" آئین وقانون کی زنجیروں سے آزاد ہوتا ہے۔ اگر وہ بیٹھے بٹھائے پی ٹی آئی کو مالا مال کر سکتا ہے تو آنے والی کسی انہونی سے بچانے کی سکت بھی رکھتا ہے۔ مضطر خیرآبادی کا معروف شعر ہے

خدا کی دَین کا موسیؑ سے پوچھئیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے

حضرت موسیؑ تو آگ کی تلاش میں بڑے جتن کرکے کوہِ طور کی چوٹی پر پہنچے تھے کہ ربّ رحیم وکریم نے انہیں نبوّت سے نواز دیا۔ پی ٹی آئی تو کہیں گئی بھی نہیں۔ نہ کوئی تلاش، نہ کوئی استدعا۔ بقولِ فیض "نہ سوالِ وصل نہ عرض غم، نہ حکایتیں، نہ شکایتیں" مگر "نظریہِ سہولت" کی بے پایاں شفقت ومحبت نے ماں کی ممتا کی طرح اُسے گود میں لیا اور مالامال کر دیا۔ 1954 سے 2024 تک، ستّر برس میں"نظریہِ ضرورت" کی بلندیوں کا "نظریہ سہولت" کی رَفعتوں سے ہم کنار ہوجانا، ہمارے نظامِ عدل وانصاف کی قابلِ رشک خوش نصیبی ہے۔

Check Also

Ayaz Melay Par

By Muhammad Aamir Hussaini