ایسی ہوتی ہیں سیاسی جماعتیں؟
میں اتوار کے دِن یہ کالم لکھ رہا ہوں جو آپ منگل کو پڑھیں گے۔ عالم یہ ہے کہ گزشتہ چار روز سے اسلام آباد کی سڑکیں، گلیاں، بازار، منڈیاں، تعلیمی ادارے اور دفاتر بند پڑے ہیں۔ مریض ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پا رہے۔ مسافر ہوائی اڈوں تک نہیں جا سکتے۔ تازہ سبزیوں، پھلوں اور روزمرہ استعمال کی اشیائے خور و نوش کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ دیہاڑی دار مزدوروں اور محنت کشوں پر کیا گزر رہی ہے۔ ٹیلی فون سروس معطل ہے۔ شادیوں کی تقریبات منسوخ ہو رہی ہیں۔ کسی کو منیر نیازی کا آسیب زدہ شہر دیکھنا ہو تو اسلام آباد آ جائے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ سب کیوں ہے؟
اس لیے کہ سونگھنے کی انتہائی تیز حِس رکھنے والے شکاریوں کو، چاہے وہ انسان ہوں یا جانور، بہت دور سے شکار کی بُو آ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح تحریک انصاف کے بانی عمران خان بہت پہلے بھانپ لیتے ہیں کہ کوئی معزز مہمان پاکستان آ رہا ہے یا کوئی بڑی کانفرنس ہونے کو ہے جس میں درجنوں ممالک کے سربراہ شرکت کریں گے۔
اِس اجتماع سے نہ صرف پاکستان کا بین الاقوامی قد کاٹھ بالا ہوگا بلکہ قومی و ملکی مفادات کی بھی آبیاری ہوگی۔ سو خان صاحب کی شکاری حسیات پوری طرح بیدار ہو جاتی ہیں، اعصاب تن جاتے ہیں، اعضا میں بجلیاں بھر جاتی ہیں اور وہ برق رفتاری کے ساتھ زقندیں بھرتے ڈی چوک کی طرف لپکتے ہیں تا کہ فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا کر معزز مہمانانِ گرامی کو بھگا دیا جائے اور پاکستان کے سینے کا تمغہ بننے والی پیش رفت کو ماتھے کا داغ بنا دیا جائے۔
پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی اس مشقِ مذموم کو کبھی حقیقی آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے، کبھی انقلاب کا نام دیا جاتا ہے، کبھی آئینی ترامیم کا راستہ روکنے کی جدوجہد قرار دیا جاتا ہے اور کبھی عدلیہ کی آزادی کا معرکہ بتایا جاتا ہے۔ خان صاحب 2014 میں اس "حب الوطنی" کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں جب وہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے والے چینی صدر کی راہ میں دیوارِ چین بن کر کھڑے ہو گئے تھے اور دیرینہ دوست ملک کے صدر کو یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔
ہیجان و اضطراب کا جوالا مکھی اُس دِن سے لاوا اُگل رہا ہے جس دِن قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد نے خان صاحب کی فصیلِ اقتدار پر دستک دی تھی۔ مسلمہ جمہوری روایات کا تقاضا تھا کہ عمران خان ڈٹ کر مقابلہ کرتے۔ ہار جاتے تو قائد حزب اختلاف کے طور پر اپوزیشن کی قیادت کرتے اور تین چار ووٹوں کی برتری پر قائم پی ڈی ایم، کی حکومت کو اُڑا کے رکھ دیتے۔ اُنہیں فوری انتخابات بھی مل جاتے اور ممکنہ طور پر اچھے نتائج بھی۔ لیکن خان کی خوئے ہنگامہ جُو نے یہ راستہ پسند نہ کیا۔ کبھی سائفر سے کھیلے۔ کبھی امریکہ اور پاک فوج پر گٹھ جوڑ کا الزام لگایا۔
نوشتہ تقدیر نہ ٹلا تو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری سے ایک اخلاق باختہ رولنگ دلوا کر بچنے کی کوشش کی۔ احتیاط مزید کے طور پر صدر عارف علوی کو حکم دیا کہ قومی اسمبلی توڑ دو۔ وہ تیار بیٹھے تھے۔ اِس سہولت کے ساتھ قومی اسمبلی کو ایوان سے بے دخل کر دیا جیسے کوئی ماہر دندان ساز کھوکھلے دانت کو نہایت چابک دستی کے ساتھ انگشت شہادت کی ہلکی سی جنبش سے نکال باہرکرتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب خود بھی فریب پیہم کا شکار ہیں اور اپنے پیروکاروں کو بھی دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں کہ اُنہیں پاکستان کے درجنوں دوسرے وزرائے اعظم کی طرح نہ تو محلاتی سازش سے باہر کیاگیا، نہ گورنرجنرل کے فرمان سے، نہ (2B) 58 کے صدارتی اختیار سے، نہ نفاذِ مارشل لا سے اور نہ "بلاخوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد" والے قبیلہ عبا پوش سے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیراعظم تھے جس پر اُسی ایوان نے آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت عدم اعتماد کر دیا جس ایوان نے اُن پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے سر پر وزارت عظمیٰ کی دستار فضیلت سجائی تھی۔ یہ "اعزاز" کسی دوسرے وزیراعظم کے حصے میں نہیں آیا۔
1973 کے آئین کے بعد ذوالفقار علی بھٹو مارشل لا کا نشانہ بنے، محمد خان جونیجو (2B) 58 کا ہدف ہوئے، محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں بار 58 (2B) کا لقمہ بنیں۔ نوازشریف ایک بار 58 (2B) کے ذریعے نکالے گئے، ایک بار مارشل لا کی تلوار چلی اور ایک بار عبا پوشوں کے انصاف کا شکار ہو گئے۔ سید یوسف رضاگیلانی بھی عتاب عدل کی زد میں آ گئے، ظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز، راجہ پرویز اشرف، شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کسی پر بھی ایوان نے عدمِ اعتماد نہیں کیا۔ صرف آئی آئی چندریگر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا غوغا اٹھا اور وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔
منصب سے ہٹانے کے لیے غیرآئینی، غیر سیاسی اور غیر اخلاقی، آمرانہ اور عادلانہ، ہتھکنڈے دوسرے وزرائے اعظم کے خلاف استعمال ہوئے۔ ہتھکڑیاں ڈالی گئیں۔ برسوں بندی خانوں کا رزق بنا دئیے گئے۔ وزیراعظم ہائوس سے ہانکتے ہوئے اِس طرح نکالے گئے کہ بندوقوں کی سنگینیں اُن کی پسلیوں میں کھُبی جا رہی تھیں۔ خان صاحب کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ عدم اعتماد کا راستہ روکنے اور صدر علوی کی دندان شکن کوشش کے باوجود انہونی ہوگئی تو وہ بصد اہتمام، اپنے اثاثے سمیٹ کر، ہیلی کاپٹر میں بیٹھے اور بنی گالا چلے گئے۔
اڑھائی برس گزر جانے کے بعد بھی وہ یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا جو دوسروں کے ساتھ ہوتا رہا، صرف آئین کے مطابق، ایوان کی اکثریت نے ان کی قیادت پر عدمِ اعتماد کر دیا۔ اب ان کا غصہ پاکستان دشمنی میں ڈھل چکا ہے جس کا متعدد مثالوں سے حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاژ کرنا بھی اسی مکروہ مہم کا حصہ ہے۔ "خان نہیں تو پاکستان نہیں" کا نعرہ ملک دشمنی کی آخری حدوں کو چھوتی حکمت کار میں ڈھل چکا ہے۔
کبھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی باہمی چپقلش، دشمنی کی انتہائی حدوں کو چھو رہی تھی۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وفاق میں محترمہ بے نظیر کی حکومت ہو تو پنجاب مسلح جتھے لے کر وزیراعلیٰ کی قیادت میں اسلام آباد پر چڑھائی کر دے یا وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہو اور پیپلزپارٹی سندھ سے لشکر لے کر لاہور یا اسلام آباد پر حملہ کش ہو جائے۔ عمران خان نے یہ روایت بھی پائے رعونت تلے روند ڈالی۔
آٹھ سال پہلے، اکتوبر 2016 میں خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اسلام آباد پر حملہ کیا جو موٹر وے پر روک لیا گیا۔ 25 مئی 2022 کو خود عمران خان نے صوبائی وزیراعلیٰ محمود خان کو تمام تر حکومتی وسائل کے ساتھ ہمراہ لیا اور اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے۔ اب یہ معمول بن چکا ہے۔ آئے دِن وفاق کی ایک اکائی، اپنے انتظامی سربراہ اور تمام تر وسائل کے ساتھ وفاق پر یلغار کر دیتی ہے۔
گنڈا پور کے تازہ حملے میں بڑی تعداد افغان باشندوں کی تھی۔ درجن سے زیادہ پولیس اہلکار بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ پولیس، رینجرز، فوج کسی نے ہتھیار استعمال کیے نہ انتشاری ٹولے کو ریاستی ردعمل کی زد میں رکھا۔ فسادیوں نے اسلام آباد پولیس کانسٹیبل، عبدالحمید شاہ پر تشدد کرکے شہید کر دیا۔ ستر سے زائد اہلکار زخمی ہوئے۔ کیا کوئی سیاسی جماعت ایسے کرتی ہے؟ کیا یہ سب کچھ کرنے والے فسادی جتھے، سیاسی جماعت کہلا سکتے ہیں؟ جانے یہ عفریت کیا چاہتا ہے۔
9 مئی کی غارت گری سے بھی اس کا دل نہیں بھرا۔ کیا برادر عزیز احسن اقبال کے بقول ہمیں اس فتنے کو کچلنے کے لیے وہی کچھ کرنا ہوگا جو ترکی کے طیب اردوان نے فتح اللہ گولن سے کیا تھا؟