ریڈیو ڈے
ریڈیو ڈے آیا اور گزر گیا۔ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ ایک وقت تھا کہ ریڈیو ہی وہ واحد ذریعہ تھا جو خبر، حالات حاضرہ، سماجی احوال کی آگاہی اور آرٹ کی پرورش کرنے والا ایک ادارہ تھا۔ ہر گھنٹے کے بعد خبریں اور بعد میں تبصرہ جات پھر فلمی گانے کبھی مشاعرہ کبھی مذاکرہ۔
کبھی ریڈیو کا سٹیٹس وہ ہوتا تھا بایدو شا ید۔ اس کا رعب، اہمیت اور شان ایسی ہی ہوتی تھی جیسے آج کل فالکن کے سپرنووا آئی فون سکس پنک کی ہے۔ اس فون کی قیمت انچاس ملین ڈالر ہے کہ اس میں ہیرے لگے ہیں مگر شان میں اس وقت کے ریڈیو کے مقابل نہیں ٹھہر سکتا۔ جن لوگوں کے پاس ٹرانسسٹر ہوتا تھا وہ اسے اٹھائے پھرتے تھے۔ اگر دوسرے شہر یا گاؤں جانا ہے تو بطور سٹیٹس سمبل ساتھ ہی لے کر جانا ہے۔
اگر آپ کاشتکار ہیں اور کھیتوں میں کام کر رہے ہیں تب بھی ریڈیو وہاں ایک طرف پڑا ہوتا تھا۔ دوسرا سٹیٹس سمبل تھا کہ اس کی اونچی آواز ہو اس کی آواز دور تک جائے۔ ریڈیو پر دو تین گول بٹن لگے ہوتے تھے ایک والیم کا ہوتا تھا اس کو فْل چھوڑنا پرلے درجے کی عیاشی تھی۔ آپ کہیں جا رہے ہیں اور ساتھ ہی عنایت حسین بھٹی کی آواز میں لگا ہوتا تھا " ایہہ دنیا مطلب دی او یار مطلب ہووے پیار وے کردے ظالم دنیا دار"۔ ادھر کسی نے ریڈیو والے بھائی سے کوئی بات کرنا ہوتی تو وہ پہلے اس کی آواز بند کرتا اور بات سنتا۔ بات سن کر دوبارہ گانا لگاتا تو وہ ختم ہو چکا کہتا تو کبھی غصے اور کبھی پیار سے کہتا یار گانے کا لطف غارت کر دیا تم نے۔
ہمارے پسندیدہ پروگراموں میں جمہور دی آواز ہوتا تھا۔ اس میں دو کردار نظام دین اور قائم دین ہوتے تھے مگر پروگرام کی جان نظام دین کی فی البدیہہ باتیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ پروگرام رات سات آٹھ بجے لگتا تھا اور گاؤں کی چھتوں پر چارپائوں پر لیٹ کر اسے سننے کا مزا سوا ہوتا تھا۔ سرہانے کے ساتھ رکھ کر یا ریڈیو کو پیٹ پر رکھ سنا جاتا تھا۔ نظام دین ہر چھوٹے بڑے کی دل کی آواز تھا۔ ایک تو آواز اعلٰی براڈ کاسٹروں کی تھی اس پر اس کی جملہ بازی لاجواب تھی۔ پروگرام کے معینہ وقت سے پہلے ہی ریڈیو پاکستان لاہور لگا کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اس کا کمال یہ تھا کہ ایسے گمان ہوتا تھا ہمارے سامنے پروگرام ہو رہا ہے۔
ایک دفعہ پروگرام شروع ہوا تو نظام دین نے اکیلے ہی پروگرام کا آغاز کیا۔ تھوڑی دیر بعد قائم دین بھی آ گئے نظام دین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا بھائی قائم دینا موڑھا لے تے نیڑے آ جا۔ قائم دین بھی پورا استاد تھا پاؤں زمین پر مارنے اور گرنے کی آواز کی شکل بناتے ہوئے بولا آیا جی آیا۔ بس تانگے والا اپنے گھوڑے کو دانہ کھلا رہا تھا میں نے چلو کھلا لو مجھے پروگرام میں دیر ہوتی ہے تو کوئی بات نہیں۔ باتوں باتوں میں ایک خوبصورت پیغام بھی دے دیا اور سامعین کی تہذیب بھی کر دی کہ جانوروں کا بھی خیال رکھنا کتنا ضروری ہے۔ حالانکہ وہ دونوں شروع ہی سے وہاں موجود تھے۔ درمیان میں گانوں کا تڑکا الگ ہوتا تھا۔ پروگرام کے آخر میں منڈیوں کے بھاؤ بھی شامل ہوتے تھے اور پروگرام ختم کرتے ہوئے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے جو بعد عظیم کمپئر طارق عزیز نے اسے کو اپنا لیا۔
جمہور دی آواز کئی عشروں تک چلتا رہا اور اپنا جادو قائم رکھنے میں بھی اپنا ثانی نہ بننے دیا۔ تلقین شاہ ایک اور ایسا پروگرام تھا جس کو چھوٹے بڑے شوق سے سنتے تھے اس میں بھی قائم دین ہوتا تھا جس کو تلقین شاہ بیوقوفا کہہ کر چھیڑتے تھے۔ یہ پروگرام اس قدر ہٹ تھا کہ اشفاق احمد کا نام ہی تلقین شاہ ہوگیا۔ ویسے ریڈیو کا موٹو قرآنی آیت" لوگوں سے اچھی بات کرو" ہی تھا۔
اردو اور انگریزی میں خبریں سننے کا لطف ہی الگ تھا۔ اس زمانے میں اردو تلفظ کا اس قدر احتیاط برتی جاتی تھی کہ کبھی غلط العام لفظ بھی استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ شام کو فوجی بھائیوں کی فرمائش میں فلمی گیت غزلیں اور کافیاں پیش کی جاتی تھیں۔ دلچسپی کا عنصر قائم رکھنے کے لیے فوجی بھائیوں کے نام بھی سنائے جاتے تھے۔ اور یوں اعلان ہوتا چھمب جوڑیاں سے فرمائش کرتے ہیں محمد صادق اور ان کے ساتھی بہاولپور سے فرمائش کرتے ہیں سپاہی محمد یونس حوالدار اللہ رکھا اور ان کے ساتھی۔
ہمارے ابا جی صحیح معنوں میں ابا جی تھے ان کا رعب ایسا تھا کہ ان کے سامنے بات کرنے کا یارا ہی نہیں تھا۔ ان سے کسی چیز کی فرمائش کرنا گویا باقاعدہ بدتمیزی کے زمرے میں آتا تھا۔ ہمارا بھی دل کرتا تھا کاش ہمارے پاس بھی ایک ریڈیو ٹرانسسٹر ہو ہم بھی اپنی پسند کے گانے سن سکیں۔ اس کی اجازت ہمیں نہیں ملی۔ جن کے پاس ریڈیو ہوتا تھا ان پر رشک آتا تھا۔ ہم ایک پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ علاقے کے رہائشی تھے وہاں ریڈیو رکھنے والوں کے بارے میں ویسے کچھ اچھی رائے نہیں رکھی جاتی تھی۔ اسے ایک قسم کی غیر پسندیدہ سماجی حرکت بھی سمجھا جاتا تھا۔ اس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ اپنے دوست کے گھر چلے جاتے اور آل انڈیا ریڈیو دلی کے آپ کی پسند پروگرام میں لتا جی، کشور کمار، محمد رفیع اور آشا بھوسلے کے گیت سنتے۔
گلزار کا لکھا ہوا گیت جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے اور لتا جی کا گایا ہوا گانا۔ گھر آیا میرا پردیسی اور پنکھ ہوتی تو اڑ آتی رے۔ مہینوں انتظار کرتے اور کسی دن قسمت یاوری کرتی تو یہ گیت نشر ہو جاتے۔ پھر کیسٹس اور ٹیپ ریکارڈر کا دور آیا تو یہ گیت جب چاہتے سن لیتے۔ ریڈیو نے سیاسی شعور بڑھانے میں اہم کردار کیا۔ ستتر کی تحریک میں بی بی سی کا نمائندے مارک ٹیلی تو جیسے ہیرو ہی بن گیا۔
ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ یہ تحریک امریکہ بہادر کے اشارے پر برپا کی گئی تھی۔ اور مارک ٹیلی بھی خاص مقاصد ضرور رکھتے تھے۔ ہندوستان میں ایک کانفرنس میں ہمارا مارک ٹیلی سے ٹاکرا ہوا تو ہم نے جی بھر کر ان کی کلاس لی اور لاجواب کر دیا تب مارک ٹیلی نے بھارت کی شہریت اختیار کر لی تھی۔