منٹو کا قانون
قانون کا بنیادی تھیسز مساوات ہے۔ ریاضی کی زبان میں اسے ایکس اور وائی کی برابری کہتے ہیں۔ آپ کا دھیان کسی اور ایکس وائی کی طرف جا رہا ہے تو بھی ٹھیک ہے وہ بھی سیاست کی ترازو پر برابر ہونے چاہییں۔ openedایک انسان ہے اور درجنوں قوانین۔ اس بیچارے پر لازم ہے کہ وہ زندگی بھر ان کا پابند رہے۔ ان قوانین کے مختلف نام ہیں اور الگ الگ اسی نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان میں ایک جاگیردارانہ قانون ہوتا ہے یہ دنیا میں Land holdingاور دوسرے طبقات کے درمیان عدم مساوات کی بات کرتا ہے۔ اسے " رب دی مرضی" کا قانون کہتا ہے۔ اس قانون کا بنیادی تھیسز یہ ہے کہ سب کچھ رب دی مرضی سے ہو رہا ہے۔
اس کے مقابلے میں ایک قانون عوام کی مرضی سے بنایا جاتا ہے۔ کہنے کو تو وہ عوام کی مرضی سے بنایا جاتا ہے مگر اس میں عوام کی مرضی شامل بھی ہوتی ہے یا نہیں یہ البتہ معلوم نہیں ہے۔ قانون کی اصل روح اس کا نفاذ ہے۔ عوام کی مرضی کا قانون کا نفاذ کہاں ہوتا ہے یہ بھی معلوم نہیں۔ اس قانون کی ٹکر کا اگر کوئی قانون ہے تو منٹو کا قانون ہے۔ عدلیہ، مقننہ، ریاست اور اس کے حکام قانون سازی میں بنیادی پتھر ہیں۔ منٹو کا قانون ان سب پر بھاری ہے۔ اس کے قانون پر عمل بھی ہوتا ہے۔
منٹو کا قانون اس کے افسانے میں نافذ ہوتا ہے اور ہم سب اسے نافذ ہوتا دیکھتے ہیں کہ قانون ہوتا ہی وہ ہے جس پر عمل ہوتا نظر آئے۔ منٹو نے احمد ندیم قاسمی کو کہا تھا میں نے تمہیں اپنا دوست بنایا ہے اپنے ضمیر کی مسجد کا امام مقرر نہیں کیا۔ مجھے وعظ مت کیا کرو۔ اس کا کہا کس کو یاد نہیں کہ "منٹو منٹو کے لیے زندہ ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں جاننا چاہے گا کہ منٹو ہے کیا بلا " تھا؟ منٹو واقعی کیا بلا تھا؟ اس کے قد کو ناپنے کو الفاظ کم پڑ جاتے ییں۔ وہ یونہی تو امر نہیں ہو گیا۔
اگر کوئی اردو افسانے کی وساطت سے امر ہوا ہے تو منٹو ہے۔ منٹو ایک نام نہیں ایک سمبل ہے۔ ادب کا اخلاق کا معاشرت کا عقائد کا اور سب سے بڑھ کر قانون کا۔ کوئی پوچھے منٹو کا قانون کون سا ہے بھلا۔ منٹو کا وہی قانون ہے جو آپ کا ہے جو میرا ہے جو میرے ملک کا ہے۔ وہی قانون جسے نہ آپ جسے نہ میں اور جسے نہ میرا ملک اپنی اصل روح کے مطابق نافذ ہونے دیتا ہے۔ مگر کیا تسلیم نہ کرنے سے کسی کی سچائی کم ہوتی ہے کیا؟ جیسے کسی آسمانی کتاب کو تسلیم نہ کرنے سے کیا اس کا آسمانی ہونا باطل ہو سکتا ہے۔
منٹو ایک مسلمان ہے وہ کہیں بھی شیعہ، سنی، بریلوی اور دیوبندی نہیں ہے وہ ایک مسلمان ہے اور بس۔ منٹو ایک انسان ہے وہ کہیں بھی گورا کالا یا گندمی نہیں۔ منٹو کی عورت مکمل سچ ہے وہ کہیں ہندوستانی پاکستانی نہیں۔ اس کا قانون کہیں رومن انگلش یا مذہبی نہیں وہ منٹو کا قانون ہے۔ وہ قانون جسے کسی بڑا ہونے کی وجہ سے رعایت نہیں اور کسی کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے عذاب نہیں۔ کسی کو کافر اور کسی کو غیر کافر کا سرٹیفیکیٹ جاری نہیں ہوتا۔
جب ایک دفعہ ہم نے منٹو کی تینوں بیٹیوں سے ایک سوال کیا کہ منٹو آپ سے اور اپنی بیگم سے جو گفتگو کرتے تھے کیا وہ آپ کو یاد ہے تو جواب میں ایک بیٹی نے بتایا سب یاد ہے کہ امی سے جو وہ باتیں کرتے تھے وہ یہاں نہیں کہی جا سکتیں۔ امی بھی ناراض ہوں گی اور منٹو بھی۔ وہ سوال پر ہنس اٹھیں۔ مکتبہ جدید بیرون اردو بازار میں آغا امیر حسین بطور سیلز مین کام کرتے تھے۔ تب ان کی عمر گیارہ بارہ سال تھی۔
یہ سولہ اکتوبر اکیاون کا دن تھا۔ ابھی لاہور کے بازار اپنی روایت کے مطابق کھلے نہیں تھے۔ کہیں سے منٹو لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی لگنے کی خبر سن چکے تھے۔ وہ بیڈن روڈ سے ننگے پاؤں سرکلر روڈ تک پہنچے۔ مکتبہ جدید پر اس وقت صرف سیلز مین اور اس دن کے اخبارات موجود تھے۔ منٹو کرتہ پاجامہ میں تھے مگر پیروں سے ننگے تھے۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے " میں جل گیا واں میں جل گیا واں"۔ وہ دن اور آج کا دن سب جل سڑ رہے ہیں۔ جو بھی حکومت یہاں برسر اقتدار آتی ہے اپنا قانون لاتی ہے۔ اسے وہ رب دی مرضی کا قانون کہتی ہے۔ عوام بھی رب دی مرضی کے عادی ہو گئے ہیں۔ البتہ ان حکومتوں کا الگ الگ رب ہوتا ہو گا کہ پانچ سال بعد نئی حکومت نیا قانون بنا لیتی ہے۔
منٹو کا قانون تبدیل نہیں ہوتا۔ وہ اٹل ہے" ششدر و متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی۔ اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے۔ اور اس کی آنکھوں میں سے شرارے برس رہے ہیں۔ تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس کی چیخ پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا، "پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔ اب ہمارا راج ہے بچہ!"
لوگ جمع ہو گئے۔ اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا اس کی چوڑی چھاتی پھولی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔ "
"وہ دن گزر گئے۔ جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔۔ اب نیا قانون ہے میاں۔۔ نیا قانون!"اور بیچارا گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کے مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔ استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ "نیا قانون نیا قانون" چلاّتا رہا۔ مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ "نیا قانون، نیا قانون۔ کیا بک رہے ہو۔۔ قانون وہی ہے پرانا!"