بین السطور
سابق وزیر اعظم حال مقیم لندن نواز شریف کا کہنا ہے کہ انہیں"پلیٹ میں رکھ کر پانچ ارب ڈالر دیے گئے لیکن ہم نے کہا ایبسولوٹلی ناٹ، پاکستان کی عزت پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ "اس عمران خان نے کیا ابسولوٹلی ناٹ کہنا ہے۔ اس کو کیا پتہ پانچ ارب ڈالر کتنی بڑی رقم ہوتی ہے۔ اتنی رقم سے ایون فیلڈ جیسی دس اور عمارتیں خریدی کی جا سکتی ہیں۔ جو پانچ ارب ڈالر ملنے تھے اس کی ٹریل چونکہ پھر گم ہی ہونی تھی اس لیے میں نے اس رقم کو ہی لات مار دی۔ یہ راز میرے سینے میں دفن رہنا تھا مگر اتنی رقم ہاتھ سے جانے کا افسوس تو ہوتا ہے۔ آخر انسان بندہ بشر ہی ہوتا ہے۔ ٹریل ایسی کتّی شے ہے کہ اس کا خیال آتے ہی دل میں ہول اٹھتے ہیں اور عجیب و غریب خیالات کی یورش شروع ہو جاتی ہے۔
اس منی ٹریل کی وجہ سے ہم نے کیا کیا نہیں کیا
بقول شاعر، صبرایوب کیا، گریہِ یعقوب کیا۔ یہ میرا حال ہی ایسا نہیں تمام ن لیگ کا یہی حال ہے۔ ہماری توجیہات تو قوم مان کر ہی نہیں دے رہی۔ رانا صاحب عمران کے لانگ مارچ سے نمٹ لیں تو قوم کا دماغ وہ ہی درست کریں گے۔ اگرچہ پچھلے کئی عشروں میں ہم نے عوام کا دماغ درست کر دیا تھا اور انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا تھا۔
دوئم ن لیگی سچے سرمہ کی بدولت انہیں دن میں تارے بھی نظر آ گئے تھے۔ اب تو رانا صاحب سے ہی ہماری ساری امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ عوام تو اب ہمارے جھانسے میں آ ہی نہیں رہے۔ انہوں کے کہا کہ "آج مریم نواز سْرخرو ہو کر پاکستان سے آئی ہے، مریم نواز نے ثابت کیا کہ مقدمہ جھوٹا تھا، سزا جھوٹی تھی"۔ مریم نواز نے بھی میری طرح حق کی لڑائی لڑی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ جیل کی فضا ہم باپ بیٹی کو راس نہیں آتی۔ ہم دونوں بمار شمار ہو جاتے ہیں۔ مگر کیس ہم عدالت میں ہی جیت کر آئے ہیں۔ جس طرح مریم نواز سرخرو ہو کر لندن آئی ہیں میں بھی اسی طرح سرخرو ہونا چاہتا ہوں۔ حمزہ اور شہباز شریف دونوں حق سچ کی لڑائی میں سرخرو ہو گئے ہیں۔ باقی صرف میں رہ جاؤں گا۔ میں اپنے خاندان کا بڑا ہوں لہذا حصہ بقدر جثہ کے مطابق میرا حق اول ہے۔ اب اس کا ایک ہی حل ہے کہ خود عدالت میدان میں آئے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرے۔
مریم نواز کی سرخروئی پہلا دانہ ہے یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاوقتیکہ تمام کے تمام جھوٹے کیس ختم ہوں۔ انہوں کے کہا "میرے پانچ سال کیوں ضائع کیے گئے"۔ اگر ہم نے ملک و قوم کے تیس چالیس ضائع کیے ہیں تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ کوئی میرے بھی پانچ سال ضائع کرے۔ اب تلافیِ مافات اسی صورت ممکن ہے کہ جس طرح پانچ ارب ڈالر پلیٹ میں رکھ کر ہمیں پیش کیے گئے تھے اسی طرح اب پانچ سال ہمیں دیے جائیں تا کہ ہم اپنے دستِ راست برادرم اسحاق ڈار کی قیادت میں کام وہیں سے شروع کریں جہاں چھوڑا تھا۔
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
آصف زرداری کے پیارے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ "عمران خان کے پاس پانچ ایم این اے خریدنے کے پیسے کہاں سے آئے۔ یہ ان کا اعتراف ہے"۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ اگرزرداری پانچ کیا پچاس ایم این اے خریدنے کا دعوی کریں تو ان کو پھبتا بھی ہے۔ آقا کے کارکن کیا تمام پاکستان ان کے اس دعوے کو سچ مانے گا۔ مگر عمران کے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔ وہ کہاں سے پانچ ایم این اے خرید سکتا ہے۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔ اس کے لیے تجربہ اور مہارت درکار ہوتی ہے وہ اس میں کہاں۔
سندھ ہاؤس میں ہمارے میلے ٹھیلے کو دیکھ کر اس کو عقل نہیں آئی۔ انہوں نے کہا "کیا یہ پیسے فرح گوگی نے دیے ہیں"۔ کافی دنوں سے ن لیگ نے فرح گوگی کا نام لینا چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کا ذکر کر دیا ہے کہ لوگوں کے حافظے سے اس کا نام ہی محو ہو چلا تھا۔ اور تو اور نیب یا کسی اور ادارے کی طرف سے کوئی خبر شبر ہی نہیں آئی کہ اس کے خلاف تحقیقات کا کیا بنا؟
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہِ پارینہ را
سمجھ نہیں آ رہی آخر اس کے خلاف کیوں کوئی تحقیق نہیں کی جا رہی؟ جب عمران خان کی حکومت آصف زرداری نے یقیں محکم محبت فاتح عالم کی پالیسی کے تحت ختم کی تھی تو عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ عمران خان نے ضرور کرپشن کی ہوگی مگر اب وہ بھی خاموش ہیں اور ہماری نظریاتی ساتھی جماعت ن لیگ بھی اس بارے میں خاموش ہے۔ اب اس کا ذکر چھیڑا ہے کہ ذکر اس کا بہ بدی بھی مجھے منظور نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان "ارکان خریدنے کے پیسوں کی منی ٹریل لی جائے اور عدالتیں اس کا نوٹس لیں"۔ اگرچہ انہوں نے تردید کر دی ہے کہ یہ فیک آڈیو ہے ہمیں اس کے باوجود وہ بالکل اصل لگتی ہے۔ کیونکہ ہماری نظریاتی ساتھی پارٹی نے ہمارے سامنے تو آڈیو بنائی تھی۔
آواز میں اگر تھوڑا بہت فرق لگتا ہے وہ اگلی وڈیو میں نظر نہیں آئے گا۔ چونکہ اس پر کرپشن ثابت نہیں ہو رہی لہذا اب سارا زور قومی اتحاد نے آڈیو لیکس پر لگا دیا ہے۔ اگوں لئی دتی برات آزمائش شرط ہے۔ کیا طرفہ تماشا ہے کہ پانچ چھ ماہ حکومت ملے بھی ہو گئے ہیں مگر عمران کی کرپشن کا پتہ ہی نہیں چل رہا۔ اصل میں وہ ایک بزدل آدمی ہے۔ آج تک اسے کوئی ڈھنگ کا استاد ہی نہیں ملا۔
مقصود چپڑاسی، پاپڑ والا فالودے والا، یوں ہی نہیں مل جاتے اس میں پتہ مارنا پڑتا ہے انتقال کر گئے لوگوں کا ڈیٹا کھنگالنا پڑتا ہے۔ ایک ایک موتی ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ ایسے فوت شدہ لوگوں تلاش کرنا اور پھر مالیاتی اداروں کے مینیجرز سے ساز باز کرنا پڑتی ہے۔ یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ استاد استاد ہوتا ہے۔
باقی یار زندہ صحبت باقی