زندگی بڑی ہے ، بہت بڑی
دلدلوں میں دھنسے ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالتے سیاستدانوں پہ کیا بات کی جائے۔ زندگی بڑی ہے، بہت بڑی۔
ساری بات طرزِ فکر ہی کی ہوتی ہے۔ ایک بڑی اور جامع تصویر آدمی دیکھتا ہے یا محدود سے تناظر میں۔ جذبات کے وفور میں فوری نتیجے کا آرزومند ہے یا آئندہ مہ و سال اور آنے والے زمانوں کو ملحوظ رکھے گا۔ کارِ سیاست ہو، کاروبار، ادنیٰ گھریلو یا دفتری معاملات، اکثریت لمحہء موجود میں جیتی ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا:
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہء بینا نہ ہوا
سطحی ہوتاہے، ہم بیشتر انسانوں کا طرزِ فکر سطحی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی علم و ادراک کے جویا ہیں۔ ساری زندگی مطالعے اور غور و فکر میں بتا دی۔ منیر نیازی دنیا سے اٹھے تو ڈاکٹر صاحب سے پوچھا: کیا سیاست سے بھی انہیں دلچسپی تھی؟ کہا: ایک سطحی چیز سے انہیں کیوں شغف ہوتا۔ مطالعہ ہر چند زیادہ نہ تھا مگر اپنی محدودات کا ادراک۔ ایک بار انہوں نے چند بڑے انگریزی شاعروں کے بارے میں مرحوم سے سوال کیا تو خالص پنجابی لہجے میں جواب دیا: حرام ہے جو میں نے انہیں پڑھا ہو۔ گویا عہدِ جاہلیت کے عرب شاعروں کی طرح زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھنے والا؛چنانچہ رائج موضو عات پر بھی ایسی بات کبھی وہ کہتے کہ ستارا سا چمک اٹھتا۔ مثلاً
فروغِ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیرؔ
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو
خیالات کی دنیا میں پروردگار کا نور جھلملاتا ہے تو آس جگمگاتی ہے۔ کتنے ہیں، مگر کتنے کہ احساسات کو متشکل کر سکیں، روشنی کو تھام سکیں۔ منیرؔ نے یہ کہا:
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
اردو شاعری کا ذکر تھا، صدیوں کی داستان چند جملوں میں ڈاکٹر صاحب نے کہہ دی۔ کہا: جہاں تک حسنِ خیال اور اس کے لیے الفاظ کے پیرہن کا تعلق ہے، غالبؔ ہی سب سے بڑے ہیں لیکن پھر رکے اور بولے: اقبالؔ کی بات الگ ہے۔ اس کا زاویہ نگاہ مختلف ہی نہیں، اتنا اعلیٰ اور برتر ہے کہ دوسرے کسی شاعر سے ان کا موازنہ ممکن نہیں۔ بجا کہا، بالکل بجا کہا۔ مثلاً سرکار ﷺ کی یاد میں غالبؔ نے وہ بات کہی کہ زمانے گزر جانے کے باوجودچمک دمک جس کی ماند نہیں۔ ہیرا سی دمکتی ہے۔
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
رسولِ اکرمؐ کی مدح میں نے اللہ کے حضور میں کی۔ صرف وہی ذاتِ پاک عالی جناب ﷺکے مقام و مرتبے سے آگاہ۔ جیسا کہ درویش نے کہا تھا: نفسِ انسانی کے فریب اور مصطفی ﷺ کے مقامات اتنے ہیں کہ کوئی بھی گن نہیں سکتا۔ ظاہر ہے کہ اس نکتے کا اقبالؔ کو بھی ادراک رہا ہوگا۔ عامیوں سے بہت زیادہ، شاعروں سے زیادہ، عالموں سے زیادہ۔ مگر تصویر کے لیے ریاضت کی اور بحر کی تہہ سے موتی ڈھونڈ لائے۔
وہ دانائے سبلؐ، ختم الرسلؐ، مولائے کل ؐجس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیء سینا
جیسا کہ ناصر ؔ کاظمی نے محسوس کیا تھا: مدح کاحق ادا نہیں ہو سکتا۔ کسی صورت نہیں ہو سکتا لیکن سعی تو لازم ہے۔ آدمیوں کی مشکل اللہ نے آسان کر دی۔ ختم المرسلینﷺ عرشِ بریں کو تشریف لے گئے تو ایک گیت فرشتوں نے گایا۔ سرکارؐ کی زبان سے یہ نغمہ امت تک پہنچا اور روزِ ازل تک کے لیے امر ہو گیا۔ ہر وقت، ہر کہیں قلب و نگاہ میں بسائے رکھنے والوں کی بات ہی دوسری ہے۔ ایک عام مسلمان بھی دن میں کئی بار اس نغمے کو دہراتا ہے۔ جب تک گردش لیل و نہار قائم ہے، کروڑوں آدمی دہراتے رہیں گے۔
اے اللہ سلامتی ہو محمدؐ پر اورآلِ محمد ﷺپر
جس طرح ابراہیمؑ اور ان کی آل پر سلامتی ہوئی
بے شک تو ہی حمد کے قابل اور تو ہی بزرگ و برتر ہے
اے پروردگار برکت نصیب ہو محمد ﷺاور آلِ محمد کو
جس طرح تیری بے پایاں برکت نصیب ہوئی ابراہیم ؑ اور آلِ ابراہیم کوبے شک تو ہی حمد کے قابل اور تو ہی بزرگ و برتر ہے
اپنے احوال میں آدمی ڈوبا رہتاہے۔ اللہ کی کتاب متوجہ کرتی ہے۔ سمندروں میں سازگار ہوائوں کے دوش پہ آسودہ کشتیوں کو دیکھو، بادلوں کو دیکھو، پروردگار کی قدرت سے زمین اور آسمان کے درمیان وہ معلق ہیں۔ آسمانِ دنیا کو دیکھو کہ جس پہ چراغ جلتے ہیں۔ غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہیں۔ منیرؔ نیازی نے یہ کہا تھا:
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
طلوعِ سحر کی پروردگار قسم کھاتا ہے۔ سحر کی، جب وہ سانس لیتی ہے اور رات کی، جب وہ چھا جاتی ہے مگر کون اس پہ غور کرتا ہے۔ کسی جنیدبغداری ؒ شیخ عبد القادرجیلانی ؒ اور علی بن عثمان ہجویریؒ داتا گنج بخش کے سوا۔
صوفیوں میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ خیال و فکر کی گرہیں کھولنے کی تمنا میں، نرم روی سے زمین پہ چلتے رہتے ہیں۔ اسی دنیا میں، مگر اس دنیا سے ماورابھی۔ کبھی تو بستیوں میں اور کبھی اسی عالم میں بستیوں سے نکل جاتے ہیں۔ چلتے چلتے شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کہیں دور نکل گئے۔ اتنی دور کہ نواح کو پہچان نہ سکے۔ ایک بڑھیا سرِ راہ کھڑی تھی۔ اس سے پوچھا: کون سا مقام ہے یہ، کون سا دیار؟ وہ بھی ایک ہی انوکھی تھی۔ بولی: اگر تو عبد القادر ہو کر نہیں جانتا تو میں تجھے کیا بتائوں۔
زمین اور زمانے ہی نہیں، زندگی اوراس کے خالق پر یہ اہلِ دانش سوچتے رہتے ہیں۔ کتاب کہتی ہے: اٹھتے بیٹھتے، پہلوئوں کے بل لیٹے، اپنے مالک کو یاد کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مگر زمین و آسمان کی تخلیق پر بھی غور کیا کرتے ہیں۔ ہمارے عہد میں بھی ایک آدمی ایسا ہے، سید الطائفہؒ، شیخِ ہجویرؒ اور شیخِ بغدادؒ کے نقوشِ قدم پہ چلتے ہوئے، اس بے پایاں کائنات کے تانے بانے پر جو سوچ بچار کرتا رہا اور ایک دن اس نے یہ کہا:
جلتے ہر شب ہیں آسمان پہ چراغ
جانے یزداں ہے منتظر کس کا
ایسا ایک نکتہ بھی ہے، جس پر غور کرنے والوں کو دائمی دانش عطا ہوتی ہے۔ اللہ کے نور سے وہ دیکھنے لگتا ہے۔ باقی ہم ہیں، اقبالؔ کے الفاظ میں خاک باز، خاک باز۔ دلدلوں میں دھنسے ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالتے سیاستدانوں پہ کیا بات کی جائے۔ زندگی بڑی ہے، بہت بڑی۔