تنہا
افسوس، صد افسوس، سچائی اور حقائق سے عمران خان بہت دورچلے گئے، تنہا رہ گئے۔ امام حسنؓ کا ارشاد یہ ہے:ثروت مندی اور اختیار و اقتدار سے آدمی بدلتا نہیں، بے نقاب ہوتا ہے۔ ذہنی کیفیت ایسی ہو گئی کہ سیاہ سفید اور سفید سیاہ نظر آتا ہے۔
لندن میں مقیم میرے خالہ زاد بھائی میاں محمد یٰسین کی جنرل محمد ضیاء الحق سے گاڑھی چھنتی تھی۔ جنرل محمد ضیاء الحق ہی کیا، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور پیر پگاڑا سمیت ان گنت لوگ ان کے مداح تھے۔ گاؤں اور محلے کے عام لوگ بھی۔ ایک بے حد وجیہ و شکیل آدمی، رزقِ طیب کی فراوانی، حسنِ اخلاق اور خیرہ کن وجاہت۔ بہترین برطانوی درزیوں کے سلے پیرہن پہنتے۔ اس پہ جذباتی توازن اور حسنِ کلام۔ لہجے میں حلاوت ہمیشہ برقرار رہتی۔ 1980ء کے عشرے میں کاروبار ڈوب گیا۔ زباں پہ شکوہ کبھی نہ آیا۔ زندگی کے وہی معمولات برقرار رہے۔ مہینے میں ایک آدھ بار درسِ قرآن کا اہتمام ہوتا اور کم از کم درجنوں کو مدعو کرتے۔ تیس برس ہوتے ہیں، ایک بار منو بھائی بھی شریک ہوئے اور شاداں لوٹے۔
مدّاح ان کے بے شمار تھے۔ گاؤں کے افتادگانِ خاک سے لے کرلندن کے شرفا تک، بے تکلف آدمی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بازار سے پان کے پتے غائب ہوئے تو خود دار ابو الاعلیٰ نے انہی کو پیغام بھیجا۔ برطانیہ میں پہلی پرواز سے پان کا ایک بڑا ٹوکرا 6 ذیلدار پارک پہنچ گیا۔ پیر پگاڑا کے برادرِ نسبتی حسن محمود انہی کے ہاں قیام کرتے۔ تب ایک جشن کا سماں ہوتا۔ اس لیے کہ رئیس زادہ ہونے کے باوجود حسن محمود باورچیوں کے باورچی تھے، خانساماؤں کے خانساماں۔ بیشتر وقت نعمت خانے میں گزرتا۔ انواع و اقسام کے کھانے پکتے۔ ہر روز عید اور ہر شب شبِ برات۔ ہشت پہلو ہیرے کا ایک زاویہ یہ تھا کہ یٰسین صاحب کم ہی کسی سے اختلاف کرتے ہیں۔ کریں تو اس قدر دھیمے پن کے ساتھ کہ مخاطب کو ناگوار نہ ہو۔ آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ اگرچہ لندن میں مقیم تھے مگر سال میں تین چار بار پاکستان آیا کرتے اور ہفتوں قیام کرتے۔ جنرل محمد ضیاء الحق ان کے لیے بے چین ہو جاتے۔ برادرِ نسبتی ڈاکٹر بشارت مرحوم سے کہتے: ارے بھائی!ایک مہینہ ہونے کو آیا، میاں صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی۔
جیسا کہ قدیم عرب کہا کرتے: آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا ہے۔ فرشتہ سیرت بھی دراصل فرشتہ سیرت نہیں ہوتے۔ کہیں کوئی کمی رہ جاتی ہے۔ ایک آدھ آنچ کی کسر۔ میاں محمد یٰسین میں بھی ہے۔ گاہے بھڑکتے تو ایسے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا۔ رتّی برابر لحاظ اور ایک ذرا سی مروت بھی باقی نہ رہتی۔ یقین ہی نہ آتا کہ یہ وہی صاحب ہیں، جو ابھی ابھی نسیمِ صبح کے لہجے میں بات کر رہے تھے۔ ایسا ہی ایک لمحہ 1980ء کے دہے میں پیش آیا۔ امیر العظیم کی قیادت میں، جو اب جماعتِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل ہیں، اسلامی جمعیت طلبہ جنرل محمد ضیاء الحق کے خلاف برسرِ پیکار تھی۔ لاہور کی کیمپ جیل میں اس کے دو کارکنوں پر تشدد ہوا اور بہت تشدد۔ میاں محمد یٰسین سے جماعتِ اسلامی کی قیادت نے رابطہ کیا، جب وہ راولپنڈی روانہ ہونے والے تھے۔
متنازع مگر شائستہ اور سادہ اطوار جنرل محمد ضیاء الحق 17اگست 1988ء کی سویر تک اسی مکان میں مقیم رہے، جہاں 14برس پہلے راولپنڈی کے کور کمانڈر کی حیثیت سے بسیرا کیا تھا۔ بالشت بھر کے فاصلے پر ایوانِ وزیرِ اعظم تھا اور آدھ گھنٹے کی مسافت پر اسلام آباد کا صدارتی محل۔ ضیاء الحق مگر اسی سادہ سے مکان میں مقیم رہے۔ مہمانوں کے لیے ایک آدھ کمرہ اور بنوا لیا۔ چھوٹی سی مسجد تعمیر کر لی۔ محل کا مکین بننے پر آمادہ نہ ہوئے۔ میاں محمد یٰسین راولپنڈی جاتے تو انہی کے ہاں قیام کرتے۔ مہمانوں کی تعداد کبھی بڑھ جاتی توبستر فرش پہ بچھا دیے جاتے۔ ضیاء الحق بہت تھوڑی دیر سویا کرتے۔ ترقی پسندوں اور پیپلزپارٹی والوں کو یقین ہے کہ حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک جتنے جرائم اس سرزمین پہ سرزد ہوئے، اگر سب نہیں تو زیادہ کے مرتکب ضیاء الحق تھے۔ جنرل نے غلطیاں کیں اور پہاڑ سی غلطیاں مثلاً مذہبی طبقے کی اس قدر حوصلہ افزائی کہ اقتدار کی بو پا کر دیوانہ ہو گیااور اب تک دیوانہ چلا آتا ہے۔ اور بھی بعض غلط فیصلے۔ حسنِ اخلاق کا مگر ایک بے بدل پیکر تھا۔ عاجزی اور انکساری کا بھی۔ سطح بین اسے ریاکاری کہتے ہیں۔ ریاکار ضیاء الحق نہیں، ذوالفقار علی بھٹو تھے، نواز شریف تھے اور عمران خان ہیں۔ ہمیشہ کی طرح نہایت رسان کے ساتھ جنرل سے اس کے مہمان نے کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں پر تشدد افسوسناک ہے۔ لہجے میں شکایت اور احتجاج نہ تھا، فقط یاد دہانی۔ یہی ان کا شعار تھا۔ جنرل اپنی مخصوص بے ساختہ ہنسی ہنسا اور بولا: آپ کو مغالطہ ہوا یٰسین صاحب، یہ ایک جھوٹی کہانی ہے، جو لیڈر لوگ اکثر گھڑ لیا کرتے ہیں۔ تکان تھی یا کوئی اور سبب یٰسین صاحب بھڑکے اور ایسے بھڑکے کہ خدا کی پناہ۔ بولے: آپ پہلے حکمران نہیں، جو تنہا رہ گئے، حقائق سے ناآشنا اور سچائی سے بہت دور۔ میں کیا چھوٹا سا بچہ ہوں کہ تصدیق کیے بغیر چلاآیا۔ لڑکوں کو مارا پیٹاہے اور بہت بری طرح۔ اس پہ آپ انکار بھی کرتے ہیں۔ جنرل ششدر رہ گیا۔ اب براہِ راست کیمپ جیل لاہور کے سپرنٹنڈنٹ سے اس نے بات کی۔ اس لہجے میں جسے اطاعت کا یقین تھا، انہوں نے کہا: صاف صاف بتاؤ کہ طلبہ پہ تشدد ہوا یا نہیں۔ جھوٹ بولا تو الٹا لٹکا دوں گا۔ رٹا رٹایا سبق اور بار بار پڑھایا گیا آموختہ سرکاری افسر بھول گیااور سچائی اگل دی۔
قائدِ اعظم تو خیر ایک استثنیٰ تھے اور مہاتیر محمد بھی۔ عمران خان تو ضیاء الحق بھی نہیں۔ اس لیے کہ ہر کامیاب حکمران طفیلیوں سے گریز کرتاہے۔ معلومات کے سرکاری ذرائع کے علاوہ کم از کم پانچ سات اور ممکن ہو تو زیادہ ذاتی دوست بناتا ہے، جو کڑوا سچ اس کے منہ پہ کہہ سکیں۔ کپتان خوشامدیوں میں گھرا ہی نہیں، ان کی حوصلہ افزائی بھی فرماتا ہے۔ اتوار کا خطاب اسی کا نتیجہ تھا۔ فرمایا: اڑھائی سالہ حکومتی کارناموں پر مجھے فخر ہے۔ فرمایا: سارے کرپٹ اپوزیشن میں ہیں۔ فرمایا: جنگ نہیں، قومیں کرپشن سے تباہ ہوتی ہیں۔
جی نہیں، کرپشن سے زیادہ قومیں باہمی کشمکش سے برباد ہوا کرتی ہیں۔ جی نہیں، سارے کرپٹ اپوزیشن میں نہیں، ان کی پارٹی میں بھی بہت۔ عثمان بزدار، عامر کیانی اور خسر و بختیار سمیت کئی وزرا پر سنگین الزامات ہیں۔ بعض کے باب میں ایجنسیوں کے فراہم کردہ ثبوت وزیر اعظم کی میز پر پڑے ہیں۔
افسوس، صد افسوس، سچائی اور حقائق سے عمران خان بہت دورچلے گئے، تنہا رہ گئے۔ امام حسنؑ کا ارشاد یہ ہے:ثروت مندی اور اختیار و اقتدار سے آدمی بدلتا نہیں، بے نقاب ہوتا ہے۔ ذہنی کیفیت ایسی ہو گئی کہ سیاہ سفید اور سفید سیاہ نظر آتا ہے۔