صحبت
انگریزی کا وہ مشہور محاورہ: کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بنتا ہی صحبت سے ہے۔ خواجہ غریب نوازؒ کا وہی ارشاد!
جو کردکھانا چاہتے ہیں۔ عزم و ارادہ جو رکھتے ہیں، وہ ثانیہ نشتر کی طرح ہوتے ہیں۔ جو صرف باتیں بنا سکتے ہیں، وہ شہریار آفریدی جیسے، عامر کیانی جیسے، سیف اللہ نیازی اور نعیم الحق جیسے۔ کچھ ایسے بھی ہیں، کچھ کر دکھانے کی توفیق تو کیا، بات بھی نہیں کر سکتے، عثمان بزدار جیسے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے کسی غلطی کا پوچھا جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے: میں زیرِ تربیت ہوں۔ یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس جامعہ سے، جو سیاست کا گہوارہ ہے۔ جہاں خالد مسعود خاں ایسے موجود تھے۔ یونیورسٹی میں جو آدمی سیاست کے بنیادی آداب نہ سیکھ سکے، شاید عمر بھر نہیں سیکھ سکتا۔ ایک قبائلی سردار کے فرزند ہیں۔ بلوچ قبائل اپنے قضیے سربراہ کے پاس لے کر جاتے ہیں۔ آئے دن درجنوں پیچیدہ تنازعات پر فیصلے۔
اجتماعی حیا ت کے خد و خال اور انسانی نفسیات کو سمجھنے کے نادر مواقع۔ آدمی کی خود غرضی اور جبلت کس طرح اسے اکساتی ہے۔ فریب دہی پہ آمادہ کرتی ہے۔ غلط فہمیاں کس طرح پیدا ہوتی اور پیچیدہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ باہمی مراسم میں خوش فہمی کا کردار کیا ہوتا ہے۔ جب یہ تحلیل ہوتو دریا سراب کیسے بنتا ہے۔ دوستی اور رشتے داری میں انا کا تصادم کس طرح اشتعال کا باعث بنتا اور انتقام کو ہوا دیتا ہے۔
شکایت کس طرح غیبت میں ڈھلتی ہے اور غیبت بغض و عناد میں۔ کیسے پھر جتھے داری جنم لیتی ہے اور آدمی حیوان بن جاتا ہے۔
دنیا کی کسی جامعہ، کسی استاد سے انسانی نفسیات کا اس قدر ادراک ممکن نہیں جتنا کہ پشتون جرگے اور بلوچ پنچایت میں۔ سردار کا فیصلہ جہاں حتمی ہوتا ہے ؛چنانچہ اس کے لیے بھرپور تیاری کی جاتی ہے۔ اگر برسوں کی اس ریاضت میں بھی عثمان بزدار کچھ نہ سیکھ سکے تو اب کیا سیکھیں گے؟
خبر یہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرست میں 8، 20، 165 نوسر باز دریافت ہوئے ہیں۔ یہ ثانیہ نشتر کی ریاضت کا ثمر ہے۔ ہر سرکاری افسر جانتا ہے۔ ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ نادرا کے پاس ملک کے ہر شہری کا مکمل تعارف موجود ہے۔ انتخابی فہرستوں کے باب میں 63 برس سے بحث ہوتی آئی تھی۔ مندرجات کبھی اہلکاروں کی کاہلی اور بے عملی کا شکار ہوتے۔ کبھی دانستہ فریب کاری کا۔ جنرل شجاع پاشا ایک دن آبپارہ اسلام آباد میں اپنے دفتر سے اٹھے اور نادرا کے صدر دفتر جا پہنچے۔ اس مثالی قومی ادارے کے چئیرمین سے انہوں نے کہا: درمیانے درجے کے ایک خاندان سے آپ کا تعلق ہے۔ میں بھی اسی پس منظر سے آیا ہوں۔ آپ بھی میری طرح یہ چاہتے ہوں گے کہ ملک میں صاف ستھرے انتخابات ہوں۔ عمر اور علاقے سمیت تمام پاکستانی شہریوں کی فہرست آپ کے پاس موجود ہے۔ آپ الیکشن کمیشن کو فراہم کر دیں تو ٹنٹا ہی ختم ہو جائے۔ دھاندلی کی اور جو بھی شکلیں باقی رہی ہوں، انتخابی فہرستوں کا تنازع تمام ہو گیا۔
ایف بی آر والے بھی چاہیں تو جنرل شجاع پاشا اور ثانیہ نشتر کی پیروی کر سکتے ہیں۔ مگر پنجابی کی وہ مشہور کہاوت "کام جوان کی موت ہے۔ " سپین کی ضرب المثل یہ ہے:"Hard work never killed anybody، but why take a chance?"۔۔ محنت و مشقت سے مرتا کوئی نہیں لیکن پھر بھی خطرہ مول لینے کی کیا ضرورت ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں جن نوسر بازوں کا ثانیہ نشتر نے سراغ لگایا، ان میں سے 153، 000 وہ تھے، جنہوں نے سمندر پار سفر کیا۔ ان سے بھی زیادہ 1، 95، 364 نے شریکِ حیات کے ساتھ۔ ایک سے زیادہ بار بیرونِ ملک جانے والے 10، 476ہیں۔ 692 ایسے ہیں، جن کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں اور یا للعجب 43، 476 ایسے، جو ایک سے زیادہ گاڑیاں رکھتے ہیں۔ بہت سے خاندان ہیں، جن کے موبائل فون کا بل کم و بیش اتنا ہی ہوتا ہے، جتنی خیرات وہ وصول کرتے ہیں۔
خبرنگا رکا کہنا ہے کہ سونے کی چوڑیاں پہنے چمچماتی گاڑیوں میں سے خواتین اترتیں اور بھیک وصول کرکے چلی جاتیں، جو محروموں، مفلسوں اور محتاجوں کا حق تھا۔
یہ کون لوگ ہیں؟ تھوڑے سے ایسے شاطر بھی ہوں گے، مقامی اہلکاروں کو جنہوں نے گانٹھ رکھا ہو۔ بڑی تعداد مگر ان محتاجوں کی ہے جو جمہوریت کی پاسبان، ملک کی دو محترم، مہذب اور مکرم سیاسی پارٹیوں کے ووٹر ہیں۔ اس پروگرام کی پہلی چئیرپرسن فرزانہ راجہ تھیں۔ امریکہ میں۔ امریکہ میں ایک انشورنس کمپنی کی معمولی اہلکار۔ جیسے ہی ان کاتقرر ہوا، شکوک و شبہات کا ایک طوفان اٹھا۔ طرح طرح کی کہانیاں گردش کرنے لگیں۔ بالاخر ان سے نجات پائی گئی۔ بہرحال اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح اس اہم عہدے پر چئیرمین کا تقرر سیاسی رشوت کے طور پر بھی ہوتا رہا۔ کوئی فرزانہ راجہ کی فرزانگی کا قائل تھا تو کوئی ماروی میمن کی خیرہ کن صلاحیت کا۔
پہلی بار عمران خان کے دو رمیں ایسی چئیرپرسن چنی گئی، صاحبِ ہنر ہی نہیں، جو صاحبِ کردار بھی ہیں۔ ایک معزز خاندان سے جن کا تعلق ہے اور ایک معزز خاندان میں بیاہی گئیں۔ قائدِ اعظمؒ کے قابلِ اعتماد رفیق عبد الرب نشتر کے خاندان میں۔ عبد الرب نشتر وہ تھے کہ پنجاب کے گورنر ہوئے تو ان کے بچے سائیکل پہ سکول جایا کرتے۔ گاہے وہ خود بھی مال روڈ پہ چہل قدمی کرتے نظر آتے۔ خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے کہا تھا: نیکوں کی صحبت نیکی سے بھی بہتر ہے اور بروں کی صحبت برائی سے بھی بدتر۔ مشاہدہ درویش کے قول کی تصدیق کرتا ہے۔
عمران خاں کبھی میاں بشیر کے پاس جایا کرتے تھے۔ لاہور کا وہ گمنا م صوفی، جس کی عمر ایک سرکاری دفتر میں ایک کلرک کی حیثیت سے بیت گئی۔ غالباً ہمارے مشترکہ دوست گولڈی نے ان سے تعارف کرایا تھا۔ شوکت خانم ہسپتال زیرِ تعمیر تھا اور سب لوگ خان کو احمق سمجھ رہے تھے تو وہ ان کی پیٹھ ٹھونکنے آیا کرتے۔ ان سے وہ کہا کرتے کہ آپ کا اپنا نہیں، یہ اللہ کا کام ہے۔ مخلوقِ خدا کی بھلائی کا۔ ایسے منصوبے کبھی ناکام نہیں ہوا کرتے۔ اب ان کے مشیر زلفی بخاری ہیں۔
اب وہ زلفی بخاری کو لے کر سعودی سلطان سے ملنے جائیں گے تو نتیجہ ظاہر ہے۔ بیچارے زلفی بخاری کو کیا پتہ کہ امت کا تصورکیا ہے اور اس کے اتحاد سے نیا زمانہ طلوع ہو سکتا ہے۔ نعیم الحق کو کیا خبر کہ بند دروازے لجاجت نہیں، جرات سے کھلا کرتے ہیں۔
ناکامی کے مہ و سال یا 2018ء میں خیرہ کن کامیابی، کراچی میں تحریکِ انصاف کو کبھی ڈھنگ کا کوئی لیڈر نہ ملا۔ خونخوار اور منافق الطاف حسین سے اکتا کر کراچی والوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ تو دے دیے مگر پرسانِ حال کوئی نہیں۔ سلجھانے والا تو کیا، سننے والا بھی کوئی نہیں۔ ملک ریاض ان کے 38 ارب روپے ہضم کر گئے، پوچھنے والا ہی کوئی نہیں۔ مثالی تنظیم کے لیے خان صاحب نے سیف اللہ نیازی کے دستِ راست عامر کیانی کو کراچی بھیجا ہے۔ کیا کہنے، کیا کہنے۔ انگریزی کا وہ مشہور محاورہ: آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بنتا ہی صحبت سے ہے۔ خواجہ غریب نوازؒ کا وہی ارشاد!