نئی دنیا
دنیا بدلتی ہے مگر عادات کے خوگر سیاست کار اورحکمران نہیں بدلتے۔ وہی پرانی چالیں، وہی زنگ خوردہ حربے۔ حضور یہ ایک نئی دنیا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینل نہ سہی تو سوشل میڈیا کے بل پر کوئی بھی خبر پل بھر میں دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل جاتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے جدّامجد جس فضا میں کارفرما تھے، وہ کب کی تحلیل ہو چکی اور اب لوٹ کر نہیں آئے گی۔
شاہ محمود قریشی نے پہلے تو یہ کہا کہ آرٹیکل 370کی منسوخی دہلی کا داخلی معاملہ ہے، ہمارا مسئلہ آرٹیکل 35ہے۔ اب وہ مکر گئے ہیں اور اس رسان کے ساتھ کہ گویا کبھی یہ بات ان کے منہ سے نکلی ہی نہ تھی؛حالانکہ ان کا بیان فلم کے فیتے پر محفوظ ہے۔ ایک معروف چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے عالی جناب نے یہ ارشاد کیا تھا۔۔"اس کا مطلب پاکستان کے لیے کچھ بھی نہیں " انہوں نے کہا تھا۔ دلیل یہ تھی کہ کشمیر پہ بھارتی حکومت کے اقدام کو ہندوستان کی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے؛چنانچہ فکر مندی کی کوئی ضرورت نہیں۔
وزیرِ خارجہ کا موقف تبدیل کیوں ہوا؟ اس لیے کہ ردّعمل شدید تھا۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے شریف خاندان کو بھی یہ خوش نہ آیا۔ سیاست وہ مچھلی ہے، جو عوامی احساسات کے سمندر میں زندہ رہتی ہے۔ اندرونِ خانہ کچھ بھی کرے، کھلے بندوں عوامی امنگوں کا مذاق نہیں اڑا سکتی شاہد خاقان عباسی اور محمد زبیر نے تو واویلا کیا ہی۔ محترمہ مریم نواز نے تو یہاں تک کہہ دیا: کشمیر کے معاملے میں سازش کی بو آرہی ہے۔ وزیرِ اعظم نے اب اعلان کر دیا ہے: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی اہمیت بحال ہونے تک بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ شاہ محمود اب اس موقف کی وکالت کرتے نظر آئیں گے۔ یہی ان کا پیشہ ہے۔ نون لیگ سے وابستہ ہوں، پیپلزپارٹی یا پی ٹی آئی کے پرچم بردار، یہی ان کی بقا کا راز ہے۔
بھارتی آئین کاآرٹیکل 370کیا ہے اور 35اے کیا؟ 370کا تعلق اس کی خصوصی آئینی اور سیاسی حیثیت کے ساتھ ہے۔ اس کا اپنا پرچم، منتخب وزیرِ اعظم اور بہت سے دوسرے حقوق، دوسری ریاستوں کو جو حاصل نہیں۔ 35اے بھارتی شہریوں کو کشمیر میں جائیداد کی خریداری سے روکتا ہے۔ یہ سب ایک معاہدے کا نتیجہ تھا۔ 1948ء کی پاک بھارت جنگ کے ہنگام یہ کشمیری لیڈر شیخ عبد اللہ سے سمجھوتے کا حاصل تھا، اپنے اقتدار کے لیے جو نہرو کے آلہء کار بنے۔
مقبوضہ کشمیر اور شمالی علاقوں کے علاوہ ریاست کا ایک حصہ آزاد کرایا جا چکا تھا کہ بھارتی بھاگتے ہوئے اقوام متحدہ میں پہنچے۔ پنڈت نہرو کے وعدے پر کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری سے ہوگا، جنگ بند ہو گئی۔ پنڈت کو یہ پیمان اس لیے کرنا پڑا کہ کشمیری عوام کی عظیم اکثریت پاکستان سے الحاق کی حامی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن، کمال ڈھٹائی سے بھارت منحرف ہے۔ دانشوروں کی موشگافیاں اپنی جگہ، آج بھی کشمیری مسلمانوں کی رائے پوچھی جائے تو کم از کم 90فیصد ڈٹ کر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
کشمیری عوام کی آرزوئیں بروئے کار نہ آسکیں اور عالمی برادری سے پاکستان اپنی بات نہ منوا سکا۔ اس لیے کہ ازل سے دنیا میں طاقت کا دستور چلا آیا ہے۔ بات اس کی سنی جاتی ہے جو منوا سکتا ہو۔ پچھلی صدی میں 50ء، 60ء اور 70ء کے عشروں میں سوویت یونین ڈٹ کر بھارت کے ساتھ کھڑا تھا۔ عالمی سیاست میں وہ ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ اقوامِ متحدہ میں پیش کی جانے والی کوئی بھی قرار داد ماسکو کے ویٹو کی نذر ہو جاتی۔
اقوامِ متحدہ کی تشکیل ہی ایسی ہے۔ پانچ عالمی طاقتوں کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، کل کا سوویت یونین اور آج کا روس۔ یا للعجب، چین کی جگہ کبھی یہ اختیار تائیوان کو حاصل تھا۔ آج کا بھارت امریکہ کا حلیف ہے۔ واشنگٹن کو کل خطرہ ماسکو سے تھا، آج بیجنگ سے۔
سانحے بہت سے ہوئے۔ ایک یہ کہ پاکستانی معیشت پھسلنے اور بھارتی سنبھلنے لگی۔ ہم داخلی کشمکش میں ایسے الجھے کہ ابھی تک دلدل میں کھڑے ہیں۔ کبھی فوج اقتدار سنبھال لیتی، کبھی کسی سیاسی جماعت کو تخت نصیب ہوتا تو چھچھورے سیاسی حریف ایک دوسرے کے درپے آزار ہو جاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو تھے یا نواز شریف یا اب خانِ اعظم عمران خان۔ کھیل کا اسلوب وہی ہے، انداز وہی۔
عجوبہ یہ ہے کہ معاشی ترقی اگر ہوئی تو فوجی ادوار میں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے زمانوں میں۔ اوسطاً یہ چھ سے سات فیصد رہی، کبھی اس سے بھی بڑھ جاتی۔ ایوب خان کے عہد میں نہ صرف بڑے پیمانے پر صنعت کاری بلکہ ایک سبز انقلاب بھی۔ نئے بیج دریافت ہوئے یا منگوائے گئے۔ زرعی یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی گئی اور تحقیق کا ڈول ڈالا گیا۔ منگلا اور تربیلا ایسے ڈیم بنے۔
ظاہر ہے کہ حکمرانی کا حق فوج کو نہیں۔ آدمی پر لوہے کو فضیلت نہیں۔ سیاستدانوں کو مگر جب بھی موقع ملا، ایک دوسرے کی گردن ماپنے پر تلے رہے۔ تمام تر توانائی ایک دوسرے کے خلاف جھونکتے رہے۔ زوال پذیر سول ادارے کم سے کمتر ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ تماشہ بن گئے۔ دھول اڑتی ہے اڑتی ہی چلی جاتی ہے۔ اتنی کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ منزلِ مراد تو کیا راستہ ہی دکھائی نہیں دیتا۔ تنازعہء کشمیر اور پاک بھارت تعلقات میں اسی لیے بھانت بھانت کی بولیاں ہیں اور طرح طرح کے موقف۔ ایک دن وزیرِ خارجہ آرٹیکل 370کو بھارت کا اپنا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ چند دن بعد نہ صرف تردید کرنی پڑتی ہے بلکہ وزیرِ اعظم صاف صاف کہتے ہیں کہ کشمیر کی پرانی پوزیشن بحال کیے بغیر بات چیت کا تصور ہی کیا۔
ظاہر ہے کہ شاہ محمود قریشی کے منہ میں دوسروں کی زبان تھی۔ صدیوں سے اس خاندان کا یہی دستور چلا آرہا ہے۔ آزاد مرضی کے نہیں، وہ اپنے آقاؤں کے بندے ہیں۔ ان سے کہا گیا تو آرٹیکل 370 کو بے معنی قرار دے دیا۔ ردّعمل پھوٹا تو ایک لمحہ تامل کے بغیر الفاظ واپس لے لیے۔ 1947ء میں آزادی کے ہنگام شاہ محمود قریشی کے ہم نام جد امجد نے اسی خوش دلی سے انگریز کا ساتھ دیا تھا۔ نواحِ ملتان میں ہتھیار اٹھانے والوں کو کچل ڈالا تھا۔ انعام کے طور پر شاہ رکنِ عالم کے مزار کی گدّی پائی، سالانہ جس سے پچیس تیس کروڑ کی آمدن ہوتی ہے، ورنہ اس عظیم درویش اور اس کے خاندان سے کوئی تعلق ان کا نہیں تھا۔
وزیرِ خارجہ کو یہ فریضہ شاید سونپا ہی اس لیے گیا تھا کہ عوامی احساسات کا ادراک کیا جا سکے۔ وزیرِ اعظم اس کارروائی کا حصہ نہیں تھے۔ فلسفہ یہ تراشا گیا اور غالباً امریکیوں کے ایما پر کہ بھارتیوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کی اگر اجازت نہ دی جائے، مسلم اور غیر مسلم آبادی کا موجودہ تناسب اگر برقرار کھا جا سکے تو پاکستان اور کشمیریوں کے لیے امکانات باقی رہیں گے۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ نہایت آسانی کے ساتھ بھلا دیا گیا کہ کشمیر پر دہلی کا براہِ راست اختیار ہوگا تو وادی کے مکینوں کی زندگی اجیرن رہے گی۔ معیشت ان کی تباہ ہوتی چلی جائے گی، جیسے کہ ہو رہی ہے۔ آئندہ نسلوں کی تعلیم خطرے میں رہے گی۔ ممکن ہے کہ بتدریج ہمت ان کی ٹوٹنے لگے۔ سب سے خطرناک یہ کہ پاکستان سے مایوس ہو کر ممکن ہے، وہ داخلی خود مختاری یا آزاد ریاست کے تصور کو قبول کر لیں، امریکہ جس کا آرزومند ہوگا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ پاکستان اور تاجکستان کی طرح واشنگٹن سری نگر کے آس پاس ایک فوجی اڈے کا آرزومند ہے۔
دنیا بدلتی ہے مگر عادات کے خوگر سیاست کار اورحکمران نہیں بدلتے۔ وہی پرانی چالیں، وہی زنگ خوردہ حربے۔ حضور یہ ایک نئی دنیا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینل نہ سہی تو سوشل میڈیا کے بل پر کوئی بھی خبر پل بھر میں دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل جاتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے جدّامجد جس فضا میں کارفرما تھے، وہ کب کی تحلیل ہو چکی اور اب لوٹ کر نہیں آئے گی۔