Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Munkasir Aur Mehboob

Munkasir Aur Mehboob

منکسر اور محبوب

منکسر اور محبوب، اللہ کی رحمت اہل انکسار ہی پر ٹوٹ ٹوٹ کر برستی ہے۔ حقیقی شادمانی انہی کو عطا کی جاتی ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

کیسا خوش بخت آدمی ہے۔ دو برس ہوتے ہیں کہ برادرم منصور آفاق کے توسط سے ملاقات ہوئی۔ ایک منفرد شاعر، مگر ایک مرد نجیب کے تقریباً تمام محاسن۔ موصوف کا نام اسداللہ خان بتایا گیا، بعد میں کسی نے اطلاع دی کہ وہ خود کو اسد الرحمن کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے بقول اس میں قدرے انکسار پایا جانا ہے۔ کیا عجب ہے، تب لاشعور میں ایک خیال چمکا ہو۔ جناب رسالت مآب ﷺ کو دو نام زیادہ پسند تھے۔ عبداللہ اور عبدالرحمن۔ اسد الرحمن اپنا کلام نہیں چھپواتا۔ مشاعروں میں نہیں جاتا۔ داد طلب نہیں کرتا۔ شہر میں اپنا وقت رائیگاں نہیں کرتا۔ کھیتوں میں گھر بنا رکھا ہے۔ آفتاب کے طلوع و غروب اور چاندنی میں جیتا ہے۔ کبوتر پالتا ہے، اپنا وقت چھتنار درختوں کے جھنڈ تلے بتایا کرتا ہے۔ یہ اس کا تازہ کلام ہے۔

چھوڑ جاتے نہ اگرچارہ گراں، کیا کرتے

تھا ہمیں راس یہی کارِ زیاں کیا کرتے

آ گئے اْٹھ کے ترے در سے بھی ناچارفقیر

چار جانب تھا وہی شورِ سگاں کیا کرتے

جس طرح عجزِ سخن پیشِ نظر تھا اپنے

ہم ترے حْسن کو لفظوں میں بیاں کیا کرتے

تھک گئے دشت نوردی سے سبھی آخرِ کار

ڈھونڈ لی ہم نے بھی اک جائے اماں کیا کرتے

ایک حسرت تھی تجھے ساتھ بہاتے لیکن

اے گراں بارئِ غم! اشکِ رواں کیا کرتے

بزم میں کچھ نہیں آتا تھا نظر تیرے بعد

ہم اگر اْٹھ کے نہ آتے تو وہاں کیا کرتے

آخری بات سے ہوتی نہیں تقریر شروع

عشق کے بعد بتا کارِ جہاں کیا کرتے

٭٭٭٭

اب میرے تعاقب میں جو نکلا نہیں گھر سے

سایہ بھی چھپا بیٹھا ہے کیا دھوپ کے ڈر سے

کچھ داغ دْھلے ہیں شبِ ھجراں ترے، لیکن

اس دل کو شکایت ہے ابھی دیدہء ِ تر سے

اک شخص کے ہوتے ہوئے محفل میں ہمیشہ

یہ رنگ بکھرتے ہیں خدا جانے کدھر سے

کم ظرفئِ آئینہ بھی کْھل جائے گی تجھ پر

تْو خود کو اگر دیکھ کبھی میری نظر سے

اک جیت کی خاطر کہیں دشمن نہ گنوا لوں

اس بار مَیں ہارا ہوں اسی بات کے ڈر سے

صد شْکر محبت کی شروعات کے دن ہیں

الحمد کہ پانی ابھی گذرا نہیں سَر سے

وہ اور مسافت ہے جو تم ناپ رہے ہو

مَیں لوٹ کے آیا ہوں کسی اور سفر سے

کچھ وِرد وظیفے ہیں جو خود مَیں نے گھڑےہیں

یہ مجھ کو بچائیں گے اسد میرے ہی شَر سے

٭٭٭٭

مانا وہ دسترس تو لبِ یار تک نہیں

پر ایسا کیا کہ لذتِ گفتار تک نہیں

وہ حْسن جس کی آگ میں ہم لوگ جل گئے

اب اْس کی آنچ خود ترے رْخسار تک نہیں

حائل ہے راستے میں کوئی میرے، ورنہ مَیں

جس گھر میں قید ہوں وہاں دیوار تک نہیں

سَر دے کے اِس طرف سے فراغت نصیب ہے

اب کوئی ہاتھ تو مری دستار تک نہیں

غارت نہ جائے شام یوں میخانہ ڈھونڈتے

وہ شخص رہنما ہے جو میخوار تک نہیں

دیکھا تجھے تو بڑھ گئی ہے اور کچھ طلب

دل کی مراد اب ترے دیدار تک نہیں

دیکھیں تو پھر اْسی میں جئیں عمر بھر اسد

وہ خواب کیا جو ساعتِ بیدار تک نہیں

٭٭٭٭

ساتھ بِکتے ہوئے انبار نے چْھو کر دیکھا

جب مجھے دستِ خریدار نے چْھو کر دیکھا

شرم آئی مجھے خوشبو کو مجسم کر کے

جب اْسے ایک سیہ کار نے چْھو کر دیکھا

یہ نہیں ہے کہ فقط آنکھ رْکی ہے تجھ پر

بخت بیدار تجھے یار نے چْھو کر دیکھا

پیاس دونوں میں سے بجھتی ہے نجانے کس کی

خْشک حلقوم کو تلوار نے چْھو کر دیکھا

کچھ نہ تھا دل میں بجْز حسرتِ وصلش باقی

جب اسے ہجر کے آزار نے چْھو کر دیکھا

پیار آتا ہے مدینے کی ہر اک شَے پہ مجھے

کیا خبر کس کو ہو سرکار نے چْھو کر دیکھا

لفظ الہام کے پیکر میں ڈھلے ہیں، جب سے

حْسنِ کردار کو گْفتار نے چْھو کر دیکھا

٭٭٭٭

یہ اور بات ہے مرے لب پر فغاں نہ تھی

ورنہ کسی سے بھی مری حالت نہاں نہ تھی

جب جھاڑیوں میں آگ لگی تب کْھلا کہ وہ

رْوپوش جس جگہ پہ تھے، جائے اماں نہ تھی

تجھ کو عذابِ ضبط کی یوں بھی خبر کہاں

دانتوں تلے جو کٹ گئی تیری زباں نہ تھی

اس زندگی سے مجھ کو رہیں دو شکایتیں

اک تو یہ کچھ طویل تھی پھر مہرباں نہ تھی

اب کے یہ کوہسار بھی ہلکا لگا مجھے

اب کے تمہاری بات بھی اتنی گراں نہ تھی

شدت جنون کی رہی مخفی کہ چارہ گر

آئےتھے مجھ کو دیکھنے جب رْت جواں نہ تھی

مخصوص کب ہے کْنجِ قفس تک یہ مْردنی

جو دل کو ہو رہی ہے یہ وحشت کہاں نہ تھی

٭٭٭٭

اِتنا اْکتا گئے شکار سے ہم

اب نکلتے نہیں کَچھار سے ہم

جب سْنی شرط باریابی کی

آ گئے اْٹھ کے اْس قطار سے ہم

جس طرف جا رہے ہیں لوگ سبھی

آ رہے ہیں اْسی دیار سے ہم

موسموں پر نہ تھا جْنوں موقوف

یونہی شاکی رہے بہار سے ہم

پھر بھی قحط الرجال ہے ہر سْو

گرچہ باہر ہیں اب شمار سے ہم

تبصرہ اک ولی کے شہر پہ تھا

ڈر گئے صاحبِ مزار سے ہم

منکسر اور محبوب، اللہ کی رحمت اہل انکسار ہی پر ٹوٹ ٹوٹ کر برستی ہے۔ حقیقی شادمانی انہی کو عطا کی جاتی ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Pakistan Aur Bharat Ke Election Par Aik Nazar

By Gohar Rehman