مکھی دو طرح کی ہوتی ہے
مکھی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو ہمیشہ گندگی پہ گرتی ہے۔ ایک وہ جو پھولوں کا رس چوس کر وہ عجوبہ تخلیق کرتی ہے، جس سے بہتر غذا کا آدمی کبھی سراغ نہ لگا سکا۔
منیر احمد منیر ایک ریاضت کیش آدمی ہیں۔ بعض ایسے معرکے انہوں نے سر کیے کہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کے مطالعے کا آغاز آپ خود کرتے ہیں۔ پھر ان کے سحر کاشکار۔ اب کتاب کے آخری صفحہ تک آ پ کو پڑھنا ہے۔
ایک دوست نے ان کی ایک کتاب کے اقتباسات لکھ بھیجے ہیں۔ یہ جنرل محمد ضیاء الحق اور پھر عمران خان کے بازوئے شمشیر زن مجیب الرحمن کے بھائی حاجی حبیب الرحمٰن کا انٹر ویو ہے۔ پنجاب کے سابق آئی جی، ڈائریکٹر انٹیلی جنس۔ کبھی کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی، جس میں اس دھڑلے سے سچ بولا گیا ہو اور کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی، جس میں ایسی جسارت اور جرات سے جھوٹ گھڑا گیا ہو۔
ملاحظہ کیجیے "(1977ء میں) ایجی ٹیشن کے دوران مولانا مودودی کے نام تیس لاکھ روپے کا غیر ملکی چیک میں نے پکڑا"
"مولانا غلام غوث ہزاروی ہم سے پانچ سو روپیہ مہینہ لیتے تھے"
"جب بھٹو پہ مقدمہ چل رہا تھا تو پیپلزپارٹی کے تین جیالے امان اللہ خان، غیاث الدین جانباز اور امیر حبیب اللہ سعدی ہمارے لیے مخبری کرتے۔ ہم نے انہیں سمن آباد میں کوٹھی لے دی تھی اور سہولتیں بھی فراہم کر دی تھیں " امان اللہ خان اور امیر حبیب اللہ سعدی کو یہ ناچیز نہیں جانتا مگر غیاث الدین جانباز اور مخبری؟ وہ تو سر ہتھیلی پہ لیے پھرتے تھے۔
"عبد اللہ ملک اور پروفیسر ایرک سپرین اوپر کے لیول کے تھے۔ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو کو ملنے والے۔ ایرک سپرین کمیونزم کے متعلق میرا سورس تھے۔ دو دفعہ میں نے انہیں ماسکو کا ٹکٹ لے کر دیا"
مولانا غلام غوث ہزاروی اس خاکسار کی پسندیدہ شخصیات میں شامل نہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے، اپنے مذہبی مکتبِ فکر سے انحراف کرنے والوں کو جوکبھی معاف نہ کرتے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی خاص طور پر ان کا ہدف تھے۔ جماعتِ اسلامی کی پالیسیوں سے زیادہ اس کی اہم شخصیات کو نشانہ کیا جاتا۔
امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ سے لے کر امام غزالی تک اور امام غزالی سے لے کر علامہ اقبال تک اسی لیے اہلِ عظمت و علم اس طبقے سے متنفر رہے۔ اقبال تو اس قدر کہ تعجب ہوتا ہے۔ ملّا کے باب میں آپ کے 250میں سے 249شعر تنقیدی ہیں۔ کئی ضرب المثل ہو گئے۔ دو سو پچاسواں شعر یہ ہے
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
افغانیوں پہ ایسے بھی مگر وہ شاد نہ تھے۔ ان کا ایک مشہور مصرعہ یہ ہے: کہستاں کی ہزار پارہ مسلمانی۔
با ایں ہمہ یہ الزام مضحکہ خیز ہے کہ پانچ سو روپے ماہوار کے لیے مولانا ہزاروی مخبر ہو گئے۔ ہزاروں نہیں، ان کے مکتبِ فکر میں لاکھوں ان کے مداح تھے۔ پانچ سو روپلی کے لیے اس سطح پہ وہ کیسے گر سکتے تھے۔
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
رہے سید ابو الاعلیٰ مودودی توشورش کاشمیری کی زبان میں: ماں کے دودھ کی طرح اجلے۔ سید صاحب کے بدترین دشمن بھی مالی معاملات میں ان کے کردار کی پاکیزگی کے قائل تھے۔ تیس لاکھ کا غیر ملکی چیک اگر پکڑا ہوتا تو ذو الفقار علی بھٹو ایسا آدمی کیا انہیں معاف کر دیتا؟ کراچی سے پشاور تک ایک ایک دیوار پہ اشتہار آویزاں نہ کرتا؟ ٹی وی سکرین پہ پیہم اور مسلسل چیخ و پکار نہ ہوتی؟
لاحول ولا قوۃ الا بااللہ
سیاسی نظریات الگ، رزقِ طیب ہی کے وہ خوگر نہ تھے بلکہ ایسے ایثار کیش کہ باید و شاید۔ ان کی آمدن کا کم از کم ساٹھ ستر فیصد پارٹی یا حاجت مندوں پہ خرچ ہوتا۔
برسوں پہلے اس گلی سے گزر ہوا، نابغہ جہاں مٹی اوڑھے سو رہا ہے۔ معلم، مفکر، منتظم اور ایک منفرد خطیب اور نثر نگار۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق نے کہا تھا "اردو زبان کو انہوں نے شائستگی بخش دی" ان کی شخصیت اور فکر سے زمانہ ہوا، طبیعت بیگانہ تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ جو بڑھتی گئی۔ کامل وضع داری کے ساتھ۔ مرحوم سے ہمارے خاندان کے مراسم نصف صدی پر محیط رہے تھے۔ نجیب آدمی کی مظلومیت رہ رہ کر یاد آیا کرتی کہ دائیں اور بائیں بازو کے تمام انتہا پسند کردار کشی پہ تلے رہتے۔ مزار پہ فاتحہ پڑھنے کو جی بے تاب ہوا۔ اتنے میں بٹ صاحب نمودار ہوئے۔ افسوس کہ پورا نام ان کا حافظے میں نہیں۔ ایک بے ساختہ، خوش خصال اور خوش مزاج آدمی۔ وہ بھی فاتحہ پڑھنے ہی آئے تھے۔ یکا یک بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ کچی قبر کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس آدمی کو کوئی نہیں جانتا۔ میں ہر ماہ خاموشی سے ہزاروں روپے ضرورت مندوں کے گھروں پہ پہنچایا کرتا۔ حکم یہ تھا کہ فرزندوں کو بھی خبر نہ ہو۔ کئی ممالک میں سید صاحب کی کتابیں درسی کتب کے طور پر پڑھائی جاتیں۔ قرآنِ کریم کی تفسیر تفہیم القرآن لاکھوں کی تعداد میں چھپی۔ برصغیر کی تاریخ میں شاید سب سے زیادہ۔
آسودہ حال بھی بگڑ جاتے ہیں مگر وہ ہمیشہ اپنے براق ملبوس کی طرح اجلے رہے۔ 1977ء کا ایجی ٹیشن عروج پر تھا، جب ذوالفقار علی بھٹو ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چند دن پہلے تک ابو الاعلیٰ مصالحت کے حق میں تھے مگر اب صاف صاف کہہ دیا: آپ کو مستعفی ہوجانا چاہئے۔ بھٹو باہر نکلے تو یہ کہا: خود کو وہ پوپ سمجھتا ہے۔
خود داری کا پیکر تھے۔ ایوب خان کی جیل میں ٹانگوں پہ پھوڑے نکل آئے مگر دوا کے لیے التجا نہ کی۔ تحریکِ ختمِ نبوت میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو رحم کی اپیل سے انکار کر دیا۔ کہا تو یہ کہا: زندگی اور موت کے فیصلے زمین نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ان سے بگڑے اور ان کی پارٹی سے الگ ہو گئے۔ دو باتوں کا مگر وہ بھی اعتراف کرتے۔ ان کی اٹوٹ دیانت اور بے خوفی۔ ان میں سے ایک میاں عامر محمود کے بزرگ میاں محمد حفیظ نے مجھ سے کہا: خوف اس آدمی کی کھال میں داخل نہ ہوسکتا تھا۔ حفیظ صاحب کی گواہی معمولی نہ تھی۔ شہر کا شہر ان کی صداقت شعاری کا معترف تھا۔ ایسے آدمی کے بارے میں ایسی لچر بات؟
دور سے دیکھا کیے۔ انگریزی کے اساطیری استاد ایرک سپرین کی قربت نصیب نہ ہوئی۔ ان کی درویشی کا چرچا ہر سو تھا۔ عبد اللہ ملک مرحوم سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ سے ضرور وہ مل سکتے تھے مگر تبادلہء خیال کے لیے۔ کتنے صحافیوں نے انہیں بھٹو سے بات کرتے دیکھا ہے۔ ہمیشہ رسان اور وقار کے ساتھ۔
منیر احمد منیر پہ کوئی اعتراض نہیں۔ جو کچھ ان سے کہا گیا، من و عن لکھ دیا۔ یہی اخبار نویس کا وظیفہ ہے۔
مکھی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو ہمیشہ گندگی پہ گرتی ہے۔ ایک وہ جو پھولوں کا رس چوس کر وہ عجوبہ تخلیق کرتی ہے، جس سے بہتر غذا کا آدمی کبھی سراغ نہ لگا سکا۔