Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Khud Kardah Ra Ilaje Neest

Khud Kardah Ra Ilaje Neest

خود کردہ را علاجے نیست

قرآئن یہ ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کی قسمت پہ مہر لگ چکی۔ رفتہ رفتہ بتدریج برف میں رکھی دھوپ کی طرح وہ پگھلتے جائیں گے۔ بالاخر ان کا انجام کراچی کے فتنہ گر سے مختلف نہیں ہوگا۔ ملک سے بے وفائی کے وہ مرتکب ہوئے۔ اپنے پاؤں پہ خود انہوں نے کلہاڑی مار لی۔

خود کردہ را علاجے نیست

راوی کا بیان یہ ہے: آزاد کشمیر کی المناک شکست کے بعد نون لیگ کے ایک ممتاز لیڈر میاں محمد شہباز شریف سے ملنے گئے۔ تبادلہ ٔ خیال کے ہنگام انہوں نے کہا: میں اب بے بس ہوں۔ مریم کے سامنے بے بس!طے پایا تھا کہ محترمہ الگ اجتماعات سے خطاب کریں گے اور شہباز شریف الگ جلسوں سے۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ فیصلے پر عمل درآمدکیوں نہ ہوا؟

پارٹی کے باقاعدہ صدر کی حیثیت سے شہباز شریف اگر بروئے کار آتے تو کیا وہ محترمہ کی روش اختیار کرتے؟ عمران خان کی مذمت اور ظفرمندی کے دعوے تو بجا، ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کا شعار یہی ہے۔ مگر کیا وہ مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کے بہیمانہ اقدامات کی مذمت سے گریز کرتے؟

ایک عشرے سے زیادہ ہونے کو آیا۔ وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر میاں صاحب براجمان تھے کہ ان سے ملاقات ہوئی۔ یکایک انہوں نے سوال کیا کہ کیا آصف علی زرداری کے طرزِ عمل اور امریکی پالیسیوں پر تنقید کے بغیر ہمارے لیے مقبولیت برقرار رکھنا ممکن ہے؟ عرض کیا: آپ کے سوال ہی میں جواب موجود ہے۔ ایک سوال پوچھنے کی جسارت بھی کی۔ فوج پہ غیر ضروری تنقید اور بے کارخوشامدی وزرا کے انتخاب سے نون لیگ نے کیا حاصل کیا؟ شتابی سے انہوں نے اتفاق کیا۔ رخصت کرتے ہوئے بولے: آپ سے ملاقات ہوتی رہنی چاہئیے۔ اس کی نوبت مگر کم ہی آئی۔ میرے محترم عمران خان ایک دوست کی خیر خواہانہ تنقید گوارا نہ کر سکے، وہ کیونکر کرتے۔ ہماری قیادت کے المیوں میں سے ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ کاسہ لیسوں میں گھرے بتدریج وہ تنہا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ارضی حقائق کی دنیا سے بہت دور۔ تنقید کی تاب ان میں باقی نہیں رہتی۔

نون لیگ کے نقطہء نظر سے حادثہ یہ نہیں کہ آزاد کشمیر کا الیکشن ہار گئی۔ شاعر نے کہا تھا:

فتح و شکست نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

المیہ یہ ہے کہ نون لیگ رزم آرائی کی نوعیت کو سمجھ ہی نہ سکی۔ اپنی ترجیحات ہی مرتب نہ کر سکی۔ نواز شریف پٹڑی سے اتر گئے اور اس بری طرح اترے کہ بحالی کا امکان برائے نام رہ گیا۔ نون لیگ اب بھی ایک بہت بڑی جماعت ہے۔ پنجاب میں 2018ء کے الیکشن میں لیگی صوبائی ارکان کی تعداد تحریک انصاف سے زیادہ تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے آزاد ارکان اگر پی ٹی آئی کی طرف نہ لپکتے، جہانگیر ترین کا جہاز ان کے لیے مصروفِ پروا ز نہ رہتا تو سب سے بڑے صوبے میں انہی کی حکومت ہوتی۔

نواز شریف سیاست کے میدان میں نہیں ہارے۔ دل و دماغ کی جنگ میں انہوں نے شکست کھا لی ہے۔ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ خود کو انہوں نے محصور اور مجبور کر لیا، سپر ڈال دی۔

قریب آؤ دریچوں سے جھانکتی کرنو

کہ ہم تو پابہ رسن ہیں ابھر نہیں سکتے

خرابی تجزیے میں ہوتی ہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ سے لے کر جنرل باجوہ تک ہر فوجی سربراہ سے ان کی آویزش رہی۔ ہر معاملے میں ضروری نہیں کہ وہی غلطی پر ہوں۔ مسئلہ مگر اندازِ فکر کا ہے۔ وحشیانہ لوٹ مار اور من مانی کے باوصف وہ بادشاہ بننے کی آرزو پالتے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کی گود میں پروان چڑھنے والا سیاستدان یہ چاہتاہے کہ اسے پاک باز سمجھا جائے۔ اس پاک بازی کی داد دی جائے اور پاک فوج پنجاب پولیس کی طرح ان کی اطاعت گزارہو۔ قومی دفاع کے باب میں یہ کس طرح ممکن ہے؟

قومی اسمبلی میں ایک عدد ترمیم کبھی انہوں نے پیش کی تھی کہ وزیرِ اعظم کو آئین کا کوئی سا حصہ معطل کرنے کا اختیار دیا جائے۔ خورشید قصوری اور پارٹی کے دوسرے صحت مند عناصر اگراٹھ کھڑے نہ ہوتے تو یہ ترمیم منظور کر لی جاتی۔ تصور کیجیے کہ وزیرِ اعظم کو اگر یہ اختیار دے دیا جاتا اور بروئے کار آتا تو کہاں کہاں زخم لگتے۔ کیسے کیسے تماشے برپا ہوا کرتے۔ عدلیہ پہ کیا گزرتی؟ افسر شاہی کا کیا ہوتا؟ صوبائی اختیارات پر کہاں کہاں زدپڑتی؟ میڈیا کا ماحول کیا ہوتا۔

عقلِ عیار دوسروں کو دھوکہ دیتی ہے لیکن اس سے زیادہ اپنے آپ کو۔ ابرہام لنکن امریکی تاریخ میں اخلاقی عظمت اور سیاسی تدبر کا لہکتا ہوا استعارہ ہے۔ اسی کی وجہ سے امریکہ متحد رہا ورنہ شمال اور جنوب میں بٹ جاتا۔ اسی کی وجہ سے کالوں کو آزادی ملی، بتدریج جو بڑھتی گئی وگرنہ عالمی طاقت تو وہ کیا بنتے، شمال اور جنوب کی باہمی آویزش میں الجھ کر خود کو وہ برباد کر لیتے۔ ابرہام لنکن نے کہا تھا: تمام لوگوں کو کچھ دن کے لیے تم فریب دے سکتے ہو۔ چند لوگوں کو ہمیشہ کے لیے احمق بنا سکتے ہو۔ یہ مگر ممکن نہیں کہ تمام لوگوں کو سارا وقت دھوکے میں رکھ سکو۔

نواز شریف نے بے شمار غلطیاں کیں۔ دھڑلے سے لوٹ مار کی۔ اس کے باوجود وہ بچتے رہے۔ اس لیے کہ دوسری طرف ناقابلِ قبول بھٹو خاندان تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پنجاب نے فخرِ ایشیا اور قائدِ عوام بنایا تھا۔ کارخانوں کو قومیا کر قومی معیشت اس نے تباہ کر دی۔ مخالفین کو کچل ڈالا اور عوامی امنگوں سے انحراف کیا۔ ایک عظیم الشان عوامی تحریک اسی کے ردِ عمل میں ابھری تھی۔ انتہائی دائیں بازو سے لے کر انتہائی بائیں بازو تک کی پارٹیاں میں جس میں شامل تھیں۔ حریفوں کو اس درجہ انہوں نے خوفزدہ کر دیا کہ بقا کی جبلت بروئے کار آئی اور وہ متحد ہو گئے۔ بالاخر اٹھا کر پھینک دیے گئے۔ نواز شریف آمر اور محسن کش ثابت ہوئے۔ جونیجو سے غداری کی، قاضی حسین احمد کو کوڑے دان میں پھینکنے کی کوشش کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا نام تک لینا چھوڑ دیا۔ اس کے باوجود وہ گواراہوئے۔۔۔ مگر عالمی اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز؟

آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں کی جانے والی حماقتوں سے بڑی غلطی، ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے قاتل حمد اللہ محب سے آنجناب کی ملاقات ہے۔ قرائن یہ ہیں کہ اشرف غنی کے سب سے بڑے حلیف بھارت کی تحریک پر امریکیوں نے عربوں کو حکم دیا تو یہ کارنامہ انجام پایا۔ حمد اللہ محب پاکستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے۔ ہمہ وقت اجیت دوول سے ہم آہنگ۔ مسلسل اس کے ساتھ رابطے میں۔ اگلے ہی دن گوجرانوالہ میں نون لیگ کے امیدوار اسمٰعیل گجر نے بھارت کو پکارا۔ اس کی تحسین کی کہ مقبوضہ کشمیر میں کبھی وہ ظلم کا مرتکب نہیں ہوا۔ کبھی نہیں ہوا؟

قرآئن یہ ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کی قسمت پہ مہر لگ چکی۔ رفتہ رفتہ بتدریج برف میں رکھی دھوپ کی طرح وہ پگھلتے جائیں گے۔ بالآخر ان کا انجام کراچی کے فتنہ گر سے مختلف نہیں ہوگا۔ ملک سے بے وفائی کے وہ مرتکب ہوئے۔ اپنے پاؤں پہ خود انہوں نے کلہاڑی مار لی۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Az Toronto Maktoob (4)

By Zafar Iqbal Wattoo