انشاء اللہ
دل بہرحال اس یقین سے شاد ہے کہ ایک نئے عہد کی بنیادیں رکھی جا چکیں۔ اقتدار اور دولت کے بھوکے شعبدہ باز لیڈر، دریوزہ گر دانشور، برچھیاں لہراتے یہ پاکستانی طالبان اور تاویلیں کرتے علماء ِ کرام، سب خاک بسر ہو جائیں گے۔ وطن کے در و بام پہ نور اترے گااور اترتا ہی رہے گا، انشاء اللہ العزیز۔
حیات آدمی پہ مہربان ہوتی اور اپنا باطن اس پہ کھولتی ہے تو ایک حیرت کدے میں داخل ہوتاہے۔ یہ لیڈر، یہ مولوی صاحبان اور یہ دانشور، ایک ہی بار ملنے والی زندگی کی متاع گراں کیا ان کے سپرد کی جا سکتی ہے؟
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
ان کے کیسہ ہائے عظمت و علم میں تاویلوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بے چارگی، بے بسی اور بندوں سے امید۔ صبح و شام وہ آموختہ دہراتے ہیں کہ عزت، رزق اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ امتحان آپڑتاہے تو گنگ اور ششدر رہ جاتے ہیں ... دریوزہ گر!
2014ء میں طیب ایردوان نے میاں محمد نواز شریف کو بتایا تھاکہ فوج آخری چارہء کار ہوا کرتی ہے، سول کے سکیورٹی اداروں کو مستحکم کیجئے۔ اپنے وطن کی سرزمین پر فرقہ وارانہ جنگ لڑنے والے دوست ممالک کو بتائیے کہ وہ باز آئیں۔ نسخہ سادہ، سہل اور نتیجہ خیز ہے۔ میاں صاحب مگر ان سے بات کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں۔ دانش اگر بازار میں بکتی تو ہم کپتان کے لیے کسی بھاؤ بھی خرید لیتے۔ جرأت اگر مارکیٹ میں میسر ہوتی تو میاں صاحب کے لیے میسر کرتے۔
لیڈر نہیں، یہ فقط قیادت کے تمنّائی ہیں۔ چار عشرے تک بیسویں صدی کا مجدّد اقبالؔ اپنی قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ غلامی سے پیدا ہونے والی بے چارگی سے نجات پا کر افراد کی علمی اور فکری تربیت ہی سے سرخروئی ممکن ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارہ
اللہ کے آخری رسول ﷺکا فرمان یہ ہے "کْلّکْم رَاعٍ وَ کْلّکْم مَسؤُل" تم میں سے ہر شخص صاحبِ اختیار ہے اور ہر ایک جواب دہ۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے: کرمنا بنی آدم۔ اولادِ آدم کو ہم نے عزت بخشی۔ عمر بھر اقبالؔ نے ہمیں تعلیم دی کہ ملّا کج بحث، جاہل اور فرقہ پرست ہے۔ عصرِ اقبالؔ کے پون صدی بعد اب ہمارے سامنے طالبان ہیں۔ انہی علما کی معنوی اولاد، جو آخری برسوں میں حکیم الامّت کے دل کا زخم تھے۔ ان کے مقابل ہمارے سیاسی لیڈر کھڑے ہیں، بے خبر، کسی معجزے کے منتظر۔
حاضرین جب چلے جاتے تو گاہے میں اس خوش کلام نواب زادہ نصر اللہ خان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ ان کے دل میں اپنے فکری اجداد کی شکست کا زخم کبھی مندمل نہ ہو سکا۔ قائد اعظمؒ کے ماننے والوں کو وہ "آلِ جناح" کہا کرتے۔ میں حیران ہوا کرتا کہ وہ کس کو "شیخ العرب و العجم" کہتے ہیں۔ جس کا ایک جملہ بھی کسی کو یاد نہیں۔ ادھر اقبال ؒؔہیں کہ ہزاروں کوان کے کلام کا بڑا حصہ ازبر۔ اللہ جب کسی پہ مہربان ہو تو صداقت اور شعور ہی نہیں، اسے فصاحت بھی عطا کرتاہے۔ ایسی موزونیء طبع کہ لفظ خوشبو ہو جاتے اور آبشار کا سا جمال و جلال۔
سرکارﷺنے ارشاد کیا تھا: شوق میری سواری ہے۔ غور و فکر سے محکم نتیجہ، قوانینِ قدرت کا ادراک اور پھر کامل یکسوئی سے پہل قدمی۔
شوق ہو راہنما تو کوئی مشکل ہی نہیں
شوق مشکل سے مگر راہنما ہوتا ہے
مادر پدر آزادی؟ اظہار کے منفی پہلو بھی بہت ہوتے ہیں۔ بھانت بھانت کی بولیوں سے کنفیوژن کا کینسر پھیلتا ہے۔ مثبت پہلو یہ کہ گاہے عامی بھی خود کو دریافت کرنے لگتے ہیں۔ بیتے ہوئے ایک عشرے میں لاکھوں نوجوانوں کا شعور جاگا۔ شریف او رزداری خاندان کی پاک بازی اور کپتان کی ذہانت سے وہ خوب واقف ہیں۔ ان کی توانائی متشکّل کرنے کی ابھی کوئی تدبیر نہیں۔ ایک طوفان ہے، جو ملک کے در و بام پہ ہزاروں مہتاب طلوع کر سکتاہے۔ شعبدہ بازوں اور بہروپیوں سے نجات دلا سکتاہے۔ کہنہ کھنڈرات پہ عصرِ نو کی رفعت تعمیر کرنے کا اہل ہے۔ علم سے، ادراک سے۔ صحبتِ سعید سے آغاز ہوتاہے، پھر کتاب، پھر مباحثہ، پھر غو ر وفکر۔ وہ اقوام جو تاریخ کے ایوان میں معتبر ہیں، اخلاقی اور علمی تحریکوں سے صیقل ہوئیں۔ جمناکنارے جب شاہ جہاں تاج محل بنا رہا تھا، آکسفرڈ یونیورسٹی میں مستقبل کی منصوبہ بندی تھی۔ برسوں سرکار ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سب سے زیادہ وقت اصحابِ صفہؓ کو دیا کرتے، مسجدِ نبویﷺ کے باہر جو ایک چبوترے پر منتظر رہتے، مباحثہ کیا کرتے۔ طالبِ علم، جن میں سے دنیا کے عظیم ترین مدبّر، منتظم اور جنرل ابھرے، حتیٰ کہ ان کے شاگردوں میں سے۔
شاگرد! احنف بن قیس کے بیٹے کو ان کے بھتیجے نے قتل کر ڈالا۔ مرحوم بھائی کی بیوہ کو سو اونٹ انہوں نے خاموشی سے بھجوادئیے کہ دیت ادا کرے۔ شریکِ محفل رہے اور کسی کو اندازہ تک نہ ہو سکا۔ رحمتہ اللعالمینﷺ، اس استادِ کلﷺ نے اپنے شاگردوں کو قرآن پڑھایا تھا "غصہ پی جانے والے۔ تنگ دستی میں بھی ایثار کرنے والے" اور یہ کہ "اللہ مہربانی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے" فرمایا تھا: نرمی ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے... اب ہمارا واسطہ خوں آشام طالبان سے ہے اور ان کے لیے تاویلیں تراشنے والوں سے۔ میں بھی خطاکار ہوں کہ سخت گیر رہا۔ عمران خان پہ البتہ حیرت ہوئی، جب یہ عرض کیا: حریف لیڈروں کا نام لے کر ان پر تنقید نہ کیا کرو۔ بولے: اچھا، لیکن میری نیند خراب ہوگی۔ زندگی کیا اپنی انا کو آسودہ کرنے سے سیراب ہوتی ہے اور اس پر گمان یہ کہ میں اللہ کا منتخب بندہ ہوں۔ خدا کی قسم، خوشامد اسے کھا گئی اور یہ کمزوری اس نے خود پالی ہے۔
امید! امید کھو دی جائے تو ہر چیز کھو جاتی ہے۔ لڑکے کو عارف کے سامنے لایا گیا تو باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ پاک فوج کا لیفٹیننٹ جنرل۔ کہا: اوّل تو عیوب میں مبتلا، اس پر ستم یہ کہ سنتا ہی نہیں۔ برسوں بعد انہوں نے مجھے بتایا: میں اسے صحن پہ لے گیا، جہاں بادلوں کی چادر تنی تھی اور یہ کہا: تاریک بادلوں ایسے یہ ایّام تمہاری زندگی میں رہیں گے نہیں، ان بادلوں کی طرح، جنہیں ہوا اڑا لے جائے گی، یا وہ زمین پر برس کے نثار ہو جائیں گے۔ اگر تم فقط ایک بات مان لو۔ اللہ سے دعا کیا کرو اور اچھے دنوں کی امید اور آرزو رکھو۔ اب کبھی کبھی میں اس لڑکے سے ملنے جاتا ہوں۔ اب وہ ایک بارعب اور معزز افسر ہے۔ نگاہ نہیں ٹھہرتی، حیرت فراواں ہوتی رہتی ہے۔ قہرمان اس سے ڈرتے ہیں اور عامی اسے دعا دیتے ہیں۔ عجز کا دامن سنبھالے رکھتا ہے۔ خاکساری کو متاع جانتاہے اور کبھی آہستگی سے کہتاہے: آدمی کا دل ہی اسے فریب دیتا ہے... اور ہمارا کپتان یہ کہتا ہے: دوسروں کا تمسخر نہ اڑاؤں تو مجھے نیند نہیں آتی۔ سنا ہے، جہلم کے ایک پیر سے ان امور سے وہ مشورہ کرتا رہا جس کی ابجد سے بھی وہ واقف نہ تھا۔ علم سے گریز ہو اور اپنا سامنا کرنے کی ہمت نہ رہے تو خوشامدیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور شعبدہ باز فقیروں کی۔
دل بہرحال اس یقین سے شاد ہے کہ ایک نئے عہد کی بنیادیں رکھی جا چکیں۔ اقتدار اور دولت کے بھوکے شعبدہ باز لیڈر، دریوزہ گر دانشور، برچھیاں لہراتے یہ پاکستانی طالبان اور تاویلیں کرتے علمائِ کرام، سب خاک بسر ہو جائینگے۔ وطن کے در و بام پہ نور اتریگااور اترتا ہی رہے گا، انشاء اللہ العزیز۔