Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Haroon Ur Rasheed
  3. Hairat Hai

Hairat Hai

حیرت ہے !

کچھ بھی، واقفانِ حال ہی جانتے ہوں گے کہ کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا لیکن یہ ایک چونکا دینے والی خبر ہے۔ ایسی حیرت اپنے ساتھ لائی ہے کہ کسی طرح تمام نہیں ہوتی۔

پی آئی اے کے نئے سربراہ ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں، جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، ائیر مارشل ارشد ملک ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جن کے بل پہ امید کی کرن جاگتی ہے۔ امید کہ یہ تاریکی چھٹ بھی سکتی ہے۔ اس مجہول اور پسماندہ معاشرے کے درو بام پہ اجالا اتر بھی سکتا ہے۔

آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار

جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

جدید چین کے علاوہ، بحیثیت مجموعی تمام تاریخ میں حکومتوں کے سائے میں کاروبار کا تجربہ ہمیشہ ناکام رہا۔ ڈنگ سیائو پنگ کی قیادت میں عوامی جمہوریہ چین نے اس تجربے کا آغاز کیا تو شکوک و شبہات تھے، مگر یہ کامیاب رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بدترین معیشت بہترین میں ڈھل گئی۔ بنیادی وجہ غالباً یہ ہے کہ کمیونسٹ اقتصادیات کے برعکس، اس کی بنا میں جزا و سزا کا ایک مربوط اور موثر نظام کارفرما ہے۔ ثمر خیز افراد اور ادارے انعام پاتے ہیں۔ کام چور، نکمے اور ناکام عتاب کے حقدار۔ کمیونسٹ پارٹی، جو اب کمیونسٹ نہیں رہی، اس طرح استوار ہے کہ تمام تقرر میرٹ پہ کرتی ہے۔ اس کے اپنے عہدے بھی کارکردگی اور صلاحیت پہ عطا ہوتے ہیں۔ ناکارہ لوگ چھانٹ دیے جاتے ہیں۔ رہے فریب کار تو ان کی سزا موت ہے۔ رحم اس سرزمین میں کہیں نہیں۔

ملوکیت اور غلامی کے مہ و سال بتانے والے جاگیردار معاشروں میں ترس کا جذبہ بہت گہرا ہوتاہے۔ خود پہ نہیں، اپنے آصف علی زرداریوں اور نواز شریفوں پہ انہیں رحم آتا ہے۔ شہزادوں کو اور شہزادیوں کو تتّی ہوا بھی لگے تو دل سینوں میں بجھ جاتے ہیں۔ لاکھوں عام آدمی بے قصور بھی جیلوں میں پڑے سڑتے رہیں تو کوئی خاص پرواہ کسی کو نہیں ہوتی۔ حکمران طبقے کے کسی قہرمان پہ برا وقت آئے تو مظلوموں تک کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔

ملوکیت ایسی ہولناک چیز ہے کہ آدمی سے شرفِ آدمیت ہی چھین لیتی ہے۔ 1930ء کے خطبہ الہٰ باد میں اقبالؔ نے عرب ملوکیت کے اثرات سے بچنے کی نصیحت کی تھی مگر اس علمی مجدد کی اور کون سی بات ہمیں یاد رہی کہ اس نکتے پر پڑائو ڈالتے۔

ہر معاشرے کا ایک مزاج اور اجتماعی لاشعور ہوتاہے۔ تعلیم کے پیہم فروغ اور مسلسل تربیت ہی سے اجتماعی مزاج کے میل کو دھویا جا سکتاہے۔ رہنمائوں کے کردار کی روشن مثالوں اور نا مقبول فیصلوں سے، جن کے روشن نتائج غور و فکر کی دعوت دیں۔۔ اورایک ایک کر کے جاہلی تصورات کو دفن کر دیں۔

یہ معاشرہ تو ایسا ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ بے نظیر بھٹو کو ایک مثالی حکمران کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جن کے قائم کر دہ بجلی گھروں کی قیمت تین عشرے سے ہم چکا رہے ہیں اور نہیں معلوم کہ کب تک چکاتے رہیں گے۔ ائیر مارشل ارشد ملک کے باب میں عدالت کا فیصلہ، عدالت کا فیصلہ ہے ؛چنانچہ اس پر قیاس آرائی نہیں کرنی چاہئیے ب۔ محض اس لیے نہیں کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی سے وقتی طور پر فائدہ بھی ہوتو آخر تباہی آتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ عدالتوں کے احترام کو اگر بالائے طاق رکھ دیا جائے تو جماجڑا معاشرہ بھی بکھرنے لگتا ہے۔ عدالت تو رہی الگ کہ بہرحال احترام واجب ہے، ایک پرلے درجے کے بدقماش تھانیدار پہ بھی محلے والے چڑھ دوڑیں تو زیان زیادہ ہوگا۔

انسانی ذہن کو البتہ سوالات کی یلغار سے روکا نہیں جا سکتا۔ سال بھر میں ارشد ملک کے کارنامے ایسے ہیں کہ ائیر مارشل نور خان اور ائیر مارشل اصغر خان کے روشن ادوار کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ جس ادارے میں زیادہ تر تقرر سفارش سے ہوا کرتے۔ جسے ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے چرا گاہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ اور ملازمین کی تنظیموں نے بھی۔ ایک کے بعد دوسری انتظامیہ نے اپنے بہترین فضائی روٹ غیر ملکیوں کو بانٹ دیے تھے۔ اس طرح جیسے کوئی آوارہ چھوکرا اپنے اجداد کی جائیداد اجاڑ دے۔ بڑھتے بڑھتے اس کا قرض 400 ارب روپے تک جا پہنچا۔ اس میں بحالی کی امید کیا تھی؟

ملک صاحب اور ان کی ٹیم نے معجزہ کر دکھایا۔ برسوں سے ادارے کا آڈٹ نہ ہوا تھا۔ تیز رفتاری سے قابلِ اعتماد کمپنیوں سے انہوں نے آڈٹ کرایا۔ چند ماہ کے اندر خسارے میں 41فیصد کمی ہو گئی۔ اگر یہ رفتار باقی رہے تو دو تین برس میں منافع کا امکان ہے۔۔ اور یہ وہ مرحلہ ہوگا، جب اس کی نجکاری ممکن ہوگی۔ اثاثے، ملازمین اور جہاز کسی نجی کمپنی کے سپرد کر دیے جائیں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چالیس پچاس ارب روپے سالانہ کا خسارہ ختم ہو جائے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہے تو بتدریج ریلوے، بجلی کمپنیوں اور سٹیل مل سمیت تمام کاروباری حکومتی اداروں سے چھٹکارا پایا جا سکتاہے۔ اس کامطلب کیا ہوگا؟ کم از کم 1500 ارب روپے سالانہ کی بچت اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک اپنے پائوں پہ کھڑا ہو جائےاس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنی کھوئی آزادی ہم حاصل کر لیں اس کا نتیجہ ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا، ایک روشن عہد کاترکیہ اور ملائیشیا کی طرح امکانات کے در کھلیں گے اور کھلتے چلے جائیں گےجی نہیں، ترکی اور ملائیشیا کی طرح نہیں، ان سے کہیں زیادہ۔ اس لیے کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں۔ دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک فوج کے حامل۔ اپنا دفاعی بجٹ ہم دو گنا بلکہ شاید تین گنا کر سکیں۔ سول ادارے عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھل سکیں، جیسے پاک فوج تو ہماری دنیا ہی بدل جائے۔

فکری انتشار پھیلانے والی غیر ملکی این جی اوز سے ہم نجات پا لیں انسانی صلاحیت آزادی میں پروان چڑھتی ہے۔ ایک کم از کم قومی اتفاق رائے اور حرّیت کی فضا میں۔ دھان کے کھیتوں پہ ابر برستا ہے تو ہوا اپنا سب سے سہانا گیت گاتی ہے۔ آزادی بھی ایسی ہی چیز ہے۔ ایک ایک آدمی سینکڑوں اور ہزاروں کے برابر ہو جاتا ہے۔ پورا ملک اگر تعلیم یافتہ ہو جائے۔ پولیس، عدلیہ اور دوسرے سرکاری ادارے عالمی معیار کے مطابق کام کر نے لگیں تو دنیا کی سب سے زرخیز مٹی، سب سے زیادہ زرخیز قوم اور فطری وسائل سے مالا مال یہ ملک کیا سے کیا ہو جائے۔

حیرت اور رشک سے تمام عالم ہمیں دیکھا کرے گا۔ گم شدہ زمانوں کی عظمتیں ایک ایک دروازے پر دستک دیں گی۔ سب زخم مندمل ہو جائیں گے۔ سارے بند دریچے کھلیں گے اور تمام ادبار تمام ہو جائے گالیکن؟ لیکن اب انتظار کرنا ہوگا۔ ممکن ہے پی آئی اے کا مقدمہ ڈھنگ سے عدالت میں پیش نہ کیا گیا ہو۔ ممکن ہے ارشد ملک اور ان کے ساتھیوں سے کچھ غلطیاں سرزد ہو ئی ہوں۔ ممکن ہے معاملات کو مزید بہتر بنانے کی کوئی راہ عدالت کو سوجھی ہو۔ کچھ بھی، واقفانِ حال ہی جانتے ہوں گے کہ کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا لیکن یہ ایک چونکا دینے والی خبر ہے۔ ایسی حیرت اپنے ساتھ لائی ہے کہ کسی طرح تمام نہیں ہوتی۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Chingari Bujhti Nahi

By Gul Bakhshalvi