احتیاط چاہیے، ضبط چاہیے
فتح مکہ سے پہلے کے مہ و سال میں سرکارﷺ کے حلیف قریشِ مکہ سے زیادہ تھے۔ ضبط ایسا، رازداری ایسی کہ دس ہزار قدوسیوں کا لشکر مکّہ کی پہاڑیوں پہ جا پہنچا اور کانوں کان کسی کو خبر نہ ہوئی۔ ضبط چاہئیے، احتیاط چاہئیے، سلیقہ چاہئیے۔ ضبطِ نفس ہی وہ سب سے بڑا کارنامہ ہے، جو آدم زاد انجام دے سکتاہے، اپنی عادات اور جبلتوں کی تسخیر۔ دوسرے کے نہیں، اسے اپنے خلاف لڑنا ہوتا ہے۔
وزیرِ اعظم اگر چپ رہتے؟ مگر کیسے رہتے؟ آدمی اپنی عادات کا غلام ہے۔ فرمایا: ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں رہن ہے۔ دنیا میں کوئی دن آخری نہیں ہوتا۔ الّا یہ کہ بساط لپیٹ دی جائے اور تاریخ کا نیا باب کھلنے والا ہو۔
واٹر گیٹ کی دلدل میں صدر نکسن پھنسے تو برے پھنسے۔ حالت یہ تھی کہ ان کے دستخط بگڑ گئے تھے۔ بعد میں جب روداد چھپی تو ایک امریکی جریدے نے ان کے دونوں دستخط چھاپے۔ بحران سے پہلے اور بعد۔ دوسرے میں خط شکستہ تھا۔ ذہن پر گرفت نہ رہے تو انگلیاں بھی چھوڑ دیتی ہیں۔ ارشاد یہ ہے "جو خاموش رہا، وہ نجات پا گیا۔ "
صدر نکسن امریکی تاریخ کے ممتاز ترین مدبرین میں سے ایک تھے۔ چین اور سوویت یونین کے ساتھ امریکی کشمکش عروج پر تھی۔ چین نے بین البراعظمی میزائل بنائے اور نصب کر دیے۔ لفظوں کی گولہ باری پیہم جاری رہتی۔ تب نکسن نے وہ فیصلہ کیا، زمانے کا رخ جس نے تبدیل کر دیا۔ خارجہ امور کے اساطیری ماہر ہنری کسنجر کو انہوں نے پاکستان بھیجا۔ یحییٰ خان کے ساتھ ایک دن بِتایا۔ پھر چمکتی دمکتی لمبی چوڑی شاہانہ گاڑیوں کا ایک قافلہ کوہ مری کی طرف روانہ ہوا۔ دنیا کو بتایا گیا کہ طبیعت ان کی بگڑ گئی ہے۔ اپنا آرام بڑھانے کے لیے وہ صحت افزا مقام پر فروکش ہیں۔ جنگلوں کی تازہ ہوا، جہاں تسکین اور قرار مہیا کرتی ہے۔ تین چار دن کے بعد بیجنگ سے خبر آئی کہ وزیرِ اعظم چو این لائی کے ساتھ خفیہ طور پر بات چیت ہوئی۔ باقی تاریخ ہے۔
واٹر گیٹ کا غلغلہ اس کے بعد اٹھا۔ امریکی صدر پہ الزام تھا کہ حریف ڈیمو کریٹ پارٹی کے صدر دفتر میں جاسوسی کا جال بچھایا تھا، مخالفین کی حکمتِ عملی سے مطلع ہونے کے لیے۔ امریکہ کا اجتماعی ضمیر بھڑک اٹھا۔ اخبارات اور ٹی وی چینل چیخ رہے تھے۔ صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ تھا۔ اب یاد نہیں پڑتا، چرچل تھے، ڈیگال، کوئی اور ممتاز ہم عصر یا سیاست کا کوئی اور نبض شناس، جن سے انہوں نے پوچھا: اب میں کیا کروں؟ مفکر نے چھ مختلف قرینے تجویز کیے۔ ان میں سے ایک مکمل سکوت تھا۔ پنجابی کی کہاوت یہ ہے: ایک چپ سو سکھ۔
دھرنے پر دس بارہ دن تک وزیرِ اعظم پاکستان نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ تاثر یہ کہ ضبط تہیہ ہے۔ لیکن پھر پنڈورا باکس کھول دیا۔
ضبط نے گریہ کے اک شور اٹھایا غالبؔ
جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
قائدِ اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو شاید سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور آگاہ سیاستدان تھے۔ سیاست ہی نہیں، حکمرانی کا وسیع تجربہ بھی۔ مشکل ان کے ساتھ بھی یہی تھی کہ چپ نہ رہ سکتے۔ ہوشمندی کے ساتھ بروئے کار آتے تو ششدر کر دیتے۔ 1971ء کا المیہ رونما ہونے کے بعد، جس کے وہ خود بھی ذمہ دار تھے، اس خوبی سے معاملات سنبھالے کہ دنیا حیرت زدہ۔ ملک دولخت، 90 ہزار پاکستانی بھارتی قید میں۔ قوم شکست خوردہ۔ دور دور تک امید کی کوئی کرن نہ تھی۔ داخلی محاذ پر کشیدگی اتنی گہری کہ باید و شاید۔
کوہ مری جا کر بھٹو بیٹھ گئے۔ حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کو مدعو کیا۔ بڑے لیڈروں ہی نہیں، پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے، ننھی سی اپوزیشن کے لیڈر علامہ رحمت اللہ ارشد اور پنجاب یونیورسٹی یونین کے صدر جاوید ہاشمی تک سے مشاورت کی۔ خارجہ امور کی نزاکتوں کے بارے میں جاوید ہاشمی اور علامہ صاحب ان کی کیا رہنمائی کرتے۔ سوال مگر رہنمائی نہیں، دلجوئی کے لیے مشاورت کا تھا۔ بھارت کو بھٹو بتانا چاہتے تھے کہ پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے۔
شملہ کے لیے، جہاں اندرا گاندھی سے انہیں بات کرنا تھی، لاہو رکے ہوائی اڈے سے پاکستانی وزیرِ اعظم روانہ ہوئے تو الوداع کہنے والوں میں جماعتِ اسلامی کے اکل کھرے امیر میاں طفیل محمد سمیت اپوزیشن کے تقریباً تمام اہم لیڈر شامل تھے۔ بس ایک ائیر مارشل اصغر خاں نہیں تھے۔ ان کی بات دوسری تھی۔ وہ اپنی طرز اور اپنے زمانے کے عمران خان تھے۔ مقبولیت کا یہ عالم کہ 1977ء کی احتجاجی تحریک کے دوران لاہور سے کراچی گئے تولگ بھگ دو لاکھ حامی استقبال کو امڈے۔ اس کے باوجود کہ دیوار پہ پوسٹر تھا نہ اخبار میں اشتہار۔
غالباً اپنا اور اپنے حامیوں کا لہو گرمانے کے لیے سب سے بڑے شہر کا رخ کیا تھا۔ اکثریت جہاں بھٹو سے ناراض تھی۔ سید منور حسن نے جہاں "ہمدرد" کے بانی حکیم محمد سعید ایسے معتبر، معزز اور غیر متنازعہ آدمی کو ہرا دیا تھا۔ حکیم سعید کو سیاست سے دلچسپی تھی نہ پیپلزپارٹی سے کوئی واسطہ۔ ان کی حیثیت ایک جنگی قیدی ایسی تھی، وہ یرغمال تھے۔ جبراً سرکاری پارٹی کا ٹکٹ تھما دیا گیا تھا۔ خودپسند بھٹو کی چیرہ دستیوں سے زچ رہنے والے مخالفین بہت برہم تھے۔ ان کی طرف سے مسلسل اذیت پہنچانے کی روش نے اپوزیشن کو یک جان کر دیا تھا، پوری طرح متحد۔ یا للعجب ترقی پسندوں کے سرخیل حبیب جالب جماعتِ اسلامی کے ساتھ کھڑے تھے۔ سید منور حسن کے جلسہء عام میں انہوں نے ایک نظم پڑھی۔ ہمدرد کی سربند دوائیں، مرنا ہو جنہیں جلد بہت شوق سے کھائیں۔
تاریخ کا سبق یہ ہے: ایک کامیاب لیڈر اپنے حریفوں کو متحد ہونے نہیں دیتا۔ امریکی تاریخ کے مقبول ترین صدور میں سے ایک صدر ریگن اقتدار میں آئے تو سوویت یونین کی سفاک سپاہ افغانستان میں داخل ہو چکی تھی۔ امریکی رائے عامہ یہ سمجھتی تھی کہ سوشلزم ایک فروغ پذیر نظریہء حیات ہے، بڑھتا، پھیلتا اور نئی سرزمینیں تسخیر کرتاہوا۔ صدر نکسن ابھی زندہ تھے اور ذہنی طور پر تروتازہ۔ اس زمانے میں ایک اخبار نویس نے جب ان سے پوچھا: آپ کی اپنی رائے میں مورخ آپ کے بارے میں کیا لکھے گا؟ جواب یہ تھا: اگر واٹر گیٹ کو نظر انداز کیا جا سکا تو تاریخ میری تحسین کرے گی۔ صدر ریگن کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا: دانائی کی بات یہ ہے کہ مخالف کے لیے فرار کا راستہ کھلا رکھا جائے۔ ریگن نے ماسکو کے لیے فرار کا راستہ کھلا رکھا۔ افغانستان میں شکست سے دوچار ہوا اور اپنی ساڑھے تین سو سال پرانی سرحدوں میں سمٹ گیا۔ نو عدد نئی ریاستیں وجود میں آئیں۔ مدتوں کے بعد یہ ہوا کہ امریکہ واحد عالمی طاقت بن گیا۔ یہ الگ بات اور کہ امریکیوں کو استعماری گھمنڈ نے آلیا۔ روس رفتہ رفتہ سنبھلنے لگا اور
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
فتح مکہ سے پہلے کے مہ و سال میں سرکارﷺ کے حلیف قریشِ مکہ سے زیادہ تھے۔ ضبط ایسا، رازداری ایسی کہ دس ہزار قدوسیوں کا لشکر مکّہ کی پہاڑیوں پہ جا پہنچا اور کانوں کان کسی کو خبر نہ ہوئی۔ ضبط چاہئیے، احتیاط چاہئیے، سلیقہ چاہئیے۔ ضبطِ نفس ہی وہ سب سے بڑا کارنامہ ہے، جو آدم زاد انجام دے سکتاہے، اپنی عادات اور جبلتوں کی تسخیر۔ دوسرے کے نہیں، اسے اپنے خلاف لڑنا ہوتا ہے۔