Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Afghan Dastaan (1)

Afghan Dastaan (1)

افغان داستان (1)

ممالک، اقوام اور معاشرے طاقت سے نہیں بدلتے۔ علم، اخلاقی بالیدگی اور محبت سے رفیع ہوتے ہیں۔ یہ ایک پیہم جدوجہد ہوتی ہے، آغاز جس کا ادراک سے ہوتا ہے۔ مسلسل تربیت سے معاشرہ صیقل ہونے اور فروغ پانے لگتا ہے۔ یہ ادراک کہاں ہے۔ اخلاقی شعور کی اہمیت کا احساس کس کو ہے؟

ایک کے بعد افغانستان پہ لکھنے والا دوسرا اخبار نویس ہمیں بتاتا ہے، کوئی دن جاتا ہے کہ طالبان اپنے حریفوں کا صفایا کر دیں گے۔ صدر اشرف غنی کا وفد شاید امریکہ سے واپس ہی نہ آئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علما کی قیادت میں امریکہ اور نیٹو کے خلاف دو عشروں کی خوں ریز جنگ قوم پرست پشتون قبائل نے لڑی ہے۔ 1996ء میں ملّا عمر کے ان شاگردوں کی وجہ سے، جنہیں طالبان کا نام دیا گیا۔ شاذ ہی کوئی دن گزرتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے ضلعے پراپنا علم وہ لہرا نہ دیں۔ دیہی علاقوں میں پہلے ہی ان کی بالادستی تھی۔ اب چھوٹے قصبات پر وہ غالب آر ہے ہیں۔ کابل اور ہرات سمیت بڑے شہروں کے بارے میں عام قیاس یہی ہے کہ چند مہینوں میں وہ سپرانداز ہو جائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ 2022ء کا موسمِ بہار طالبان کی کامل فتح کی نوید لائے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا طالبان کے ہاتھوں تسخیر ہونے کے بعد افغان سرزمین کو وہ امن نصیب ہو جائے گا، جس کے بغیر زندگی نشوونما نہیں پاتی۔ سوال یہ بھی ہے کہ پشتون قوم پرست گروہوں کے غلبے سے پہلے کیا ہوگا؟ کتنا خون بہے گا؟ کتنی زندگیاں نذر ہوں گی۔

کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا؟

کتنے آنسو تیرے صحراؤں کو گلنار کریں؟

قرنِ اوّل کی سنہری تاریخ کے اور تو سب باب دہرائے جاتے ہیں۔ اخبارات میں، کتابوں میں اور سب سے بڑھ کر منبر و محراب میں۔ بس اگر یاد نہیں تو صلحِ حدیبیہ اور فتحِ مکّہ کا دن یاد نہیں۔ اس دن وادیء ابراہیم میں رسولِ اکرمﷺ اس طرح داخل ہوئے کہ اونٹنی پر سوار جھکے ہوئے تھے۔ ریشِ مبارک پالان کو چھو رہی تھی۔ آپﷺ نے تاکید کی کہ مسلح مزاحمت نہ ہو تو جنگ ہرگز نہ کی جائے۔ حکم دیا کہ زخمیوں کو قتل نہ کیا جائے۔ فرار ہونے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے اور قیدیوں کو مارا نہ جائے۔ شہر پہ قبضہ ہو چکا تو آپﷺ نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ قریش منتظر تھے۔ ان پہ لرزہ طاری تھا۔ وہ انتقام کی وحشیانہ عرب روایت کے فرزند تھے۔ طواف سے لوٹے تو آپﷺ نے قریش کو دیکھا۔ ان سب کی نگاہیں آنحضرتﷺ پہ تھیں اور چہار طرف مکمل سناٹا۔"اے قریش!" رحمتہ اللعالمینﷺ کی آواز بلند ہوئی "مجھے تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئیے؟ "

"خیر، اے کریم بھائی، اے کریم بھائی کے بیٹے" انہوں نے جواب دیا۔ تب آپﷺ نے وہ جملہ کہا، جو جناب یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا:آج تم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔

مکہ میں داخل ہونے سے پیشتر آپﷺ نے دس افراد کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے ناموں کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا کہ جہاں بھی ملیں، مار ڈالے جائیں، خواہ کعبہ میں ہوں۔ سنگین جنگی مجرم، غدار اور مرتد۔ پھر رحمتِ تمام جوش میں آئی اور ان جنگی مجرموں میں سے بھی صرف تین مردوں اور دو عورتوں کو قتل کیا گیا؛حتیٰ کہ ہند کو بھی معاف کر دیا گیا، جو بعد میں مسلمان ہو گئی۔ یہ وہی عورت تھی، جو اپنے میاں کے اسلام لانے پر اس پہ جھپٹی تھی۔ اور کہا "اس کو قتل کر ڈالو" چلا کر اس نے مجمعے سے کہا تھا"یہ ہم سے پھر گیا ہے۔"

افغان سرزمین پہ، جو کبھی خراسان کا حصہ تھا، جس میں موجودہ افغانستان کے علاوہ ایران اور پختون خوا کے بعض علاقے شامل تھے، حتیٰ کہ پنجاب کے بعض اضلاع بھی۔ مدتوں ایرانیوں نے حکومت کی، ترکوں اور بہت بعد میں مغلوں نے بھی۔ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا، جب افغانستان کی پشتون پٹی پرہندو شاہی مسلط تھی۔ لاہور کے آنند پال اور راج پال۔

تین ہزار برس پہلے بخت نصر کے زمانے میں بلاد ِشام سے بعض قبائل نے ہجرت کی تو کچھ اصفہان میں رکے، جہاں اب بھی یہودیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ کچھ کابل اور گرد و نواح کے دشوار گزار علاقوں میں جا بسے اور بعض نے کشمیر کا رخ کیا۔ خراسان کا یہ حصہ شاید ہی کبھی پرامن رہا ہو۔ اسی کو تسخیر کرنے کی مسافت میں ہارون الرشید مشہد میں رکا اور 44سال کی عمر میں جان ہار گیا۔ وفات سے چند گھنٹے پہلے برہم، بیمار اور شکوک و شبہات میں مبتلا، آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے حکمران نے اپنے مسیحی معالج جبرئیل کو بتایا کہ اس کے پہلوؤں پر زخم ہیں۔ اس کے بیٹوں نے اس پہ جاسوس مقرر کر رکھے ہیں۔ خراسان کے باغیوں نے اس کا چین لوٹ لیا ہے۔ متلون مزاج ہارون الرشید نے، جو کبھی موم کی طرح پگھل جاتا اور کبھی آگ بن کر برستا، اسی دن خراسان کے گرفتار کیے گئے دو باغیوں کو طلب کیا۔ بلند آہنگ لہجے میں بات کرنے والے آدمی نے غیض و غضب کے ساتھ ان سے پوچھا کہ انہیں بغاوت کی جرات کیسے ہوئی۔ پھر بولا: خدا کی قسم، تمہاری فوج اگر ستاروں کے برابر بھی ہو تو میں اسے روند ڈالوں گا۔ یہ عربوں کا خاص اندازِ تکلم تھا۔ ان میں سے ایک نے رحم کی درخواست کی مگر بادشاہ نے معافی دینے سے انکار کر دیا۔ دوسرے نے مشتعل ہو کر اپنے ساتھی سے کہا: موت ہی اگر مقدر ہے تو بے حمیتی اور لجاجت سے کیا حاصل۔ وہ دونوں مارے گئے۔ اسی شب ہارون الرشید انتقال کر گیا، غالباً دل کے دورے سے۔

آج مشہد میں اس کی قبر کا کوئی نشان نہیں۔ امام رضا ؒکے روضہء مبار ک کے قریب وہ دفن کیا گیا تھا لیکن زمین ہموار کر کے نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ عربوں نے قومی حمیت کا مظاہرہ کیا ہوتا تو امن اور قرار کے زمانوں میں اس کا جسدِ خاکی بغداد لے جاتے۔ آخر وہ ان کی تاریخ کا ایک نادر کردار ہے۔

ہارون الرشید کے بعد، مامون کو محدود وسائل والا مضطرب خراسان سونپا گیا اور باقی ساری سلطنت امین کو۔ امین کو گہرا اثر ورسو خ رکھنے والی اپنی والدہ زبیدہ اور عرب قبائل کی حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ مامون اس سے کہیں زیادہ ذہین تھا۔ ہارون نے ایک بار کہا تھا: مجھے اس میں اپنے اجداد کی وجاہت، علم اور عزم دکھائی دیتا ہے۔ خراسان شاید اس لیے مامون کو سونپا گیا کہ وہ ایک پشتون ماں کا فرزند تھا۔ شاید وہ اسی پہ قناعت کر لیتا لیکن امین کو، اصل نام جس کا عبد اللہ تھا، یہ گوارا نہ تھا۔ خراسان پر حملے کا حکم دیتے ہوئے اس نے کہا تھا: ایک سلطنت میں دو بادشاہ اور ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ امین کا حد سے بڑھا ہوا اعتماد شکست کا ایک سبب تھا۔ دوسرے یہ کہ مامون الرشید کا سپہ سالار طاہر خیرہ کن صلاحیت اور جو ش و جذبے کا حامل تھا۔ اس کی افواج نے بالاخر بغداد کے دروازے پر دستک دی۔ خراسان میں مکمل امن مگر پھر بھی قائم نہ ہو سکا۔ (جاری)

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Aik Parhaku Larke Ki Kahani

By Arif Anis Malik