Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Nafrat Angez Bayaniya Nahi Watan Parasti

Nafrat Angez Bayaniya Nahi Watan Parasti

نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی

ہمارا مزاج کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ اگر کچھ عرصہ پُرسکون گزرے تو بے چین ہو جاتے ہیں اور خود ایسی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جن سے بے چینی اور ہیجان کو فروغ ملے۔ اِس کی وجہ عدم برداشت، رواداری کا فقدان اور نفرت انگیز بیانیہ ہے اگر کوئی بے بنیاد لیکن سنسنی خیز خبر سنائے تو لوگ نہ صرف دلچسپی اور مزے سے سنتے ہیں بلکہ اپنے رفقا کو بھی سنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ ایسا مزاج بالغ نظر معاشرے کا نہیں ہوسکتا، مزید یہ کہ ہم سچائی کے متلاشی نہیں رہے سُنی سنائی بات پر فوراََ یقین کرلیتے ہیں۔ اِس طرح نفرت انگیز بیانیے کے لیے حالات سازگار ہوئے ہیں اور جھوٹ ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ ہر کوئی جب چاہے کسی پر بھی دشنام طرازی کرنے لگتا ہے اور پھر اِسے کارنامہ جان کر فخر سے اپنے رفقا کو بتاتا ہے کہ فلاں اہم شخص کو اِس طرح بدنام کیا ہے۔ تعجب یہ کہ سُننے والا بھی حوصلہ شکنی کی بجائے واہ واہ کرتا ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جھوٹ اور نفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن ایسا نہیں ہو رہا کیونکہ اکثریت کوسچ سے کوئی غرض نہیں صرف اپنے مزاج کے مطابق سُنناہی پسند ہے۔

زرائع ابلاغ نے بہت ترقی کرلی ہے اِس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ حقیقت جاننے میں مشکل پیش نہ آئے مگر زرائع ابلاغ کی ترقی نے حقائق سے آگاہی مشکل کردی ہے۔ ویسے لوگ بھی حقیقت جاننے کی جستجو ہی نہیں کرتے اور جب سے سوشل میڈیا کاظہور ہوا ہے یہ تو بلکل ہی جھوٹ پر مبنی نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے کا زریعہ بن چکا ہے۔ اب جس کا جی چاہتا ہے وہ گلہ پھاڑ کر ہرکسی پر کیچڑ اُچھالنے لگتا ہے کیونکہ تدارک کا کوئی طریقہ کار نہیں لہذا سوشل میڈیا نے معاشرے کو جھوٹ سُننے اور سنانے کے لیے مادر پدر آزاد کر دیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا تعمیری کی بجائے نقصان ہے دنیا میں یہ مقبولیت بڑھانے اور تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے مہذب معاشروں کے لوگ اخلاق اور دلیل سے بات کرتے ہیں اور سچائی جاننے کی جستجو کرتے ہیں۔ اسی لیے ہلچل وہیجان کم ہوتا ہے اگر کوئی من گھڑت اور بے بنیاد واقعات کی تشہیر کرے تو جلد ہی کوئی سچ سامنے لے آتا ہے اسی لیے نفرت انگیز بیانیے کی گنجائش نہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنے اطوار کا جائزہ لیں اور برداشت و رواداری پر مبنی ذمہ دارانہ بیانیہ اپنائیں۔

دنیا میں کوئی ایسا ملک بتا دیں جس کے شہری اپنے ملک کی بجائے سرِعام خود کو دوسرے ملک کا کہیں۔ اپنے علاقوں کو ہمسایہ ملک کا حصہ قراردیں۔ اگر کوئی ایسے کسی فعل کا مرتکب ہو تو نہ صرف اِداروں کا معتوب ہوتا ہے بلکہ عام شہری بھی ایسی حرکت کا بُرا مناتے اور نفرت کرتے ہیں مگر زرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ہمارے یہاں بھی ایسا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہاں تو قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ پاک وطن کا شہری کہلوانے سے گریزاں ہیں۔ اِن کی اولاد بھی ایسا ہی نفرت انگیز بیانیہ رکھتی ہے مگر ریاست خاموش ہے۔

اب تو ایسے ہی ایک قوم پرست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا ہے۔ اِس کا والد قیامِ پاکستان کا مخالف رہا اِس کی اولاد نے پاکستانی سرزمین پر جنم لیا تعلیم حاصل کی اسی ملک کے وسائل استعمال کیے مگر پاک وطن کی وفادار نہیں بلکہ لسانی اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کی عملبردارہے۔ یہ امن کی بجائے لڑاؤ، گھیراؤ اور جلاؤ پر فریفتہ ہے۔ رواداری اور برداشت سے کوئی سروکار نہیں البتہ سچ پر جھوٹ کو ترجیح دینے سے خاص رغبت ہے۔ اسی خاندان کے سربراہ کا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے خاندان اور شخصیات کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جاتی؟ کیونکہ ایسے چہروں کو عزت و مرتبہ ملنے سے وطن پرستی کی بجائے نفرت انگیز بیانیے کا درس ملتا ہے۔

اپنے وطن کی ترقی پر شہری خوش ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا رواج نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو کہیں عزت و اہمیت ملے تو یہاں رنجیدگی ظاہر کی جاتی ہے لیکن بے عزتی ہونے کو اُچھالتے ہوئے سوشل میڈیاپر لوگ جھوم جھوم جاتے ہیں۔ ارے بھئی کوئی ملک اگر ہمارے حکمرانوں کو عزت دیتا ہے تو یہ ایک حکومتی شخص کی نہیں بلکہ پاکستان کی عزت ہے۔ اگر کسی کو سیاسی، علاقائی، لسانی یا قومیت کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تو اظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں یہ طریقہ تو کوئی مناسب نہیں کہ ملک کو عزت ملنے پر غمزدہ ہوا جائے اور بے عزتی پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں۔

بھارت نے پاک وطن کو نیچا دکھانے اور خطے پر بالادستی ثابت کرنے کے لیے رواں برس چھ سے دس مئی کے دوران جارحیت کا ارتکاب کیا جس کا جواب پاک فوج نے دندان شکن دیا۔ دشمن کی جارحیت پر موثر، شاندار اور نپے تُلے ردِعمل نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دیے۔ بھارت کے جنگی طیارے کچھ اِس طرح گرائے جیسے شکاری شکارکے دوران پرندے گراتا ہے۔ اِس بے مثال کامیابی کو دنیا نے تسلیم کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ہر اہم تقریب میں خوشی سے تذکرہ کرتا ہے وہی امریکہ جہاں ماضی میں ہمارے وزیرِ اعظم کا ٹیلی فون سُننے تک سے اجتناب کیا جاتا تھا اب پاکستان پر فدا ہے۔

ہمارے حکمرانوں کی عزت افزائی کرتا اور فیلڈمارشل کو پسندیدہ قرار دیتا ہے۔ دنیا کی تینوں بڑی طاقتیں امریکہ، روس اور چین اِس وقت پاکستان پر مہربان ہیں جس کی وجہ پاک فوج کی مہارت و طاقت ہے۔ تینوں بڑی عالمی طاقتوں کو معلوم ہے کہ پاک فوج میں حیران کر دینے والی صلاحیت ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کی الگ سعادت ملی ہے جبکہ بھارت کی سفارتی تنہائی عیاں ہے مگر یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جو اب بھی نفرت انگیز بیانیہ رکھتے اور مایوسی کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ شاید یہ لوگ چاہتے ہیں ہماری حکومت اور فوج ہر جگہ ماردھاڑ کرے اور بے عزت ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تویہ وطن پرستی ہر گز نہیں ارے بھئی پاکستان کو بھی ترقی کرنے کا حق ہے تاکہ ہر شہری خوشحال ہو اور دنیا میں عزت و تکریم کا حقدار ٹھہرے۔

شمال مغربی سرحد کی صورتحال پر ہر پاکستانی فکرمند ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان سے دوبدو ہونے کی نوبت نہ آئے۔ حکومت اور فوج کی بھی یہی سوچ ہے مگر ڈالرز ملنے کی وجہ سے طالبان قیادت پاک وطن کے خلاف بھارت کی پراکسی بن چکے ہیں۔ بار بار سمجھانے اور دہشت گردی کے ثبوت دینے کے باوجود وہ نمک حرامی ترک نہیں کر رہے۔ قطر اور ترکیہ میں ہونے والے مزاکرات بھی اسی وجہ سے ناکام ہوئے۔ اب پاکستان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں رہا کہ نمک حراموں کو طاقت سے کچل دے لیکن سوشل میڈیا پر ایسے نا ہنجار بھی ہیں جو مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان لڑنے کی بجائے افغانستان سے ہونے والے حملوں کو برداشت کرے کیوں بھئی؟ کیوں برداشت کرے؟ جب پاک فوج خود سے آٹھ گُنا بڑے دشمن کو دھول چٹاسکتی ہے تو افغانستان کے چند ہزار گوریلا جنگ لڑنے والوں کی کیا حثیت؟ کاش نفرت انگیز بیانیہ رکھنے والے یہ حقیقت سمجھ جائیں اور سیاست پر رواداری اور برداشت کو ترجیح دیں ملک اور اداروں کا ساتھ دیناوطن پرستی ہے جس دن ایسا ہوگیا وہ دن پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور سیاسی استحکام کی بنیاد ثابت ہوگا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari