Friday, 14 March 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Ghaza Se Na Insafi

Ghaza Se Na Insafi

غزہ سے ناانصافی

سات اکتوبر2023کو غزہ میں جو تباہی کی بنیاد رکھی گئی وہ بظاہر سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے باوجود ختم نہیں ہو سکی بلکہ یہ تباہی اب علاقہ مکینوں کو بے گھر کرنے کی وسیع کوششوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہاں کے شہریوں کو مصر اور اُردن بسانے کا منصوبہ ہے۔ غزہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کا ٹرمپ بیان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ منصوبہ زمین ہتھیانے کے لیے بزور انخلا نسل کشی ہے۔ اکیسویں صدی جسے تہذیب و تمدن اور انصاف کی صدی کہا جاتا ہے میں بھی مسلمانوں سے بے انصافی ہورہی ہے۔

جب گزشتہ بیسویں صدی کے اختتامی عشروں میں یورپی علاقے بوسنیا میں مسلمانوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی کی گئی تو بھی دنیا خاموش رہی اب جب مشرقِ وسطیٰ میں بدترین نسل کشی ہورہی ہے تو بھی دنیا کی خاموشی برقرار ہے۔ فلسطین جسے ستر ہزار انبیا کی سرزمین ہونے کا شرف حاصل ہے اور جہاں سے محبت و ہدایت کے چشمے جاری ہوئے وہاں ہر انسانی جان غیر محفوظ ہوچکی ہے۔ مسلمانوں کا خون ارزاں ہے دنیا کی بے حسی کی وجہ یہ ہے کہ غزہ کے لوگ مسلمان ہونا ہیں مذہبی تعصب کی بنا پر ایسی ناانصافی کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔

غزہ جسے آج خالی کرا کر یہودیوں کی آبادکاری کا منصوبہ ہے یہ علاقہ صدیوں سے مسلمانوں کا مسکن ہے جو غربت کے حوالے سے دنیا کے پس ماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں صنعت و حرفت کے زرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اکثریت کا پیشہ کھیتی باڑی یا پھر اسرائیلی علاقے میں جاکر محنت مزدوری کرنا ہے۔ تعلیم وصحت کی سہولتوں کا فقدان ہے اِس کے باوجود پُرعزم فلسطینی اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں اور جیسے تیسے گزر بسر کر رہے ہیں۔

یہاں کے لوگوں کو بھی زمینیں اور گھر بیچ کر علاقے سے نکل جانے کی پیشکش ہوئی وگرنہ جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن لوگ خوفزدہ نہ ہوئے اور تمام تر نامساعد حالات کے باوجود علاقہ چھوڑ کر نہ گئے۔ اِس ثابت قدمی پر جھنجلا کر امریکہ جیسی عالمی طاقت اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے اور یہ علاقہ بزور خالی کرا کر اسرائیل کو تحفے کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔ ستم ظریفی تویہ کہ غزہ سے ناانصافی ہوتی دیکھ کر بھی مسلم ممالک یک زبان نہیں بلکہ تقسیم ہیں جس کے نتیجے میں عالمی سازشیں کامیاب اور گریٹر اسرائیل کے لیے ماحول سازگار ہو سکتاہے۔

غزہ کے حوالے سے جس قسم کے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں یہ ویسا ہی ہے کہ کسی کمزور کی عورت کسی طاقتور کے کارندے کو پسند آجائے مگر کمزور دستبردار نہ ہو تو طاقتور اپنے کارندے کی مدد کو آپہنچے، مگر جدید دنیا میں جس طرح عدل و انصاف کی باتیں کی جاتی ہیں ایک عدد اقوامِ متحدہ نامی تنظیم موجود ہے جس کی سلامتی کونسل کا دنیا میں امن و استحکام یقینی بنانے کے حوالے سے باقاعدہ کردار طے ہے تو سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی بات آنے پر یہ تمام عالمی اِدارے اور طاقتیں لاتعلق، غیر جانبدار اور عدم مداخلت کے اصول پرکیوں کاربند ہوجاتی ہیں؟

اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ دنیا میں مذہبی تفریق و تعصب برقرار ہے رواداری اور برادشت کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں اگر ایسا نہ ہو رہا ہوتا تو فلسطین، کشمیر، بوسنیا اور برما کے مسلمان کیوں بے یار و مددگار ہوتے؟ غزہ سے انسانی انخلا کامطالبہ خود مذہبی تفریق کی بدترین مثال ہے۔

روس، یورپ، مسلم اُمہ، آسٹریلیا سمیت دنیا کے کئی ممالک نے غزہ آبادی کو بے دخل کرنے اور علاقے کو تحویل میں لینے کے امریکی منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ عالمی ردِ عمل کے باوجود صدر ٹرمپ کا ایک بار پھر غزہ پر قبضے کا بیان دہرانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کو کسی اصول یاقاعدے کی پرواہ نہیں وہ فلسطینیوں سے غزہ کا علاقہ چھیننے پر بضد ہے تاکہ اسرائیل کی جغرافیائی سرحدوں کو وسیع کیا جا سکے۔

گریٹر اسرائیل کے حالیہ جاری ہونے والے نقشے میں مکمل فلسطین کے علاوہ، شام، اردن، لبنان، مصر، عراق سمیت کئی مسلم ممالک کے علاقے شامل ہیں ایسے علانیہ توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ ہوکر بھی مصر اور اُردن کا رویہ کمزور اور مصالحانہ ہے جس سے خدشہ ہے کہ امریکی آشیر باد سے اسرائیل خطے کانقشہ بدل سکتا ہے۔ حالیہ حملوں کے دوران وہ شام اور لبنان کے کئی علاقے ہتھیا چکا مزید پیش قدمی سے اُسے روکنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ جدید دنیا میں بھی وہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے قانون پر عمل پیرا ہے۔ اِس میں اُسے امریکہ کا مکمل تعاون حاصل ہے اگر دنیا ناانصافی اور نسل کشی کے خلاف متفقہ اور مشترکہ لائحہ عمل بناکر آواز بلند کرے توحالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔

ٹرمپ کے صدر بننے پر یاہو کی امریکہ آمد نے کئی ابہام دور کردیے ہیں۔ یاہو کا بطور مہمان پُرتپاک استقبال اور پھر ٹرمپ کا مہمان کے لیے خود کرسی سیدھی کرنا سفارتی آداب سے بالا تر رویے میں دنیا کے لیے پیغام ہے کہ اب بھی اگر ٹرمپ سے کوئی انصاف پسند موہوم اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ غزہ کے خون آلود کھنڈرات کے ورثا کو انصاف دلانے میں معاونت کرے گا تو وہ غلط ہے بلکہ غزہ کے لیے ٹرمپ خود ایسا طویل مدتی منصوبہ رکھتا ہے جس کے تحت اصل آبادکاروں کو مصر اور اُردن دھکیل کر دنیا سے یہودی لاکر آباد کیے جائیں۔

اِس کام کو وہ ترقی کا نام دیتے ہیں ایسے حالات میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کردار اہم ہو سکتا ہے کیونکہ بظاہر تو سعودی حکومت نے کہہ دیا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی مگر وہ امریکہ میں چھ سو سے لیکر ایک ہزار ارب ڈالر کی جس سرمایہ کاری کا اعلان کر چکے ہیں جس کے صلے میں ٹرمپ نے سعودیہ اور اسرائیل کے دورے کا عندیہ دیا ہے اگر سعودی حکومت تھوڑی دلیری دکھائے اور اپنی سرمایہ کاری کے عوض ٹرمپ سے مجوزہ غزہ منصوبہ ترک کرنے کا مطالبہ کر دے تو غزہ کے مفلوک الحال اور زخم زخم مسلمانوں پر منڈلاتے خطرات ختم ہونے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔

میں مسلسل لکھ رہا ہوں کہ حماس نے اسرائیل پر حملے تیاری و مشاورت کے بغیر کیے جس کا خمیازہ صرف اُسے ہی نہیں تمام فلسطینیوں کو بھگتنا پڑسکتا ہے، وہی ہوا کہ فلسطینی اتھارٹی کو حاصل محدود اختیارات سلب کرنے کے ساتھ فلسطین کے حصے بخرے کرنے کا کام شروع ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے جب فلسطینیوں کو بے دخل کرکے ہمسایہ ممالک میں آباد کردیا جائے گا تو پھر فلسطین کا نام لیوا کون رہے گا؟

اِس نوبت تک لانے میں حماس کی بے حکمتی کا بڑا عمل دخل ہے اگر سات اکتوبر 2023کی شب حماقت نہ کی جاتی تو نہ صرف لاکھوں مسلمان جانوں سے نہ جاتے بلکہ غزہ کا علاقہ بھی کھنڈر ہرگز نہ بنتا اب تو ٹرمپ منصوبے کی ناکامی کی دعا ہی کی جا سکتی ہے یا پھر سعودی ولی عہد کی طرف سے ہمت دکھانے پر منحصر ہے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری کو غزہ انخلا نہ کرنے سے مشروط کر دیں تو شاید ٹرمپ اپنے مجوزہ منصوبے پر کچھ نظرثانی کرلیں وگرنہ جس طرح اقوامِ متحدہ کی تحویل میں ہونے کے باوجود یوروشلم کو اسرائیل اپنا دارالحکومت بنا چکا اور اِس فیصلے کو ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں تسلیم بھی کرلیا۔ اگر انخلا کے بعد غزہ کو امریکی تحویل میں دیا جاتا ہے تونہ صرف غزہ کو بھی امریکہ آخرکار اسرائیل کاحصہ بنادے گا بلکہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل جیسی تجاویز کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔

Check Also

Kab Tak?

By Mumtaz Malik