دشنام طرازی اور حقائق
پاکستان بارے عالمی تاثریہ ہے کہ اِس ملک میں حکومتی رٹ کمزورترین سطح پرہے اور کوئی بھی جتھہ نہ صرف اسلام آباد کوگھیرے میں لے سکتا ہے بلکہ طاقت سے پوری حکومت کومفلوج کرنے پر بھی قادر ہے اور شہر سے جانے کے عوض اپنی شرائط منوا سکتا ہے یہ کوئی اچھا تاثرنہیں شاید اسی لیے 24 نومبرکی حتمی کال کوسُرعت کے ساتھ ریاست نے ناکام بنایا اور اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے آنے والے مظاہرین کی دُرگت بناکر شہر کو خالی کرانے میں سنجیدگی دکھائی جس سے یہ تو طے ہوگیا کہ پاکستان کے ریاستی اِدارے ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کی اہلیت، صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اپنے ملک کے شہریوں سے ہمیشہ رحمدلی اور نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے نرمی اور احترام کا مظاہرہ بہت اچھاعمل ہے مگرہر بار جتھوں کے سامنے جھک جانا اور شرائط کو تسلیم کرنا کسی ریاست کی عالمی ساکھ کے لیے تباہ کُن ہوتا ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ عین اُس وقت جب دیگر ممالک سے مہمان آئے ہوں تو کم ازکم ملک کا دارلحکومت محفوظ رکھا جائے۔
چھبیس اور ستائیس نومبر کو اسلام آباد خالی کراتے وقت حکومت نے کمال حکمتِ عملی سے کام لیا گیاجس کی بدولت قلیل وقت میں شہرخالی کرانے کا ہدف حاصل ہوامگرخلافِ توقع ڈی چوک سے کارکنوں کے چلے جانے پرسیاسی جماعت نے قتلِ عام کی ایسی منظم دشنام طرازی کی مُہم شروع کردی جس میں کوئی حقیقت نہ تھی بات کرتے ہوئے اخلاق، مروت اور وضع داری کی دھجیاں اُڑانے والے شیرافضل مروت بولے دھرناختم کرانے کے دوران بارہ افراد قتل کردیے گئے حکومت اور اِداروں کو رگیدنے کے مقابلے میں سلیمان اکرم راجہ جیسا قانوندان بھی پیچھے نہ رہا انھوں نے بیس افراد کے مارے جانے کا دعویٰ کردیا ہروقت خبروں میں رہنے کے خواہشمند شیخ وقاص اکرم نے اموات کی تعدادتیس بتائی اور پھرجب لطیف کھوسہ سے مرنے والوں کے بارے میں دریافت کیاگیا تو انھوں نے تعداد 278بتاکر سب کو حیران کر دیادعوؤں میں ایسا تضاد اب پی ٹی آئی کی شناخت بنتا جارہا ہے حیران کُن پہلو یہ ہے کہ اِداروں پر دشنام طرازی کرنے والے مذکورہ افراد میں سے کوئی بھی دھرنے میں نہیں دیکھا گیا کوئی وقت سے پہلے ہی تصویر بنوا کر غائب ہوگیا تو کوئی گھر بیٹھ کر ہی کارکردگی ظاہر کرنے میں مصروف رہا ملک اور اِداروں کے خلاف یہ دشنام طرازی قطعی طورپر ناقابلِ قبول ہے یہ گوئبلز کی پیروکاری اور دشمن قوتوں کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے جس بچنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ایسی دشنام طرازی کو دشمن قوتیں اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے بطورثبوت پیش کرسکتی ہیں۔
تاخیر سے سہی فسادات پر قابو پانے اور فیک نیوز کے تدارک کے لیے حکومت نے کچھ اچھے اقدامات اُٹھائے ہیں جس سے مستقبل میں نہ صرف اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ فیک نیوز پھیلانے میں ملوث افراد کی گردن قانون کے شکنجے میں لانے کا طریقہ کاربننے سے توقعات کے مطابق نتائج حاصل کرنے میں مددملے گی دس رُکنی ٹاسک فورس میں پی ٹی اے، ایف آئی اے، وزارتِ داخلہ، وزارتِ آئی ٹی، آئی ایس آئی اور آئی بی کونمائندگی دی گئی ہے تاکہ غلطی کااحتمال نہ رہے یادرہے کہ بے سروپا دشنام طرازی کسی ملک کی ساکھ کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے اِس حوالے سے کسی قسم کی سُستی اور لاپرواہی کا ہماراملک مزید متحمل نہیں ہو سکتا جب پی ٹی آئی کی طرف سے ایسی مُہم زروروں پرتھی کہ دھرنے کے شرکا کو اسلام آباد سے نکالنے کے دوران بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیاگیاہے تو بی بی سی جیسا اِداراہ بھی ایسی اطلاعات کی تصدیق میں پیچھے نہ رہا جواِس خیال کی تائید ہے کہ ملک کوغیر مستحکم کرنے والی قوتوں نے پی ٹی آئی کی دشنام طرازی کو نعمت سمجھ کر قبول کیا ماضی میں یہی بی بی سی 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران خبر دے کراپنی جانبداری ثابت کر چکاکہ بھارت کا لاہور پر قبضہ ہوگیا ہے اور یہ کہ پاکستانی فوجیں شکست سے دوچار ہیں حالانکہ حقائق یہ تھے کی پاک فوج نے دشمن سپاہ کو عبرتناک شکست دی اور جارح فوجی سامانِ حرب چھوڑ کر بھاگنے پر مجبورہوئے اب بھی اِس اِدارے کا فیک نیوز کی تائید میں پیش پیش ثابت کرتا ہے کہ اِس اِدارے کی ہمدردیاں پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ ہیں جس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے نیز امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر ایک گاڑی سے ریاستی اِداروں کے سربراہوں کی تصاویرکے زریعے بھی دشنام طرازی کی جاتی رہی لیکن تصدیق کے لیے کوئی ایک ثبوت پیش نہیں کیا جا سکازرادل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اپنے ملک کے خلاف ایسی مزموم حرکات جائز ہیں؟
حقائق یہ ہیں کہ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد میں سینکڑوں اموات کی بات کرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے انھوں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی خرابی صحت کی خبروں کوبھی بے بنیاد کہتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ وہ بلکل ٹھیک اور صحت مند ہیں بیماری کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں تو کیا یہ مناسب نہیں کہ ملک اور اِداروں پر دشنام طرازی کرنے والے اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور جھوٹ کا اعتراف کرتے ہوئے معافی کے طلب گارہوں اگر یہ جائزہ لینے کی کوشش کی جائے کہ دھرنے کے اہداف کِس حدتک حاصل ہوئے؟ تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ حتمی کال سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی سمیت کوئی بھی مقصد پورانہیں ہو سکا بلکہ بانی سمیت اِس جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مزید مقدمات درج ہوئے ہیں موسم کی سختیوں اور کارکنوں کے کھانے پینے کی ضروریات کوبھی یکسرنظر انداز کیا گیا اِس بناپر اہلِ نظر کی متفقہ رائے ہے کہ اگر ریاست طاقت کا مظاہرہ نہ بھی کرتی تو دھرنے کے شرکا نے ایک آدھ دن چاہے تاخیر سے سہی لیکن بھاگنا ہی تھا ریاست نے مظاہرین کو شہر سے نکال کر دراصل کارکنوں کو بہانہ فراہم کیا ہے اِس طرح وہ اپنی کمزوری کااعتراف کرنے سے بچ گئے ہیں جس کے تناظر میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ حتمی کال سے پی ٹی آئی نے کچھ حاصل کرنے کی بجائے بہت کچھ گنوادیا ہے اور قیادت نے اپنے ساتھ کارکنوں کے لیے مصائب و مشکلات بڑھائی ہیں۔
خیبرپختونخواہ کے علاقے کُرم اور پاراچنار بدامنی کی آگ میں جل رہے ہیں روزانہ ہوتی اموات ثابت کرتی ہیں کہ امن کی سنجیدہ کوششوں سے ہی بہتری ممکن ہے مگر علی امین گنڈاپور جو ماضی میں شراب کی بوتل کو عدالت میں شہدثابت کرچکے اب بھی لگتا ہے کہ وہ جس صوبے کے وزیرِ اعلیٰ ہیں اُس کی کوئی فکر ہی نہیں اگر فکر ہوتی تو صوبائی حکومت کے وسائل لیکر باربار وفاقی دارالحکومت پرحملہ آور نہ ہوتے کتنی ستم ظریفی ہے کہ انھوں نے نام نہاد شہدا کے لیے تو ایک کروڑ روپے مالی مدد کا اعلان کردیا لیکن کُرم اور پاراچنارمیں ہوتی اموات کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کررہے اُن کے طرزِ عمل سے لگتا ہے کہ وہ صوبے کے نہیں صرف پی ٹی آئی کے وزیرِ اعلیٰ ہیں اسی لیے صوبے کے شہریوں کوحالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھاہے اور صرف اپنی جماعت کے کارکنوں کوراحتِ دل وجاں تصورکرتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو دشنام طرازی کی تائید کرتے ہوئے حقائق کوہرگز نہ جھٹلاتے بلکہ سچائی کی تائید میں خم ٹھونک کر میدان میں آتے۔