ذِکرایک درویش کا
اس بچے کے گھر میں مفلسی تھی لیکن اسے تعلیم حاصل کرنے کا جنون تھا۔ والد اُسے کسی بھی اسکول میں داخل کروانے کے حوالے سے بے بسی کا نمونہ تھے اور کسی بچے کو کسی بھی اسکول میں داخل کروا کے اس کا خرچہ اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
گھر میں خرچہ کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے وہ اس بچے کو بھی اپنے اس شوق سے دستبردار ہونے اور اپنے ساتھ محنت مزدوری میں شامل ہونے کا مشورہ دیتے لیکن ہر قسم کی سرزنش کے باوجودبچے نے تعلیم کا خرچہ اپنے ذمے لیا۔ اس نے گائوں سے صبح سویرے دودھ کی گڑوی ادھار لے کر شام کو پیسے واپس کر نے کی اسکیم بنائی۔
چنانچہ وہ علی الصبح دودھ اور کتابوں کا بستہ لے کر سات آٹھ کلو میٹر دور دودھ فروخت کرتا، پھر اسکول پہنچتا۔ یوں اس نے شیر فروشی سے تعلیم کا خرچہ نکالنے اور تعلیم جاری رکھنے کا طریقہ نکال لیا۔ اس نے حسب ِ خواہش داخلہ بھی لاہور کے سینٹرل ماڈل اسکول میں لیا اور وہیں سے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ میٹرک کے بعداس نے اسلامیہ کالج سے گریجوایشن کی اور لاء کالج سے قانون کی ڈگری لے کر پریکٹس شروع کر دی۔
اب یہ بچہ جو ہائی کورٹ کا وکیل تھا، سیاست کے میدان میں اتر کر صوبائی اسمبلی کا ممبر بنا اور پھر چیف منسٹر پنجاب کے عہدے پر براجمان ہو گیا۔ بھٹو کا ساتھی بنا۔ اس کی اگلی منزل مرکزی حکومت کی وزارتیں تھی۔ وہ اسپیکرقومی اسمبلی بھی رہااور ایک انٹیرم گورنمنٹ میں وزیر ِ اعظم کے عہدے پر رہا۔
اس کا یہ حکومتی عہدوں پر رہنا کبھی اس کے دل و دماغ کو آلودہ نہ کرسکا اور اس کا ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچنااس کے لیے صرف محنت اور خدمت کی حدوں تک رہا۔ یہ شخص وہی تھا جو گائوں سے شہر لایا ہوا دودھ بیچ کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتا رہا۔ اس کا نام معراج خالد تھا۔
چند روز قبل میں لاہور کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں داخل ہورہا تھا تو بیرونی دیوار پرکتبہ لگا دیکھا جس پر تحریر تھا کہ اس ہوٹل کا سنگ ِ بنیاد ملک معراج خالد چیف منسٹر پنجاب نے 23 دسمبر 1973کو رکھا تھا۔ ان تمام عہدوں پر کام کرنے والا ایک درویش جیسی زندگی گزارتا تھا۔
ملک معراج خالد اعلیٰ ترین عہدوں پر رہنے کے باوجود ایمانداری کی مثال تھے جن کا ذکر کر کے دیانت اور امانت کا مفہوم سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ سیاست سے الگ ہونے کے بعد وہ ایک روز چیمبر آف کامرس لاہور کے سابق چیئرمین پرویز حنیف کے ہمراہ اسلام آباد گئے۔ وہاں ان کو یاد آیا کہ وہاں کے دو بینکوں میں ان کے اکائونٹ ہیں۔ ایک بینک میں جمع شدہ رقم نکلوا کر اکائونٹ closeکر وایا تو وہاں سے پچیس ہزار روپے ملے۔ دوسرے بینک کا اکائونٹ closeکروایا توسترہ ہزار روپے وصول ہوئے۔ دونوں بینکوں سے رقم وصول کرتے وقت پرویز حنیف ان کے ہمراہ تھے۔
دونوں جگہ پرویز حینف جو خود ایک اعلیٰ کاروباری شخصیت ہیں رقم کی وصولی کے وقت بمشکل اپنی ہنسی روک سکے کیونکہ وہ بہت سی حکومتی شخصیات کی مالی حیثیت سے بخوبی واقف تھے۔ اسی طرح ایک بار سلیم مرزانے مجھے ساتھ لیا کہ چلو آج ملک صاحب کے ساتھ لنچ کرتے ہیں۔ ہم ان کے گھرپہنچے تو ملک صاحب کافی دیر تک برآمدے میں کھڑے ہم سے باتیں کرتے رہے۔ اسی دوران ان کا ایک بزنس مین دوست وہاں آگیا اور بولا کہ دوستو لنچ ٹائم ہو گیا ہے، آئیے کیری ہوم ریستوران کھانا کھاتے ہیں۔ یہ ہم تینوں کے لیے ایک واضع حقیقت تھی، ہم تینوں خالی جیب تھے بشمول ملک معراج خالد کے۔
میری پہلی کتاب "دیواروں پہ لکھتے رہنا" کا نام 1999 میں محترم احمد ندیم قاسمی نے تجویز کیا تھا اور اس میں میراتعارف ملک صاحب نے تحریر کیا تھا۔ انتقال سے ایک ہفتہ قبل انھوں نے مجھے گائوں میں قائم کیا ہوا اسکول دکھانے کا ارادہ کیا لیکن ان کی اور میری خواہش پوری نہ ہو سکی۔ ایسے درویش صفت دانشور اور سیاستدان اب ہمارے ہاں مفقود ہیں۔