روشن پہلو
وہ 4 اپریل 1979کا دن تھا۔ میں صبح سویرے ڈپٹی کمشنر ہائوس ساہیوال کے دفتر میں داخل ہو کر ایک کُرسی پر بیٹھ گیا۔ چوہدری محمد اشرف نے کوئی بات کی نہ ہی میں نے۔ انھوں نے چائے منگوائی اور ہم چُپ چاپ چائے پینے لگے۔
پندرہ منٹ کے بعد ڈی سی صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا " ذوالفقار علی بھٹو کو آج صبح پھانسی دیے جانے کے بعد راولپنڈی جیل سے بذریعہ ہوائی جہاز گڑھی خُدا بخش روانہ کر دیا گیا ہے۔" اس کے بعد دفتر میں خاموشی چھا گئی۔ ہم پر عجیب قسم کی تکلیف دہ افسر دگی طاری تھی۔ کچھ دیر کے بعد ڈپٹی کمشنر نے میز اور کرسیاں کوٹھی کے لان میں رکھوائیں تاکہ ہم تھوڑی دھوپ میں بیٹھ جائیں۔
اسی اثناء میں ساہیوال کی سب ڈویژن اوکاڑہ کے اسسٹنٹ کمشنر شاہد رفیع نے ڈی سی صاحب کو فون کیا کہ وہاں بھٹو کی پھانسی کی خبر نے لوگوں میں اشتعال پیدا کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے جلوس نکالنے کے علاوہ خود سوزی شروع کر دی ہے۔ پریشانی اور لوگوں کو کنٹرول نہ کر سکنے کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنر اوکاڑہ ڈی سی ہائوس ساہیوال آ گئے۔ پھر جیالوں کے احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کی خبریں سارے ملک سے آنے لگیں اور خود سوزی کے بہت سے واقعات نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
جہاں بھٹو پر احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خاں کے قتل کا مقدمہ بنا وہ جائے وقوعہ شاہ جمال چوک تھا۔ احمد رضا سخت مزاج ہونے کی وجہ سے دوستی اور مخالفت میں انتہا تک جاتا تھا۔
مجھے وہ رات یاد ہے جب پاکستان ہی میں نہیں، دنیا بھر میں شاہ ایران کے حکم پر ایرانی بادشاہت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایسا ہی جشن راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں منایا جارہا تھا کہ کسی نے بتایا کہ بھٹو صاحب فلاں کمرے میں آئے ہیں۔ چند جیالے گئے اور انھیں فنکشن ہال میں لے آئے۔ میں نے بھی ان سے وہاں مصافحہ کیا۔ وہ کچھ دیر ہال میں رُکے پھر اجازت لے کر چلے گئے۔
عجب اتفاق کہ ان کے نیوی سے لیے گئے ADC عابد راٹھور کی شادی اسی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں عابد نے مجھے اور بیگم کو مدعو کیا۔ اس میں تمام وزراء اور بھٹو صاحب بھی شامل تھے۔ صرف اس فنکشن پر لی گئی ایک فوٹو جس میں کل چھ افراد ہیں میں بھٹو کے صوفے کے پیچھے کھڑا ہوں، میرے پاس ہے۔ یہ فوٹو دُولھا میاں نے مجھے دی تھی۔ بھٹو صاحب کے ساتھ دو یادگار ملاقاتیں جو آخری بھی تھیں میرے ذہن میں نقش رہیں گی۔ انھیں جیل سے لا کر لاہور ہائی کورٹ پیش کیا جانا تھا۔ میری دو دن ڈیوٹی لگی کہ جب پولیس ان کو لائے تو انھیں کار سے لے کر عدالت تک لے جائوں اور پھر عدالت سے پولیس کی کار تک واپس چھوڑوں۔ ایک بات جو بھولنے والی نہیں یہ تھی کہ پولیس انھیں ایک بے حد گھٹیا کار میں لاتی لے جاتی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو ہائی کورٹ سے موت کی سزا ہوئی تو انھوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس کی سات ججز نے سماعت کی جن چار ججز نے مولوی مشتاق والا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سزائے موت کی توثیق کی، ان کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔ اتفاق سے میری ملاقات دوسرے تین سپریم کورٹ کے ججز میں سے ایک کے ساتھ کھاریاں تعیناتی کے دنوں میں 1981میں ہو گئی۔
یہ جسٹس دراب پٹیل تھے جن کی کار کو لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے کھاریاں کی حدود میں حادثہ پیش آیا۔ جسٹس دراب پٹیل اور ڈرائیور تو محفوظ رہے لیکن ان کی موٹر کار بری طرح Damage ہوئی۔ میں اتفاقیہ وہاں سے گزر رہا تھا۔ دراب پٹیل صاحب اور ان کے ڈرائیور کو میں اپنی جیپ میں اسسٹنٹ کمشنر ہائوس لے آیا، ساتھ میں نے اے ایس پی کو فون کر کے ایک کار اور ٹرک کا انتظام کر نے کاکہہ دیا۔
جج صاحب کو میں نے آرام دہ کمرہ اور واش روم دیا اور پھر کافی وغیرہ پیش کی۔ میں نے ان سے بھٹوصاحب کی نظرثانی اپیل کے بارے کھل کر سوال کیے۔ چالیس سال پرانی اس دن ہونے والی گفتگو کا لب ِ لباب یہ ہے کہ قتل کی سزا غلط تھی۔ دراب پٹیل صاحب نے مجھے ایک ہفتے بعد اسلام آباد بلا کر ملاقات کی اور کافی پلائی۔
بھٹو صاحب کی پھانسی سے چند روز پہلے بھٹو صاحب پیغام پہنچایا گیا تھا کہ اگر وہ ضیاء الحق کو رحم کی اپیل کرنا چاہیں تو اسے تحریر کرنے کا بندوبست کر دیا جائے جس پر بھٹو نے غصے سے کہا کہ کیا میں ایک Usurper سے زندگی کی بھیک مانگوں گا۔ جسٹس دراب پٹیل سے ملاقات کے بعد مجھے یہ تاثر ضرور ملا کہ بھٹو کوFair Trail نہیں دیا گیا تھا۔ 1988 میں ضیاء الحق کا C130 طیارہ کریش ہوا تو بہت سے لوگوں نے تو کہا کہ ہر عروج راز وال۔