زبان کی "کھٹی"
لیجئے خان صاحب نے ایک بار پھر حسب عادت وہی زبان استعمال کر ڈالی جس کی وہ اب "کھٹی" (کمائی) کھارہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے چند برس قبل انہیں اس زبان دانی پر متوجہ کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ وہ نہ صرف خود گفتگو کے قرینوں سے ناآشنا ہیں بلکہ دوستوں اور ہمدردوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے بدتمیز بنانے کا فریضہ ادا کرچکے ہیں۔ ایک دن آئے گاان کے مخالف انہیں ان کی جماعت اور ہمدردوں کو اسی "زبان"میں جواب دیں گے۔
تب یہ ہوا کہ میرے ایک دوست نے تحریک انصاف کے حامی تحریر نویسوں سے جواب دعویٰ لکھوایا۔ ان جواب دعوئوں میں میری مرمت کرتے ہوئے ان تحریر نویسوں کا کہنا تھا کہ جو شخص جیسا ہے اسے وہی کہنا کہاں کی بدتمیزی ہے۔
عمران خان جن کے مخالف ہیں وہ سارے چور، بددیانت ملک دشمن ہیں۔
اب سامنے کی بات ہے وہی سارے الزامات عمران خان، اس کی اہلیہ، اہلیہ کی قریبی سہیلی اور درجنوں ساتھیوں پر لگائے جاتے ہیں یعنی چور، بددیانت، ملک دشمن وغیرہ وغیرہ۔
دھمکیاں دینے کی عادت بھی خان صاحب کی پرانی ہے۔ یاد کیجئے ان 126 دنوں کو بالخصوص جو ڈی چوک کے دھرنے میں گزارے انہوں نے روزانہ شام کی تقریر میں وہ کیا کیا کہتے کس کس کو کوستے اور دھمکیاں دیتے تھے۔
اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے، مونچھوں سے پکڑ کر لٹکانے کے "عزم" کو دہراتے ہوئے وہ اپنے مخالفین کا تمسخر اڑاتے تھے۔ جب ان کے بعض مخالفین نے ہلکی پھلکی ڈھولکی بجاتے ہوئے جواب دیا تو ان کے ہمدرد غصے میں بے قابو ہوگئے۔
دھرنے سے قبل کی سیاست، دھرنے کے دنوں اور بعد کے برسوں میں ان کی زبان دانی ہمیشہ عروج پر رہی ان کے بہت سارے بہی خواہوں اور سابق دوستوں کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ وہ سوچ سمجھ کر بات کرنے کے شعور سے محروم شخص ہیں ان کے خیال میں بدزبانی و دھمکیاں آدمی کو بڑا بناتی ہیں مخالف جواب دینے سے ڈرتاہے۔
خود انہوں نے ایک سے زائد بار یہ کہا "یہ زبان تو مجھ سے پہلے بھی بولی سنی جاتی تھی"۔ انہیں بتایا گیا کہ جو لوگ یہ زبان بولتے تھے انہوں نے وقت سے سیکھا۔ ان کا جواب ہوتا تھا، یہ سارے چور ایک دوسرے کی چوریاں چھپانے کے لئے ڈرامہ کررہے ہیں۔
فقط زبان دانی کے مرض نے ہی انہیں ان حالات سے دوچار نہیں کیا جن کا آج انہیں سامناہے۔ مسئلہ صرف زبان دانی ہی نہیں اور بھی چند معاملات ہیں مثلاً وہ دوسروں کو چور لٹیرا قرار دیتے ہوئے کہتے تھے کہ انہیں ایجنسیوں نے ثبوت دیکھائے ہیں۔ اب ان پر توشہ خانہ کے تحائف بیچنے اور بحریہ ٹائون والے 190 ملین پائونڈ ہر دو کے حوالے سے گھٹالوں کے جو الزامات ہیں انہیں یہ پروپیگنڈہ کہتے ہیں۔
اس کے باوجود وزیراعظم بننے کے بعد وہ ایک سے زائد بار یہ کہہ چکے تھے کہ انہوں نے جو تحائف فروخت کئے اس رقم سے بنی گالہ والی سڑک بنوائی۔ سی ڈی اے کا ریکارڈ ان کے دعوے کی تائید نہیں کرتا۔
حالیہ عرصہ میں ان کے گھٹالوں کی دو مثالیں سامنے آئیں۔ پہلی یہ کہ انہوں نے گزشتہ سے پیوستہ برس سیلاب زدگان کے لئے لائیو چند مہم میں اربوں روپے ملنے کا دعویٰ کیا وہ اربوں روپے کیسے اور کہاں خرچ ہوئے؟ دوسری مثال، 9 مئی کے بعد کے اس دعوے کے ساتھ بیرون ملک چندے کی اپیل ہے کہ 9 مئی کے دن ریاستی تشدد سے ہمارے 24 افراد جاں بحق ہوئے ہیں ان کے لواحقین کی بحالی کے لئے چندہ دیجئے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق ساڑھے 7 لاکھ ڈالر امریکہ اور کینیڈا سے عطیات میں دیئے گئے 4 لاکھ ڈالر برطانیہ یورپی ممالک اور بعض عرب ممالک سے۔ یہ ساڑھے 11 لاکھ ڈالر کیا ہوئے کسی کو کچھ پتہ نہیں۔
ماضی میں ایک بار اسی طرح کے عطیات جمع کرنے کی مہم بعد میں تنازع کا سبب بنی تھی۔ یہ ان دنوں کی وہ مہم ہے جب ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ لاہور میں محترمہ بیگم کلثوم نوازشریف کے خلاف قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں امیدوار تھیں۔ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان اور زلفی بخاری کی نگرانی میں برطانیہ میں اس ضمن میں الیکشن کیلئے پی ٹی آئی کے ہمدردوں سے تعاون کی اپیل کی گئی۔
مختلف تقاریب میں تقریباً 6 ساڑھے 6 لاکھ پائونڈ جمع ہوئے ان میں سے ڈاکٹر صاحبہ کو کتنی رقم ملی وہ زندہ سلامت ہیں ان سے دریافت کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ماضی میں وہ پارٹی کی جانب سے کسی قسم کے مالی تعاون کی تردید کرتی رہی ہیں۔
تمہیدی سطور طویل ہوگئیں مگر یہ تمہید بھی ضروری تھی ہر
" خاص و عام " شخص وہ کسی بھی طبقے سے ہو خوبیوں اور خامیوں سے گندھا ہوا ہوتا ہے۔ خان صاحب بھی دونوں کا مرکب ہیں۔ داتا گنج بخش ثانی یا جھولے لال ہرگز نہیں۔
تازہ زبان دانی کا مظاہرہ انہوں نے گزشتہ روز توہین الیکشن کمیشن کیس میں فرد جرم عائد کرنے کیلئے جیل ٹرائل کے دوران کیا۔ ان پر فرد جرم عائد ہوئی انہوں نے الزامات کو رد کردیا یہی کافی تھا کیس وکلاء نے لڑنا ہے لیکن خان صاحب نے انتہائی غصے کے عالم میں الیکشن کمیشن کے ارکان کو آڑے ہاتھوں لیا اور فرمایا "تمہاری شکلیں پہچانتا ہوں، دوبارہ اقتدار میں آیا تو آئین کی دفعہ 6 کے تحت بغاوت کے مقدمے بنائوں گا، تم کون ہوتے ہو مجھ پر فرد جرم عائد کرنے وا لے۔ تمہارے نام بھی میں جانتا ہوں"۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے میں آپ کو یادکرادوں کہ اکتوبر نومبر 2022ء میں انہوں نے بری فوج کی قیادت کی تبدیلی کے مراحل میں خاص و عام محفلوں، اپنے ڈرائنگ روم اور چند دیگر مقامات پر فوجی افسران بالخصوص جنرل باجوہ وغیر کے خوب لتے لئے باجوہ کی جگہ جنرل عاصم منیر کی نامزدگی کو متنازعہ بنانے کے لئے ا نہوں نے بہت ہاتھ پائوں مارے اور زبان بھی چلائی۔ پھر یہ ہوا کہ دسمبر 2022ء میں انہوں نے مخدوم شاہ محمود قریشی کی قیادت میں پانچ رکنی وفد ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کے لئے بھجوایا۔
انہوں نے بھیجا یا پارٹی کا فیصلہ تھا یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہوا یہ کہ جب اس پانچ رکنی وفد نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کی تو اس وفد کو ایک آڈیو سنائی گئی جس میں عمران خان نئے آرمی چیف کے بارے میں وہی زبان استعمال کرتے سنائی دیئے جو ماضی کے ایک کرکٹر قاسم عمر کا ان کے سامنے نام آجانے پر استعمال کرتے ہیں۔
یہ آڈیو سنانے کے بعد وفد سے کہا گیا کہ "آپ پہلے اس "۔۔ " کا منہ بند کریں"۔ دسمبر 2022ء میں ہی ان کالموں میں اس ملاقات کے سنسنی خیز انجام اور آڈیو سنائی جانے کی تفصیل عرض کرچکا۔
گوکہ انہوں نے گزشتہ روز توہین الیکشن کمیشن کیس کے جیل ٹرائل میں فرد جرم عائد ہونے کے بعد جو "زبان دانی فرمائی" اس پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں کیونکہ عادتیں سروں کے ساتھ جاتی ہیں بدلتی مشکل سے ہیں۔
عمران خان کے لئے سیاست کا میدان کرکٹ ٹیم کے ڈریسنگ روم جیسا ہے جو زبان وہ وہاں استعمال کرتے تھے وہی عام زندگی میں برتتے تھے پھر سیاست میں بھی یہی انداز گفتگو لے آئے۔ ان کے ہمدردوں کو بھی یہی زبان پسند ہے۔
وہ بھی کسی مخالف کے لئے گالی کے بغیر بات نہیں کرتے کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ یہ زبان دانی اور گالم گلوچ اس نئے سیاسی فرقے کے ایمان کا لازمی جز ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا وہ 29نومبر 2022ء کو ایک محفل میں اسی طرح کی گفتگو اور اقتدار ملنے کی صورت میں بغاوت کا مقدمہ درج کراکے چار پانچ افراد کو باقی عمر جیل سڑوانے کے عزم کے اظہار کے نتائج سے آگاہ نہیں؟
الیکشن کمیشن نے ان پر ایک کیس میں فرد جرم عائد کی کون سا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران ان کے وکلاء اپنے دلائل میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے موکل کا یہ مطلب نہیں جو آپ سمجھ ر ہے ہیں۔
لیکن خان نے تو آبیل مجھے مار والا کام کیا ہے۔ جیل ٹرائل کے دوران دی گئی دھمکی کو الیکشن کمیشن کے ارکان ایک مایوس اور پریشان شخص کی "بڑ" سمجھ کر نظرانداز کریں تو یہ ان کی مرضی ہے اگر اس دھمکی پر ایک نیا کیس بناتے ہیں تو یہ ان کی صوابدید ہے۔
خان کے حامی حسب سابق تازہ بڑھک اور دھمکی کو مجاہدانہ آہنگ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ عمران خان سوچ سمجھ کر کیوں نہیں بولتے۔ یہ انوکھا سوال نہیں۔
ان کے اسی انداز تکلم کو اسٹیبلشمنٹ کے "اُن" کل پرزوں نے وقت کی ضرورت قرار دیا تھا جو انہیں مسیحا و نجات دہندہ بناکر سیاست کے میدان میں کشتوں کے پشتے لگوانے کے لئے لائے تھے۔ بہرحال اپنا بویا خود ہی کاٹ رہے ہیں اور بولا بھگت رہے ہیں۔
زبان تالو سے لگاکر غوروفکرکے بعد بات کرنے کی اہمیت انہوں نے نہ سمجھی تو بس ان کے ہمدرد "مجاہدانہ دھاڑ" سے جی بہلاتے رہیں گے۔