دی فرنٹیئر پوسٹ گروپ، کچھ تلخ و شیریں یادیں (3)
روزنامہ "میدان" پشاور میں فرائض ادا کرنے کے دنوں میں ایک نیا تجربہ یہ ہوا کہ مالکان ادارے کے اندر اپنے جاسوس بھی رکھتے ہیں۔ میدان کے نیوز روم میں بھی ایک جاسوس اعلیٰ تھے۔ کارکنان کی اکثریت ان صاحب کو محمود آفریدی کی "سٹپنی" کہتی تھی۔ بعد میں جب 95 فیصد لوگ میدان چھوڑ گئے تو یہ صاحب دفتری معاون سے ایڈیٹر تک کے سارے منصبوں کے تن تنہا فرائض ادا کرنے لگے۔
ہمارے ایک لاڈلے عقیل یوسفزئی "میدان فورم" کے انچارج تھے باہمی مشورے سے "کیا موجودہ حالات میں ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے؟" کے عنوان سے میدان فورم منعقد کرانے کے انتظامات ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں سرگرم عمل تقریباً تمام سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران نے اس فورم میں شرکت کی۔ فورم میں رکھے گئے سوال پر سب سے شاندار گفتگو عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین نے کی تھی اس فورم میں ایک لطیفہ بھی ہوا وہ یہ کہ جے یو آئی کے مفتی امان اللہ نے اپنی گفتگو کے آغاز پر شکوہ کیا کہ "آپ لوگوں کو کم از کم مجھے یہ ضرور بتانا چاہیے تھا کہ عمران خان نے کوئی نیا معاہدہ بھی کیا ہے پرانا معاہدہ توڑ کر، تاکہ میں پوری تیاری کرکے آتا"۔
ان کے ابتدائی کلمات پر فورم ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ مفتی صاحب کو احساس ہوا کہ کچھ غلط ہوگیا ہے انہوں نے میاں افتخار حسین کی طرف مدد بھری نگاہوں سے دیکھا میاں افتخار حسین نے ان کی بھرپور مدد کی۔ پشتو کے چند جملوں میں انہیں ساری بات سمجھائی۔ مفتی صاحب ان دنوں اپنی جماعت کے غالباً صوبائی امیر تھے۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے انگنت واقعات بڑے دلچسپ ہیں۔
"فرنٹیئر پوسٹ" میں لیٹر ٹو ایڈیٹر کے کالم میں شائع ہونے والے جس خط سے توہین مقدسات کا ہنگامہ اٹھا اور بلوائی فرنٹیئر پوسٹ کے دفتر اور پریس پر چڑھ دوڑے تھے اس حوالے سے دو تین کہانیاں زبان زدعام رہیں اولاً یہ کہ تنخواہیں نہ ملنے سے پریشان فرنٹیئر پوسٹ کے کارکنوں میں جن کی ادارتی صفحات سنبھالنے کی ذمہ داری انہوں نے جان بوجھ کر لاپروائی کا مظاہرہ کیا تاکہ مالکان کو سبق سکھایاجا سکے۔
ایک کہانی یہ تھی کہ "ایک متعلقہ" کارکن نے یہ کام دفتر والی عمارت کے مالک کے کہنے پر کیا ہے۔ عمارت کا مالک یہ سمجھتا تھا کہ اخبار والے اپنی دھونس سے اسے کئی کئی ماہ کرایہ نہیں دیتے اور جو کرایہ دیتے ہیں وہ مارکیٹ کے کرایوں سے پچاس ساٹھ فیصد کم ہے۔ وہ کافی عرصے سے سے بلڈنگ خالی کرنے کو کہہ رہا تھا بات نہ بنی تو اس نے اندر کے بندے کو ساتھ ملاکر یہ "ڈرامہ" کروایا۔
تیسری کہانی یہ تھی کہ فرنٹیئر پوسٹ کے مالی معاملات دگر گوں ہیں دونوں اخبارات میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے تو دوسری جانب ادارے کے مارکیٹ میں لین دین کے امور بھی بھاری بھرکم قرضوں کی صورت اختیار کرچکے تھے۔
ان حالات سے نمٹنے کیلئے یہ ڈرامہ کیا گیا اس سے ایک تو قرض خواہوں کا لمبے عرصے تک منہ بند رکھا جاسکتا تھا، دوسرا صوبائی اور وفاقی محکمہ اطلاعات کی طرف موجود واجبات کی ادائیگی کے لئے حالات کی تصویر کو دبائو کے طور پر استعمال کیا جاسکتا تھا۔
ان تینوں کہانیوں میں اپنی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور تھی۔ تیسری کہانی میں پہلی دو کے مقابلہ میں زیادہ حقیقت تھی کیونکہ اس واقعہ کے بعد ایک تو لوگوں کی عمومی ہمدردیاں فرنٹیئر پوسٹ کے مالکان کے ساتھ ہوگئیں۔ سرکاری اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی میں کچھ تیزی آگئی۔ کاغذ اور دوسری اشیاء ادھار پر فراہم کرنے والوں کے تقاضوں کو فوری طور پر بریک لگ گئی۔
مالکان کے اللے تللے پھر سے شروع ہوگئے لیکن کارکنوں کی بدحالی میں اضافہ ہوگیا۔
تنخواہوں اور طے شدہ مراعات کی عدم فراہمی کی وجہ سے میرے اور اکرم شیخ صاحب کے حالات بہت پتلے تھے ہم دونوں لاہور سے پشاور آئے تھے چند ذاتی دستوں کے علاوہ شہر میں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں تھا۔
ان بدترین دنوں میں مجھے بھائی جان سید منظر نقوی، برادر عزیز میجر (اس وقت) سید شاہد عباس بخاری، سید مہدی حسین اور خورشید ایڈووکیٹ کے علاوہ بھی چند دوستوں کا تعاون حاصل رہا۔ ممتاز قزلباش اور اقبال صاحب مرحوم بھی ان دوستوں میں شامل تھے جو ہمارے حالات اور ادارے کے مالکان کے سلوک پر پریشان رہتے تھے۔
اس معاملے میں میرے لئے ایک بہتری کچھ یوں بھی تھی کہ میری دونوں خواتین خانہ ملازمت کرتی تھیں لیکن شوہر کو پالنا ان کی ذمہ داری تو نہیں تھی پھر بھی ان کی جانب سے خاصا تعاون ملا۔
اکرم شیخ صاحب کے تمام بچے زیرتعلیم تھے اس لئے حالات کا زیادہ اثر ان پر پڑا انہیں لاہور سے پشاور بڑے بڑے خواب دیکھا کر چونکہ میں نے اور حبیب الرحمن صاحب نے بلایا تھا اس لئے اگر کبھی انہیں غصہ آتا تو وہ ہم دونوں کو خوب رگیدتے لیکن ایسے وقت میں اس بات کا ضرور خیال کرتے کہ ہم تینوں کے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔
بدحالی کے ان دنوں میں ہمارے محب مکرم سید حبیب الرحمن دوسری شادی کے لئے "تُل" ہی گئے یار لوگوں نے بہت صلاح مشورے دیئے۔ ہم جیسے منہ چڑھے دوستوں نے اونچ نیچ بھی بتائی سمجھائی لیکن "اے محبت تجھ پر دنیا قربان" والا معاملہ تھا۔
حبیب الرحمن صاحب کی اہلیہ محترمہ (پہلی خاتون خانہ) ٹریفک کے ایک حادثے میں وفات پاگئی تھیں۔ خود حبیب صاحب اس حادثے میں شدید زخمی ہوئے تھے ایک طرح سے انہیں نئی زندگی ملی تھی۔ اہلیہ کی وفات کے وقت وہ "مشرق" میں ہی تھے۔ امتحان محبت بھی زمانہ مشرق سے ہی شروع ہوا تھا۔
بہرحال ایک دن حبیب صاحب دوسری شادی کے بندھن میں بندھ ہی گئے ان کی دوسری اہلیہ محترمہ رفعت تاجک (بعد میں وہ الگ ہوگئیں) مجھ عاجز پر ہمیشہ برہم رہیں کیونکہ میں نے نکاح نامے کے فارم پر دو ایسی شرائط درج کردی تھیں جس سے حبیب الرحمن صاحب کے بچوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا تھا اور خود سے خلع مانگنے کی صورت میں نئی اہلیہ کو کچھ نہیں ملنا تھا۔
وقت نکاح تو انہوں نے جھٹ سے نکاح نامے پر دستخط کردیئے مگر دو دن بعد ہنگامہ اٹھا دیا کہ حیدر شاہ جی نے مجھے دھوکے میں رکھ کر دستخط کرالئے حالانکہ ایسی بات نہیں تھی۔
حبیب الرحمن صاحب کی دوسری شادی کے بعد ہمارے بہت سارے دوستوں کی بیگمات اپنے شوہروں کو کہتی تھیں"حیدر بھائی سے نہ ملا کریں انہوں نے خود بھی دو شادیاں کر رکھی ہیں اور دوستوں کی دوسری شادی میں بھی بڑا فعال کردار ادا کرتے ہیں"۔
بڑی مشکل سے ہم اپنی ان دو تین بھابیوں کو سمجھا پائے کہ حبیب الرحمن صاحب کی شادی میں ہمارا کوئی قصور نہیں وہ خود سولی چڑھنے کے لئے اتاولے تھے۔ ثبوت کے طور پر انہیں نکاح نامے کی کاپی دیکھائی جسے پڑھنے کے بعد ہماری ایک بھابی صاحبہ کو تو حبیب الرحمن صاحب کی دوسری اہلیہ سے ہمدردی ہوگئی۔
پھر ایک دن وہ بھی آگیا جب ہم نے "میدان" سے خصت ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
برادر عزیز سید شاہد عباس بخاری نے روزنامہ "آج" کے بانی چیف ایڈیٹر عبدالواحد یوسفی صاحب مرحوم سے بات کی۔ محب مکرم سید مہدی حسین شہید بھی اس مشن نئی ملازمت میں شریک ہوگئے۔ یوسفی صاحب سے ملاقات میں معاملات طے پاگئے تو انہوں نے ایک ماہ کی ایڈوانس تنخواہ کا چیک دیتے ہوئے کہا شاہ جی آپ ایک ماہ لئے چھٹی پر گھر چلے جائیں ذہنی سکون حاصل کریں کتابیں پڑھیں آرام کریں مہینے بعد واپس آکر فرائض سنبھال لیں۔
اخباری دنیا میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا تجربہ تھا کہ کوئی مالک جوائن کرانے کے فوراً بعد ایک ماہ کی تنخواہ دے کر مہینہ بھر کی رخصت پر بھیج دے۔ شاہد عباس بخاری اور سید مہدی حسین کے دبائو پر میدان سے صرف تین ماہ کی تنخواہ کا چیک ملا جو اگلے روز کیش ہوگیا۔ 9 ماہ میں سے تین ماہ کی تنخواہ کے چیک کے ساتھ ایک حساب کا کاغذ بھی تھا جس پر کھانے اور دفتر کا فون استعمال کرنے کے پیسوں کی مجموعی رقم درج تھی۔
دلچسپ یہ ہے کہ میں نے 13یا 14 ماہ کی ملازمت کے عرصے میں کبھی بھی "فرنٹیئر پوسٹ" کی کینٹین سے کھانا نہیں کھایا بلکہ چائے بھی باہر سے منگوا کر پیتا تھا۔ کھانے اور ٹیلیفون کا یہ بل ایک انوکھا تجربہ تھا۔
ادارہ سے باضابطہ الگ ہونے سے ہفتہ بھر قبل فراہم کردہ رہائش گاہ سے سامان اٹھاکر برادر عزیز سید شاہد عباس بخاری کی انتظام اور فراہم کردہ رہائش گاہ پر منتقل ہوگیا۔
بعدازاں روزنامہ "آج" میں ملازمت کے پورے عرصے میں، میں اپنے مہربان دوست آصف قیوم صاحب کی قیام گاہ پر رہائش پذیر رہا۔ "آج" میں ملازمت کا عرصہ صحافتی زندگی میں اب تک کا خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔ (جاری ہے)