تین جماعتوں کی تاریخی کہانی (2)
ذوالفقار علی بھٹو کے عہد اس دور کی خوبیوں، خامیوں کا تجزیہ سیاسی انحراف ہے نہ ہی کوئی شرعی جرم، بھٹو سیاستدان تھے ولی یا پیغمبر و امام ہرگز نہیں۔ ان کی ذات، سیاست، جماعت سازی اور اداوار حکومت کے حوالے سے سو فیصد لوگوں کی ایک رائے نہیں ہوسکتی۔
کچھ لوگوں کے خیال میں ان کی خوبیوں کا پلڑا بھاری ہے اور کچھ ان میں خامیاں زیادہ دیکھتے ہیں۔ یہ دوسرا طبقہ وہی ہے جس نے انہیں گھاسی رام کہا لکھا۔ ان کی والدہ کو ہندو قرار دیتے ہوئے بازاری جملے کسے یہاں تک کہ بھٹو کو نہرو کا بیٹا تک کہا لکھا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بازاری پن کا شکار یہ دوسرا طبقہ خود کو اسلام پسند کہتے ہوئے بھٹو کو لادین سیکولر اور بھی بہت کچھ کہتا تھا۔
گھاسی رام، ہندو، لادین وغیرہ کے جملوں کی بازگشت سے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق اتنے متاثر ہوئے کہ ان کے حکم پر ذوالفقار علی بھٹو کو جب 4 اپریل 1978ء کو پھانسی دی گئی تو سرکاری فوٹو گرافر نے ذوالفقار علی بھٹو کی برہنہ تصاویر بنائیں تاکہ پتہ چلے کہ ان کی مسلمانی ہوئی تھی یا نہیں۔
بالائی سطور کے مندرجات سے بھٹو کے دشمنوں میں سیاسی مخالفین کی ذہنی سطح کا اندازہ کرلیجئے بھٹو اقتدار میں آئے ان کے دور میں ہی قومی اسمبلی نے 1973ء کا دستور بنایا یہ درست ہے کہ 1973ء کا دستور متفقہ نہیں تھا قومی اسمبلی کے چند ارکان منظوری کے عمل میں شامل نہیں تھے لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ دستور کی منظوری والے دن اختلاف رائے رکھنے والے چند ارکان ایوان سے غیرحاضر تھے اس لئے منظوری کے عمل کو متفقہ سمجھا جانا چاہیے۔
یہ بھی درست ہے کہ 1973ء کے دستور میں بعد ازاں بھٹو دور میں ہی جو ترامیم ہوئیں ان میں سے بعض ترامیم پر آج بھی 50 سال بعد یہ بحث ہوتی ہے کہ کیا ریاست کو اجتہاد کا حق حاصل ہے؟
ریاست کے حق اجتہاد کے حامی افراد معاملے کو عصری شعور کی آنکھ سے دیکھنے سمجھنے کی بجائے مذہبی عقیدے کے جذبات سے دیکھتے سمجھتے اور رائے دیتے ہیں۔
بہرطور ان کا دور ایک نئے عہد کی بنیاد تھا۔ میٹرک تک تعلیم مفت کردی گئی۔ نجی تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لے لئے گئے۔ بینکوں اور صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔
ایک طبقہ قومیانے کی اس پالیسی کو زہر قاتل قرار دیتا ہے ایک طبقہ اس کے حق میں ہے لیکن درحقیقت یہ دیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں کے عرصے میں دنیا بھر میں سوشلسٹ خیالات کا دور دورہ تھا قومیائے جانے کی پالیسی اصل میں سوشلسٹ نظریات و نظام سے لی گئی تھی۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب بینک، صنعتیں اور تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لئے گئے تو اس وقت ان میں کام کرنے والوں کا مالی استحصال ہو رہا تھا تنخواہ کچھ ہوتی ہے رول پر کچھ اور درج ہوتی اور اس پر دستخط لئے جاتے تھے۔
قومیائے گئے تمام اداروں میں سرکاری قوانین کے تحت پے سکیل بنائے گئے نجی ملازمین سرکاری ملازم بن گئے۔ سرکاری پے سکیلوں کے تحت تنخواہ و مراعات اور پنشن کے حقدار ٹھہرے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے آغاز سے اختتام کے درمیانی برسوں میں تقریباً 14 لاکھ افراد خلیجی ممالک روزگار کے لئے گئے ہیں جبکہ 6 لاکھ سے زیادہ افراد، امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس اور یورپی ممالک گئے زیادہ تر نے وہاں شہریت کے حصول کے قانونی تقاضے پورے کرکے شہریت لے لی۔
کیا ہم اس نکتے پر غور کے لئے چند لمحات نکال سکتے ہیں کہ ان 20 لاکھ افراد نے پاکستان کی تعمیروترقی میں شعوری طور پر کیا کردار ادا کیا؟ مثلاً کتنے لوگوں نے تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے تعاون کیا۔
تحقیقی اداروں کی ضرورت کو سمجھا۔ اپنے علاقوں میں طبی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لئے سماجی خدمت گاری کی؟
اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ 14 اگست 1947ء سے جولائی 1977ء کے درمیانی برسوں کے مقابلہ میں 1972ء سے 1977ء کے پانچ سالوں کے دوران ملک میں سب سے زیادہ مدارس دینیہ اور مساجد بنیں (یہ ریکارڈ آگے چل کر فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں ہوئی افغانستان میں سوویت امریکہ جنگ کے عرصے کی ریاستی جہادی پالیسی نے توڑا)۔
ان مدرسوں اور مسجدوں کے لئے مالی تعاون روزگار کے حصول کے لئے بیرون ملک گئے ا فراد کے خاندانوں نے آخرت کے اجر کے حصول کے لئے کیا۔
جس عہد میں جی رہے تھے اس کے لئے خیر کا جذبہ ان خاندانوں میں نہیں تھا۔
بھٹو کے خلاف قومی اتحاد نے جو تحریک چلائی اس کے مقامی فنانسروں میں بھی یہی خاندان پیش پیش تھے ہمارے ہمزاد فقیر راحموں کے بقول "فاقہ مستی ختم ہوئی آخرت کمانے کے شوق نے انگڑائی لی"۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آخرت کے مذہبی تصورات اپنی جگہ لیکن اگر پانچ برسوں میں بیرون ملک جانے والے 20 لاکھ افراد کے خاندانوں نےفہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے علم و صحت اور تحقیق کے شعبوں میں حصہ ڈالا ہوتا تو یہ بھی آخرت کے لئے سرمایہ کاری ہی ہوتی۔
بھٹو کے خلاف 2 تحریکیں چلیں پہلی تحریک ان کے مخالفین نے سول نافرمانی کے نام سے چلائی تھی اس تحریک کے دوران ملک بھر کی دیواروں پر جنرل ٹکا خان کی تصویر کے ساتھ ایک جملے والا اشتہار لگایا گیا تھا وہ جملہ تھا "مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟"
حزب اختلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے، ہنگاموں اور حکومت پر سنگین الزامات کے باوجود ناکام رہی اس تحریک کی کوکھ سے صرف یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) ہی جنم لے سکا۔
تحریک کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ ملک میں سیلاب کا آنا تھا۔ جہاندیدہ سیاستدان کی طرح بھٹو سیلاب زدہ علاقوں کا مسلسل دورہ کرتے ہوئے بالآخر ٹھٹھہ ضلع میں اس مقام پر پہنچے جہاں دریائے سندھ سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔
یہاں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دھواں دھار جوشیلی تقریر کرتے ہوئے کہا "عوام دیکھ لیں ان کے بھٹو نے سیلاب اور رجعت پسندوں کی تحریک دونوں کو سمندر میں پھینک کر دم لیا ہے"۔
بھٹو دور کی آئینی ترامیم اور ان کے دور کے بعض مذہبی فیصلوں پر ہمارے ہاں کبھی بھی جمہوری شعور کے ساتھ مکالمہ نہیں ہوا۔ عدم مکالمے کی ایک وجہ مذہبی تنگ نظری ہے ایسی تنگ نظری کہ ہر عقیدے کا پیروکار خود کو مامور من للہ اور دوسرے کو زندیق قرار دیتا ہے۔
جمعہ کی چھٹی اور میخانوں کی بندش یہ دونوں سیاسی فیصلے تھے۔ اصل میں ہم نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ فرد، طبقہ یا حکومت جب پسپائی کے عمل میں ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں تو یہ آخری قدم نہیں ہوتا۔
اسی طرح بھٹو دور کے ایٹمی پروگرام کا معاملہ ہے یہ راجھستان میں بھارت کے پہلے ایٹمی تجربے کے جواب میں شروع ہوا۔ بھارت پاکستان کی اندھی نفرت پر مبنی دشمنی دونوں جانب کی سیاست کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا بھی رزق تھی اور ہے۔ بھٹو بھی پاکستانی قومیت کے علمبردار تھے۔
بھارت سے ایک ہزار سال تک لڑنے اور مکہ لہرانے والے انہوں نے مسلح افواج کی جدید خطوط پر تعمیر نو اسی قومی جذبے اور بھارت دشمنی کے اپنے نعروں کے زیراثر کی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے لگ بھگ 10 برس بعد لاہور کے ہفت روزہ "طلوع" میں جی ایم سید کے شائع ہونے والے انٹرویو (اس انٹرویو کی سعادت اس تحریر نویس کو حاصل ہے) میں ایک سوال کے جواب میں جی ایم سید مرحوم نے کہا ("میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو کہا تھا جس فوج کو تم جدید خطوط پر منظم کررہے ہو اس کے منہ کو اقتدار کا خون لگا ہوا ہے یہ ایک دن تم سے جان چھڑانے کے لئے ہر حد عبور کرجائے گی")۔
بھٹو کے دور میں ان کی ان کی والدہ اور اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کی سب سے زیادہ کردار کشی اسلام پسند اخبارات و جرائد اوران سے منسلک صحافیوں نے کی۔ 5 جولائی 1977ء کو جونہی مارشل لاء لگا یہ سارے اسلام پسند بھاگ کر جنرل ضیاء الحق کی گود میں نہ صرف بیٹھے بلکہ انہوں نے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو محمود غزنوی ثانی قرار دے دیا۔
قبل ازیں یہی ٹولہ دوسرے فوجی آمر جنرل آغا یحییٰ خان کو وارثِ فکر حضرت امام علیؑ اور سلطان صلح الدین ایوبی ثانی قرار دے چکا تھا۔
ابتدائی سطور میں عرض کرچکا کہ بھٹو دور کا تجزیہ کرتے وقت اگر ایک طبقہ نفرت میں حقائق مسخ کرتا ہے تو دوسرا طبقہ بھی زمینی حقائق نظرانداز کردیتا ہے۔ البتہ دونوں میں ایک قدرے مشترک بھی ہے وہ یہ کہ دونوں اپنے شعور اور تاریخ کا رزق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پی ٹی وی سے نشر کی جانے والی "ظلم کی داستانوں" سے حاصل کرتے ہیں۔
جولائی 1977ء کے مارشل لاء کے بعد ہی حیدر آباد ٹربیونل تحلیل ہوا اور نیپ کے رہنما رہا ہوئے (گو اس وقت نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کی جگہ این ڈی پی (نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی) تھی)
نیپ کے سابق سربراہ خان عبدالولی خان نے ہی حیدر آباد جیل سے رہائی کے بعد پہلے احتساب پھر انتخابات کا نعرہ لگایا۔ فوجی حکومت کے لئے یہ نعرہ 90 دن میں انتخابات کرانے کے وعدے سے بھاگنے کا جواز بن گیا۔ (جاری ہے)