شام، بشار رفت و ہئیت التحریر آمد (12)
جملہ انقلابیان و ہمدردانِ فاتحین شام کو سوا سوا لکھ مبارکاں ہوں کہ امریکہ بہادر نے ان کے "غازی سلطان صلاح الدین ایوبی" چہارم، احمد الشرح ابو محمد الجولانی کے سر پر رکھی 10 ملین ڈالر کی قیمت منسوخ کردی ہے۔ آج یا کل یہ ہونا ہی تھا اس کے بغیر الجولانی اور محمد البشیر کو ان اکائونٹس تک رسائی نہیں ملنی تھی جو امریکہ نے سال 2017ء میں منجمد کردیئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ اربوں ڈالر کے اکائونٹس ترکی اور اردن کے بینکوں میں ہیں۔
دمشق شام سے دوسری خبر یہ ہے کہ گزشتہ روز حرم (مزار) بی بی سیدہ رقیہ سلام اللہ علیہا کی مسجد کے خطیب حجتہ الاسلام سید دائود بیطرف کو مسلح افراد نے شہید کردیا ہے۔ شام پر قابض ہونے والی "ہئیت التحریر الشام" کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس قتل سے ہئیت یا عبوری حکومت کا کوئی تعلق نہیں یہ کسی شخص کی انفرادی کارروائی ہوسکتی ہے۔
فی الوقت اس وضاحت کو مان لینے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ ہرگز نہیں البتہ اس تلخ حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ترکیہ اسرائیل اور امریکہ کے تعاون سے کامیاب ہوئی بغاوت کے فاتحین میں موجود غیرمقامی جنگجو (ترکیہ، ازبک، چینی مسلم، ایرانی بلوچ اور پاکستانی بھی شامل ہیں) چونکہ خالصتاً فرقہ وارانہ جذبات سے بشارالاسد مخالف لشکر میں شامل ہوئے تھے اس لئے آنے والے دنوں میں سید دائود بیطرف کی طرح مزید لوگ بھی فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوسکتے ہیں۔
دوسری اہم بات ترکیہ کی وزارت خارجہ کا یہ نیا موقف ہے کہ اگر شام میں قائم ہونے والی نگران عبوری حکومت نے شامی حدود میں آزاد کردستان تحریک سے منسلک افراد کے خلاف فوری کارروائی نہ کی تو ترکیہ اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ترکیہ سے ملحقہ شامی حدود میں رہنے والے کردوں کے خلاف کارروائی کا حق استعمال کرے گا۔
ترکیہ کرد تنازع کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کرد 2 عرب اور 2 غیر عرب ممالک میں آباد ہیں، عرب ملکوں میں عراق اور شام جبکہ غیرعرب ملکوں میں ترکیہ اور ایران شامل ہیں۔ ماضی اور حالیہ دنوں میں کردوں کے خلاف سب سے پرتشدد ریاستی کارروائی ترکیہ نے ہی کی۔ عراق میں صدام اور شام میں حافظ الاسد مرحوم اور بشارالاسد دور میں کردوں کے خلاف بھی ریاستی کارروائیاں ہوئیں۔
چار مسلمان ملکوں میں تقسیم کرد آبادی کی دو فعال مسلح تنظیمیں آزادکردستان کے قیام کے لئے پچھلی نصف صدی سے زائد وقت سے جدوجہد میں مصروف ہیں اس عرصے میں کردوں نے سب سے زیادہ مزاحمت عراق اور ترکی (اب ترکیہ) میں کی۔ عراق میں صدام دور کے بعد کی حکومت اور کردوں کے درمیان مفاہمت کا سمجھوتہ ہوگیا۔
ایران میں مختصر کرد آبادی کا معاملہ ایرانی بلوچستان سے سوا ہے۔ ایرانی بلوچستان میں جنداللہ عشروں سے سرگرم ہے صرف جنداللہ ہی نہیں قوم پرست بلوچ بھی گریٹر بلوچستان کے لئے پاکستانی بلوچستان کی بی ایل اے اور بی ایل ایف سے عملی تعاون کرتے ہیں۔
سال ڈیڑھ قبل ایران اور پاکستان کی ریاستوں نے باہمی اعتماد سازی کی بدولت دونوں ملکوں کی حدود میں قائم جنداللہ، بی ایل اے ا ور بی ایل ایف کے خلاف کارروائی کی تھی اس کارروائی کے دوران دونوں ملکوں میں سفارتی اور تجارتی روابط منجمد کردیئے گئے بعدازاں بحالی عمل میں آئی تھی۔
ماضی میں جنداللہ کے بانی عبدالمالک ریگی مشہد مقدس میں دہشت گردی کی ایک بڑی واردات میں ایران کو مطلوب تھے ایرانیوں نے دبئی سے لندن جانے والی ایک مسافر پرواز کو اپنی فضائی حدود میں روک کر اتارا اور عبدالمالک ریگی کو گرفتار کرلیا۔ مخصر سماعت کے بعد عبدالمالک ریگی کو مشہد مقدس میں پھانسی دے دی گئی۔
تب ریگی کے بھائی اور جنداللہ کا موقف تھا کہ عبدالمالک ریگی کی "ریکی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے کی" اور انہوں نے ہی ایران کو ریگی کی دبئی سے لندن روانگی کی معلومات دیں۔ عبدالمالک ریگی کی پھانسی کے بعد جنداللہ نے پاکستان میں بدلے کی کارروائیوں کا اعلان کیا۔ مہران بیس کراچی سمیت بعض بڑی وارداتوں میں جنداللہ کے کارکنان شامل ہوئے پاکستان میں جنداللہ کی سرگرمیاں جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوئیں رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والا حماد شاہ اس کا آپریشنل کمانڈر تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 9/11کے بعد افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے امریکی مشن جس میں نیٹو ممالک بھی شریک تھے کے عرصے میں جنداللہ نے اپنے تربیتی کیمپ افغانستان کی حدود میں منتقل کرلئے یہ وہ برس تھے جب امریکی تکرار کے ساتھ پاکستان پر ڈبل اسٹنڈر اپنانے کا الزام لگاتے تھے لیکن خود امریکہ کی سرپرستی میں پاکستان، ایران وسط ایشیائی مسلم ریاستوں اور چینی مسلمان صوبوں کی مزاحمتی مسلح تنظیموں کو تربیتی کیمپ قائم کرنے کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔
حال ہی میں بشارالاسد رجیم کے خلاف کامیاب بغاوت کا سہرا سجانے والی "ہئیت التحریر الشام" میں پاکستان اور ایران کی کالعدم فرقہ پرست تنظیموں (ان میں جنداللہ، جیش محمد، لشکر جھنگوی العالمی اور ٹی ٹی پی جماعت الاحرار نامی گروپ شامل ہیں) کے ارکان کی بڑی تعداد موجود ہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ہئیت التحریر الشام کے لشکریوں اسلامک موومنٹ ازبکستان کے علاوہ چین کے مسلم صوبوں کے موومنٹ آف اسلامی ایغور المعروف ترکمانستان اسلامی موومنٹ کہلانے والے عسکریت پسند بھی شریک ہیں۔
ایغور، ازبکستان، پاکستان، ایران وغیرہ سے تعلق رکھنے والے ان جنگجوئوں کی مجموعی تعداد 8 سے 10 ہزار بتائی جارہی ہے۔ شام کو بشارالاسد رجیم کے تسلط سے آزاد کرواکے اسلامی انقلاب لانے والے ان غیر عرب جنگجوئوں کی حکمت عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مثلاً بشار رجیم کے خلاف ایک ایسے وقت میں تیسری اور کامیاب بغاوت عمل میں آئی جب پچھلے تقریباً ڈیڑھ دو برس سے اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ کیا یہ جنگجو اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ حالیہ شامی بغاوت کا سرپرست امریکہ بہادر فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف اسرائیل کا مربی و معاون اور سرپرست ہے؟
اسلامک موومنٹ آف ترکمانستان کے حوالے سے یہ اطلاع بھی بہت اہم ہے کہ اس کے جنگجووں کو یوکرائن اور روس کی جاری جنگ کے دوران یوکرائن میں تربت دی گئی یہی نہیں بلکہ بعض دوسری شدت پسند جنگجو مسلمان تنظیموں کے "مجاہدین" کی بھی یوکرائن روس جنگ میں امریکی کیمپ کی جانب سے شرکت کی اطلاعات ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عالمگیر انقلاب اسلامی کی نشاط ثانیہ کا ابتدائیہ شام کی سرزمین پر رقم کرنے والے مسلمان جنگجو اسرائیل کے خلاف جہاد کی بجائے برادر کشی کے جہاد میں کیوں مصروف ہیں؟
اسی طرح یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے یورپ، برطانیہ اور امریکہ کا نام نہاد آزاد میڈیا چینی ایغور مسلمانوں کی حمایت میں پیش پیش اور دعویدار ہے کہ چین میں مسلمان اقلیت ابتر زندگی بسر کررہی ہے۔ چین کی مسلمان اقلیت کے ان ابلاغی ہمدردوں کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کیوں دیکھائی نہیں دیتی؟
بار دیگر ان سطور میں یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ شام کی حالیہ کامیاب بغاوت کا اصل مقصد اسرائیل کو بلاشرکت غیرے بلاد عرب کا مستقل تھانیدار بنانا ہے۔ بہرطور یہ امر بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ہئیت التحریر الشام جوکہ خود بھی فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم ہے اس میں شامل غیرعرب جنگجوئوں نے عقائد کی بالادستی کی جنگ کا دروازہ شام کی سرزمین پر کھول دیا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
یہ سوال پچھلے ایک ہفتے کے دوران دمشق میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر پیش آنے والے افسوسناک واقعات کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ ان واقعات کی ابتداء اہل بیت اطہارؑ سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیات کے مزارات پر جنگجوئوں کے نامناسب طرزعمل اور کارروائیوں سے ہوا گزشتہ روز قتل ہونے وا لے عالم دین سید دائود بیطرف کے معاملے کو ان واقعات سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسلامک موومنٹ کی ترکمانستان کے جنگجوئوں کو یوکرائن اور افغانستان سے شام پہنچانے کی امریکی حکمت عملی میں ترکیہ نے ساجھے داری کیوں کی کیونکہ دو اڑھائی برسوں سے کہا تو یہ جارہا تھا کہ روس اور چین پاکستان، ایران اور ترکیہ کو ساتھ ملاکر ایک نیا عالمی کیمپ تشکیل دینے کی کوششوں میں ہیں۔
جاری ہے۔۔