پھانسی گھاٹ پر جھولتی سچائی
دوتین دنوں سے یہ صورت دامن گیر ہے کہ مروجہ سیاست اور اس سے بندھے موضوعات پر لکھے کو جی نہیں چاہ رہا۔ برادرانِ مکرم شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی کی جانب سے بھجوائی کتابوں کا مطالعہ مکمل ہوتا ہے تو ایک ایک کرکے ان کتب کے موضوعات پر عرض کرتا ہوں البتہ پچھلے دو دنوں سے قبل از اسلام کے عربی شعراء کے ساتھ حافظ شیرازی، منصور حلاجؒ، خواجہ غلام فرید، شاہ حسین، اور مرشد مکرم سیدی بھلے شاہؒ کے کلام میں پناہ لئے ہوئے ہوں۔
گزشتہ شب کے دوسرے حصے میں فقیر راحموں نے کچھ یوں کہا "وائے ہو تم پر جو انصاف فروخت کرتے ہو، ایمان کی دلالی کرتے ہو، علم پر تعصبات کے کلہاڑے چلاتے ہو، وائے ہو تم پر جو اترا اترا کر یوں چلتے ہو جیسے خدائی نظام تمہارے کاندھوں کا سہارا لئے ہوئے ہے۔ اقتدار و اختیار کی شمع پر مرمٹنے والو! چشر سے پہلے حشر ہوگا۔ شور محشر سے پہلے رزق اور عدل سے محروم انسان تمہارے محلات پر چڑھ دوڑیں گے"۔
فقیر راحموں بھی میری طرح طالب علم ہی ہے۔ دونوں اسی پر شاداں بھی۔ اظہار اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ اندر کی آگ بجھ نہ پائے تو باہر کے جنگل کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے۔
قرۃ العین طاہرہ نے کہا تھا "جمال کے ہیکل اس کے خلعت کو، پہاڑوں کی چوٹیاں اس کی رفت کو، پُرشکوہ حکومتیں اس کی سطوت کو دیکھ کر کانپ کانپ اٹھتی ہیں اور اپنی جگہ سے ہل گئی ہیں"۔
"مساوات کی طاقت سے ظلم کو دبا دیا جائے تو جہالت علم و فراست کی طاقت سے مٹ جائے گی "۔ طاہرہ نے یوں بھی کہا تھا "دستار کا طرہ کاٹ دیا جائے تاکہ نہ شیخ اپنے منصب پر رہے نہ اس کا مکروفریب"۔
عوام کے حق حکمرانی کی بحالی کے لئے میدان عمل میں کودنا کھیل تھوڑا ہی ہے۔ سیاست کو کاروبار بنالینے والے زمین زادوں کے لئے نہیں اہل خانہ کے لئے سوچتے ہیں نفس امارہ کے اسیر ہزاروں مگر اس سرکش گھوڑے پر کاٹھی ڈالنے والے خال خال دکھتے ہیں۔
جانے دیجئے یہ درمیان میں اڑھائی تین سطریں بس یونہی لکھی گئیں۔ طرفہ نے کہا تھا "قرابت داروں کا ظلم آدھی کے لئے تلوار کی کاٹ سے بڑھ کر باعث اذیت ہوتا ہے"۔ لبید کے بقول "وہ لوگ رخصت ہوگئے جن کے قرب میں جینے کا لطف تھا"۔
لبید نے ہی کہا تھا "اگر میں ہلاک ہوجائوں تو کتنے اس پر خوش ہونے والے ہوں گے اور کتنے یہ کہنے والے بھی ہوں کہ واہ! اس کا کیا کہنا"۔
لبید ہی کے بقول "جس کسی کے وصل میں بگاڑ کی بُو آنے لگے اس سے اپنی حاجت منقطع کرلے۔ بہترین دوستی جوڑنے والا وہی ہے جو (وقت پڑنے پر) اسے توڑنے میں بھی "سبک" ہو"۔
یا پھر طرفہ کے بقول "زمانہ مجھ پر وہ حقائق منکشف کردے گا جو تیرے علم میں نہیں ہیں اور وہ (ہر کارہ) تجھے اطلاعات بہم پہنچائے گا جسے تونے زاد سفر مہیا نہیں کیا"۔
خواجہ غلام فرید نے کچھ یوں مدعا بیان کیا "تیرے درد بھی انوکھے ہیں او دعوے بھی عجب ہیں راہ سلوک کے وظیفے اور دعائیں بھی عجب ہیں۔ رات ہو کہ دن تیرے عجب رنگ دیکھے"۔
"آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ یہ عجیب فلسفہ ہے کئی شکلیں اسے چھپا نہیں سکتیں، اس کی ہستی عجیب ہستی ہے"۔ شاہ حسین کہتے ہیں"طمع اور غرض کے گھاٹ سے دور رہنے والے ہی عبادتوں کی تجارت نہیں کرتے وہ تو بس رضا کے طالب ہوتے ہیں"۔
"جو پیا کو من بھائے وہی قبول نظر ہوتا ہے۔ پیا کے رنگ میں رنگا ہی کامل ہوتا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں دنیا اور خواہشوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے یہ دونوں کسی کے نہیں۔ جس نے ہونا نہیں اس کے لئے سجا سنورا کیوں جائے"۔
بھائو تائو کرتے ہوئوں کو کون سمجھائے حساب زہر گھول دیتا ہے لیکن حلاج (حسین بن منصور حلاج) بھید پاگئے تھے اس لئے کہہ اٹھے "مجھے قتل کردو میرے دوستو کہ میری موت میں تمہاری نجات ہے"۔
یا پھر شاہ حسینؒ ہیں جو کہتے دیکھائی دیتے ہیں"فقر کے دریا میں اترنا بہت مشکل ہے، عقل کو عشق کی کھٹالی میں پگھلانا پڑتا ہے"۔
حاذق (اموی دور کے شاعر) نے کہا تھا "لوگ سمجھتے ہی نہیں مٹی کی چیز مٹی کو ہی جانی ہے"۔
فضیل بن عیاض نے کہا "پتہ نہیں لوگ تکبر پہننا غرور کو اوڑھنا اور حرام پر اترانا کیوں پسند کرتے ہیں"۔
حاذق کے بقول "بھائیوں کا گوشت کھانے کی عادت نے جن کے دہن کا ذائقہ چھین لیا ہو ان سے حلال کے لقمے کی لذت کا پوچھنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے جہل پر اڑے شخص سے دانائی کی توقع"۔
حافظ شیرازیؒ نے کیا خوب کہا "میرے لئے یہی پرہیز گاری کافی ہے کہ میں شہر کے زاہدوں کی طرح منبر پر چڑھ کر جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے تو بے خودی میں ہوش آتا ہے۔ مے خانہ ہی ظرف کے امتحان کی جگہ ہے۔ وعدہ ازل کے بھید کھول دوں گا ذرا دو پیالے تو حلق سے اتارنے دے۔ ہر شخص زمانے سے بہتری بھلائی طلب کررہا ہے مگر میں ہر روز زمانے کو بدتر ہوتا دیکھ رہا ہوں"۔
"اب یہ حال ہوگیاہے کہ بھائی بھائی پر رحم نہیں کرتا۔ بیٹے پر باپ کی شفقت نہیں دیکھتا۔ وفا کرنا اور سچ بولنا ہر کسی کا وصف نہیں۔ جب سے تیری آنکھ کا فتنہ مجھ تک پہنچا میں زمانے کے فتنوں سے بے نیاز ہوگیا ہوں۔ میں تو محبوب کا عاشق ہوں مجھے کفروایمان سے کیا کام؟ درد کے پیاسوں کو وصل اور ہجر سے کیا لینا دینا"۔
حسین بن منصور حلاج نے کہا تھا "محبت کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ دلدار کے پہلو میں کھڑا ہو، اپنے اوصاف ترک کردے اور اس کی صفات سے متصف ہوجا"۔
قرۃ العین طاہرہ نے صدا دی "اگر مجھے تیرے روبرو ہونے کا موقع ملے تو میں غم کو نکتہ بہ نکتہ اور ہوبہو بیان کروں۔ تیرے ہجروفراق میں میری آنکھوں سے دجلہ جلہ، دریا دریا، چشمہ چشمہ اور نہر نہر خوب بہہ رہاہے۔ تیرے دیدار کے لئے ہی باد صبا کی ماند درد اور کوچہ کوچہ پھرتی ہوں"۔
وہ جو لبید نے کہا تھا "انسان سلامتی کی دعائیں کرتا رہتا ہے حالانکہ درازی عمر بسا اوقات اس کے لئے باعث ضرر ہوتی ہے۔ اس کی خوش دلی رخصت ہوجاتی ہے اور شیرنی کی جگہ تلخی لے لیتی ہے"۔
امرائوالقیس نے کہا "میں افق افق بہت سرگرداں رہا حتیٰ کہ حصول کے غنیمت کے بجائے لوٹ کے آجانا ہی مجھے غنیمت لگا"۔ امرائو القیس ہی کہتے ہیں جب انسان خود اپنی زبان پر ہی قابو نہ رکھ سکے تو کسی اور چیز پر کیا خاک قابو رکھ سکے گا "۔
بابا فرید گنج شکرؒ کہتے ہیں"جتنی مرضی خوشبوئیں لگائو اگراندر سے خوشبو نہیں اٹھتی تو کیا فائدہ"۔
کبھی کبھی فقیر راحموں بھی پتے کی بات کردیتا ہے۔ پچھلی شب کہنے لگے شاہ جی! "عصر کے ضمیر میں چھپی سچائی ہی پھانسی گھاٹ پر جھولتی ہے زندگی بس یہی ہے۔ ہاں جو جینے کا فیصلہ کرلیں وہ پھانسی گھاٹ پر جھول کر بھی نہیں مرتے" مجھے شہید سرمدؒ یاد آگئے۔
رخصت ہونے (سرکاٹ دیئے جانے) میں کوئی دم باقی تھا کہ معذرت کے مشورے پر وہ (سرمدؒ) بولے "تو اپنا کام کر تلوار اٹھا اور سر کاٹ دے، دیدار یار میں حائل نہ ہو، اس سے ملاقات کے لئے تو یہاں تک پہنچا ہوں"۔ سرمد کی بات کو عام فہم انداز میں یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ "اسے پانے کے لئے سر کٹوانا مہنگا سودا نہیں"۔
کچھ کچھ اندازہ ہے کہ کالم میں کلام اس سے مختلف ہوتا ہے۔ سہل زبان، عصری سیاست کے چسکے مگر یہی تو سب کچھ نہیں۔ مطالعے اور علم کی دنیا بڑی وسیع ہے۔ اتنی کہ عام فہم لوگ اتنی سی بات نہیں سمجھ پاتے کہ "ملا تو مسجد میں روٹی کے لئے اذان دیتا ہے"۔
اک دانا نے کہا تھا "اپنی نفرت کو برف پر لکھو۔ جب بھی الفت کی دھوپ نکلے گی برف پگھلے گی اور اس کے ساتھ نفرت بھی"۔ جس عہد نفساں میں ہم سب زندہ رہنے پر مجبور ہیں اس میں علم اور محبت کم اور جہل و نفرت زیادہ ہے۔ سوا نیزے پر اترا سورج اپنا خراج خود وصول کرلیتا ہے۔ ہمارے مقدر میں نسل در نسل خراج کی ادائیگی لکھی ہے یا ہماری کاہلی نے اسے ہمارا مقدر بنادیا ہے؟
خواہشوں کے پیچھے بھاگتے دوڑتے زندگی بیتانے کے بیچوں بیچ چند ساعتیں بچاکر کبھی اس پر بھی غور کرلیجئے کہیں ہم کاہلی کے پھل کو مقدر کا نام تو نہیں د یتے پھرتے۔
اور کیا کبھی کہیں کے زمین زادوں نے تہذیب نفس کے بغیر اگلی نسلوں کا مقدر سنوارا ہے؟
اگر جواب نفی میں ہے تو پھر ہمہ قسم کی غلامی کے طوق گردنوں سے اتار کر پھینک دیجئے تاکہ اپنی آئندہ نسلوں کے لئے علم و عمل سے مالامال سماج تشکیل دینے کے خوابوں کی تعبیر حاصل کی جاسکے۔