پیرانِ پیر مخدوم شاہ محمود قریشی
سائفر کیس میں ضمانت کے بعد رہائی کے لئے روبکار ملنے میں امر مانع سپریم کورٹ سے تصدیق شدہ فیصلہ ملنے میں تاخیر تھی تصدیق شدہ فیصلہ ملتے ہی ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے لئے متعلقہ عدالت سے رجوع کیا گیا۔ منگل کے روز خصوصی عدالت کا اہلکار رہائی کی روبکار لے کر اڈیالہ جیل پہنچا مگر اس سے قبل ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی جانب سے مخدوم شاہ محمود قریشی کی 15 دن کے لئے نظربندی کے احکامات جیل پہنچا دیئے گئے۔
آج بدھ کو انہیں رہا کیا گیا تو جیل کے باہر موجود پولیس نے انہیں 9 مئی کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے گرفتاری سے قبل ہلکی پھلکی مزاحمت اور احتجاج کیا۔ پولیس نے "روایتی انداز" میں مخدوم کو "آگے" بڑھایا گاڑی میں بٹھایا اور "لے" گئی۔ ان کی صاحبزادی مہر بانو قریشی نے کہا ہے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ پولیس انہیں کہاں لے گئی ہے۔
پی ٹی آئی کی جیل سے باہر دستیاب قیادت اور سوشل میڈیا پر متحرک کارکنوں و ہمدردوں کا خیال ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں ہونے دینا تو انہیں (عدالتوں) کو بند کردیں۔ چند سختیوں کے باوجود جتنا ریلیف تحریک انصاف کو عدالتوں سے پچھلے برس اپریل کے بعد سے مل رہا ہے اس سے نصف ریلیف کا کوئی دوسری جماعت ماضی میں حقدار نہیں ٹھہری۔
خود تحریک انصاف کے دور میں چند کیسوں میں ضمانت لینے اور ایک کیس میں عدالتی اجازت کے بغیر مریم نواز، حمزہ شہباز کو گرفتار نہ کرنے کے حکم کے بعد تحریک انصاف نے لاہور ہائیکورٹ کو "لوہار" ہائیکورٹ کا نام دیا تھا۔ فقط نام ہی نہیں بلکہ متعلقہ ججوں بارے جو کہا گیا اسے یہاں نقل کرنا ممکن ہی نہیں۔
پچھلے برس کے اپریل کے بعد "بندیال ہم خیال بنچ" سمیت مختلف سطح کی عدالتیں نوازشات میں مصروف ہیں انصاف کی تاریخ میں پہلی بار یہ بھی ہواکہ جج نے کہا ہم 6 بجے تک انتظار کرتے ہیں، بعض ججز نے ساڑھے آٹھ بجے تک ملزم کا انتظار کیا۔ ایک سے زائد فیصلوں میں لکھا گیا کہ آئندہ بھی اگر کوئی مقدمہ درج ہو تو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار نہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے تو ایک گرفتار ملزم کو نہ صرف ریمانڈ کے دوران عدالت میں طلب کیا بلکہ سپریم کورٹ کے مہمان کے طور پر پولیس ریسٹ ہائوس میں ٹھہرانے، من پسند طعام کا بندوبست کرنے اور دوستوں سے ملوانے کا حکم بھی دیا تھا۔ ملکی تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہوا تھا کہ ایک گرفتار ملزم سے ملاقات کے لئے صدر مملکت (عارف علوی) پویس ریسٹ ہائوس اسلام آباد تشریف لے گئے۔
ابھی گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دینے اور بلے کا نشان واپس لینے کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے معطل کردیا۔ الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کوسنگل بنچ نے معطل کیا اور بعض احکامات بھی جاری کئے یہ ایک طرح سے اختیارات سے تجاوز پر مبنی فیصلہ ہے (گو کہ عبوری فیصلہ ہے) اس فیصلے سے قبل متعلقہ جج نے جو ریمارکس دیئے انہیں پڑھ لیجئے صاف لگتا ہے کہ وہ جس کیس کی سماعت کررہے تھے اس کے بارے میں انہیں صرف یہ معلوم تھا کہ یہ کیس تحریک انصاف بنام الیکشن کمیشن ہے۔
جج کے ریمارکس میں چھپے جذبات، اختیارات سے بڑھ کر دیئے گئے فیصلے اور الیکشن کمیشن کو نہ سننے کے عمل پر کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ پی ٹی آئی پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا نشان واپس لینے کے فیصلے پر جو سوال جج نے اٹھایا اس کا سادہ سا جواب ہے وہ یہ کہ ماضی میں کسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست نہیں دی گئی۔
اس امر کا بھی کم از کم مجھے اعتراف ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے قانونی و جماعتی تقاضے، اے این پی، پاکستان ورکرز پارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) والے پورا کرتے ہیں ہماری محبوب پیپلزپارٹی ہو کہ جاتی امرا مسلم لیگ (ن) یا پھر چودھری شجاعت کی ملکتی ق لیگ، ان کے علاوہ بھی رجسٹرڈ سیاسی و مذہبی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن "چٹ منگنی پٹ بیاہ" کے عین مصداق ہوتے ہیں، لیکن ان انتخابات کے خلاف ان جماعتوں کا کوئی کارکن یا باغی کارکن الیکشن کمیشن نہیں گیا۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے جس بانی رکن اکبر ایس بابر کی درخواست پر انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے "بلے" کا انتخابی نشان واپس لیا وہ اپنی رکنیت ختم کئے جانے کے پارٹی فیصلے کے خلاف عدالتی فیصلے کو بطور سند پیش کرتے ہیں۔ نچلی سطح کی دو عدالتوں کے اس فیصلے کو تحریک انصاف نے بالائی عدالتوں میں کبھی چیلنج نہیں کیا۔
معاف کیجئے گا پس منظر، عدالتی لاڈوں اور ریلیف کی تفصیل قدرے طویل ہوگئی جبکہ مجھے یہ کالم اپنے ملتانی پیرانِ پیر مخدوم شاہ محمود قریشی کے ساتھ بدھ کو اڈیالہ جیل کے باہر ہوئے سلوک اور ان کی 9 مئی کے ایک مقدمے میں گرفتاری پر لکھنا ہے۔
میری زنبیل میں مخدوم صاحب کے لئے کوئی طعنہ نہیں ہے نہ ان کے خاندان کے قدیم ماضی پر بات کرنا ہے۔ یہاں جو لوگ (مجھ سمیت) بعض بڑے خاندانوں کو سینکڑوں برس کے درباری پن، انگریزکی چاکری اور پھر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ساجھے داری کے طعنے مارتے ہیں ہم سب کے خاندان کسی نہ کسی طرح اور وقت میں ان خاندانوں کی طاقت و اختیارات اور سفارشوں کے بینیفشری رہے ہیں۔
خود میں نے ایک معاملے میں چند برس قبل ایک دوست کے ذریعے مخدوم شاہ محمود قریشی سے خیبر پختونخوا کے اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو سفارش کرانا چاہی تھی میرے دوست نے مخدوم صاحب سے بات کی انہوں نے "ٹال" دیا۔ اس کی ایک دلچسپ وجہ یہ ہے کہ وہ میرے بعض کالموں کی وجہ سے مجھے "وہابی" سمجھتے تھے۔
خیر اس قصے کو اٹھا رکھئے۔ مخدوم صاحب کے ساتھ بدھ کو اڈیالہ جیل کے باہر جو ہوا وہ درست نہیں ہوا البتہ جنوبی ایشیاء میں سلسلۂ سہروردیہ کے سب سے بڑے پیر کو یہ ضرور احساس ہوگیا ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کی دوستی اچھی نہ دشمنی۔
مجھے اسٹیبلشمنٹ پر بھی ہزارہا فیصد افسوس ہے کہ وہ اس شخص کو "رول" رہی ہے جس نے ماضی میں جنرل شجاع پاشا کی ایک ٹیلیفون کال پر پیپلزپارٹی کو ریمنڈ ڈیوس والے معاملے میں"لات" رسید کرکے پارٹی چھوڑ دی تھی۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ جب اسی ریمنڈ ڈیوس کو خودجنرل شجاع پاشا لاہور کی عدالت سے اپنی گاڑی میں ایئرپورٹ پر کھڑے خصوصی طیارے کی سیڑھیوں تک لے کر گئے میرے ملتانی پیرانِ پیر کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آئی ایس آئی چیف نے انہیں استعمال کرکے پھینک دیا ہے بلکہ بعد ازاں وہ اسی شجاع پاشا کے کہنے پر تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔
قبل ازیں وہ انجمن غوثیہ کو سندھ میں پیپلزپارٹی کے مقابلے کی جماعت کے طورپر پیش کرنے کے لئے سرگرم بھی رہے۔
مخدوم صاحب کے ساتھ جو ہورہا ہے اس پر مجھے افسوس ہے کچھ بھی ہو وہ میرے ملتانی بھائی ہیں اپنا شہر دار کتنا عزیز ہوتا ہے اس کا اندازہ ہماری نسل کے لوگ زیادہ بہتر کرسکتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں مخدوم شاہ محمود قریشی کو مستقبل کے لئے "تیار" کیا جارہا ہے۔ آگ لگے ایسی تیاریوں کو جس میں پولیس والے دھکے دیتے ہوئے مخدوم صاحب کو گاڑی میں بٹھائیں۔
مجھے امید ہے کہ مخدوم صاحب آجکل یہ گنگناتے ہوں گے
"غیروں پہ کرم اپنوں پے ستم۔
اے اسٹیبلشمنٹ تیرا کوئی حال نہیں"
فقیر راحموں مجھے کہہ رہا ہے کہ جب پرویز مشرف کے دور میں مخدوم جاوید ہاشمی پر ظلم ہورہا تھا اس وقت تو تم ایسے نہیں تڑپتے تھے جیسے مخدوم شاہ محمود قریشی کے لئے تڑپ رہے ہو۔ میں فسادی طبیعت والے اس "شخص" کی چالاکی سمجھ رہا ہوں اس لئے جواب نہیں دے رہا۔
ضرورت بھی نہیں اس جیسے لوگ صرف فساد کرانا جانتے ہیں۔ ہم مخدوم شاہ محمود قریشی کی بات کررہے تھے۔ وہ آجکل تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین ہیں۔
ان کا ناپسندیدہ ترین شخص لطیف کھوسہ اسی جماعت کا تازہ تازہ سینئر نائب صدر نامزد کیا گیا ہے اور وہ دعویدار ہے کہ عمران خان کے بعد پارٹی میں، میں سب سے سینئر عہدیدار ہوں۔ گو یہ تحریک انصاف کا اندرونی معاملہ ہے لیکن کیا مخدوم صاحب کو نہیں لگتا کہ ان کے پرانے "دوستوں" نے اپنا "تازہ دم" بندہ تحریک انصاف میں بھرتی کروادیا ہے؟