نہ چھیڑ ملنگاں نوں (2)

پیکا ایکٹ اور پیپلزپارٹی پر بات ابھی ادھوری ہے گزشتہ کالم میں کچھ معروضات پیش کی تھیں۔ پیپلزپارٹی کے دوستوں سے ایک سادہ سا سوال ہے، سوال کرنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے بند گلی میں "جمود" کی سیاست کا قائل نہیں سیاست کھلے میدانوں میں لوگوں کے درمیان ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جن جماعتوں (مذہبی و سیاسی) کے میڈیا منیجر بنے صحافیوں نے ذوالفقار علی بھٹو، ان کی مرحومہ والدہ اور بیگم نصرت بھٹو کی کردار کشی کی اور ان جماعتوں نے عملی طور پر بھٹو کی پھانسی میں معاونت کی ان سے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف ایم آر ڈی نامی سیایس اتحاد میں بیٹھنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟
ان سطور میں پی پی پی کی ایم آر ڈی میں شمولیت کے حوالے سے سردار شیرباز خان مزاری کی قیام گاہ پر محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ان کا موقف ایک سے زائد بار لکھ چکا ہوں۔
باردیگر مختضراً عرض ہے۔ انہوں (بیگم نصرت بھٹو) نے جواب میں کہا
"ماضی کو بھول کر جمہوریت کے لئے آگے بڑھنا ازبس ضروری ہے پیپلزپارٹی سیاست میں ذاتی دشمنیوں کی قائل نہیں ہم ملک میں جمہوریت کی بحالی چاہتے ہیں اس جدوجہد میں جو بھی ساتھ دے بسروچشم"۔
گزشتہ کالم میں چند واقعات کا حوالہ اس لئے دیا تھا کہ ہمارے لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہے اور ان کا گمان یہ ہے کہ سب کی یادداشت ایسی ہی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے بڑے حصے نے جو روز اول سے رجعت پسندوں کے زیراثر ہے پیپلزپارٹی کے قیام سے آج تک اس سے صحافتی انصاف نہیں کیا ہم اگر 1960ء کی دہائی کے آخری برسوں یا 1970ء کی دہائی کی باتیں لے بیٹھیں تو کالم کی کئی اقساط بن جائیں گی۔
سو ہم جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم سے بات شروع کرلیتے ہیں۔ اس سیاہ دور میں فوجی آمر کو نجات دہندہ بناکر پیش کرنے ولے صحافیوں نے وہ کون سا الزام تھا جو بھٹو پر نہیں لگایا۔ پی ٹی وی (اس وقت واحد اور سرکاری چینل تھا) پر جو جعلی ظلم کی داستانیں چلائی گئیں ان داستانوں کو لکھنے والوں میں ایک روایت کے مطابق عبدالقادر حسن، زیڈ اے سلہری، مجیب الرحمن شامی، مصطفی صادق ضیا شاید اور دوسرے بہت سارے لوگ شامل تھے، خود فوجی حکومت کا محترمہ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو سے جو غیرانسانی برتائو تھا اس کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی کتاب "دختر مشرق" میں کیا۔ یہ کتاب تاریخ و سیاست کے ہر طالب علم کو پڑھنی چاہیے۔
عورت کی غیرشرعی حکمرانی پر شرعی بحثیں اٹھانے والے دینی رہنمائوں نے اپنی تنقید میں جو زبان استعمال کی ویسی زبان بازارِ حُسن کی کسبیاں بھی نہیں استعمال کرتیں
کیا کریں یہ ایسا ملک ہے جہاں گالی کے لئے بھی تقدس بھرا جواز پیش کیا گیا اور سامعین نے لبیک یا رسول اللہ ﷺ کے فلک شگاف نعرے لگائے
1988 میں بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد نے جنرل حمید گل کی رہنمائی میں پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کے بارے میں کیا کیا نہیں اچھالا۔ یہاں اب کس کو یاد ہے کہ جاتی امرا میں خاندانی میراثی کا درجہ رکھنے والے کالم نگار وزیر آبادی استرے نے عورت کی غیرشرعی حکمرانی کے حوالے سے جو کالم لکھا تھا اس میں کرہ ارض کی غلاظت بھردی تھی۔
کسی کو یاد ہے کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو کی آصف زرداری سے شادی ہوئی تو اس کے ایک یا دو دن بعد مولوی سلیم اللہ خان (جامعہ فاروقیہ کراچی والے) کی تنظیم کی جانب سے روزنامہ "جنگ" کے تمام ایڈیشنوں میں چوتھائی صفحہ کا ایک رنگین اشتہار شائع ہوا جس میں عوام سے کہا گیا "بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کا نکاح فقہ جعفریہ کے تحت ہوا ہے سواد اعظم اہلسنت جو اس ملک کی اکثریت ہیں وہ پیپلزپارٹی سے دور رہیں"۔
اگست 1990ء میں پی پی پی حکومت کے خاتمے پر بننے والی نگران حکومت کے وزیراعظم رئیس غلام مصطفیٰ جتوئی تھے اس نگران حکومت کے دور میں سیاسی جماعتوں کی پی ٹی وی پر انتخابی کوریج کی ویڈیوز میں جب بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی کوئی تقریر یا بیان نشر ہوتے پی ٹی وی کی سکرین پر سب سے پہلے بلاول ہائوس کراچی پر نصب علم حضرت عباس علمدارؑ دیکھایا جاتا۔
یہ ہتھکنڈہ جنرل حمید گل کے گٹر نما دماغ نے آگے بڑھایا تھا مقصد کیا تھا لکھنے کی ضرورت نہیں۔
1988ء سے اکتوبر 1999ء کے درمیانی گیارہ برسوں میں پی پی پی دوبار آئی جے آئی ایک بار اور ایک بار مسلم لیگ (ن) (آئی جے آئی اور (ن) لیگ کے وزیراعظم میاں نوازشریف ہی تھے) نے حکومت کی اس عرصے میں آئی جے آئی اور مسلم لیگ (ن) کے ہم خیال صحافیوں نے محترمہ بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کے خلاف ہر وہ بات کہی لکھی جو نامناسب ہی نہیں شرمناک حد تک قابلِ مذمت تھی۔
زرداری مسٹر ٹن پرسنٹ مشہور ہوئے۔ سرتسلیم خم اہل صحافت کے بڑے نہیں ایک محدود طبقے نے جو پی پی پی مخالف (ن) لیگ کے پے رول پر تھا یا ایجنسیوں کے انہوں نے غلاظت ہی غلاظت پھیلائی۔ یہ سلسلہ جاری ہے لیکن کیا یہ کام صحافیوں نے اپنے میڈیا مالکان کی مرضی کے بغیر کئے؟
بہت سارے تحفظات کے باوجود میں اب بھی یہ کہتا ہوں کہ دس فیصد کے قریب میڈیا منیجروں چٹی دلالوں، ایجنسیوں کے ہرکاروں، پراپرٹی ڈیلروں اور مالکان کے ٹائوٹوں کے کرداروعمل کی بنیاد پر 90 فیصد قلم مزدوروں کو گالی دی جانی چاہیے نہ ہی انہیں 10 فیصد کے ساتھ رگڑا دینا چاہیے۔
ویسے آپس کی بات ہے شرجیل میمن پر سندھ کے سرکاری اشتہارات کی ایڈوانس پیمنٹ کا نیب نے جو کیس بنایا تھا کبھی اس کی دستاویزات نکلواکر دیکھ لیجئے کہ اس اربوں کی پیشگی ادائیگی میں سب سے زیادہ رقم اس میڈیا ہائوس کو ادا ہوئی جس نے زرداری کو سب سے پہلے مسٹر ٹن پرسنٹ لکھا۔ دوسرے نمبر پر اکبر اور مجیب الرحمن شامی رہے۔
پہلے نمبر پر رہنے و الے میڈیا ہائوس کو سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی کے 2008ء کے دور میں انکم ٹیکس تنازع میں حکم امتناعی پلیٹ میں سجاکر دیا تھا۔
ہمارے ایک صحافی دوست نے ایک دن کہا "شاہ جی تمہیں پتہ ہے لاہو کا بلاول ہائوس ملک ریاض کی زکوٰۃ پر بنا ہے؟ اس معاملے کی تفصیل ان کے سامنے رکھتے ہوئے عرض کیا اپنے ا، خبار کے مالک کی وفاداری میں اس حد تک گرنے کی ضرورت نہیں و یسے معلوم کرلیجئے کہ آپ کے تازہ محبوب کا زمان پارک والا نیا گھر کیسے اور کس نے بنایا؟ ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی۔
ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ کسی بھی سکیورٹی اسٹیٹ میں ریاست کے دست بازو دائیں بازو کے طبقات اور میڈیا مالکان ہوتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جب صحافی دنیاوی مراعات کو حق سمجھ کر وصول پانا شروع کردے تو عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے۔
پچھلے کم از کم تیس برسوں کے دوران ملک کی تین بڑی خفیہ ایجنسیوں نے درجنوں تحقیقاتی صحافی " تخلیق " کئے یہ وہ لوگ تھے جو ہمیں بتاتے تھے سیاستدان چور ہیں فوج نہ ہوتی تو یہ لوگ ملک کو بیچ کر کھاگئے ہوتے پھر یہ سارے تحقیقاتی صحافی ایک غول کی صورت میں آر ٹی ایس سسٹم بیٹھانے والوں نے تحریک انصاف کو جہیز میں دے دیئے۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ جس طرح اس ملک سے سیاسی ورکرکے کلچر کا خاتمہ کیا گیا بالکل اسی طرح نظریاتی صحافت یا یوں کہہ لیجئے پیشہ ورانہ دیانتداری کا بھی جلوس نکلوایا گیا۔
پولیس ٹائوٹ ایجنسیوں کے مخبراور چٹی دلال اخبارات و ٹی وی چینلوں پر لابیٹھائے گئے۔ ظاہر ہے انہوں نے وہی کرنا تھا جس کے لئے "راتب" ڈالا جاتا تھا۔
چند برس ادھر (نومبر 2014 میں ) کچھ سندھی دوستوں نے جن کا تعلق پی پی پی سے تھا حیدر آباد میں ایک محفل میں پی پی پی کے خلاف جاری "میڈیا گیری" پر سوالات کئے سید ناصر حسین شاہ بھی اس محفل میں موجود تھے میں نے عرض کیا "اگر ہم بالفرض یہ سمجھ لیں کہ پی پی پی کی سندھ حکومت ایک سال میں میڈیا کو (اخبارات اور چینلز) 5 ارب روپے کے اشتہارات دیتی ہے تو پھر اپنے خلاف پروپیگنڈے کے جواب میں اشتہارات بند کرنے کی بجائے یہ سوال اٹھائے کہ ہمارے جن مخالفین کو آپ جو وقت دیتے ہیں مقابلتاً اتنا وقت پی پی پی کو کیوں نہیں دیتے؟"
یہ سوال آج بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ اس وقت صحافت کے شعبہ میں عمومی صورتحال متوازن ہرگز نہیں بلکہ یہ کبھی بھی نہیں تھی۔ آزادی اظہار کا حقیقی مطلب مالکان کے مفادات ہیں اور ریاست کے مقاصد باقی سب جھوٹ ہے۔
آپ دستیاب صحافتی تنظیموں کے عہدیداران کو دیکھ لیجئے۔ آج پی ایف یو جے کے مقابلے میں پریس کلبوں کی سیاست زیادہ مضبوط و مقبول ہے کبھی کسی نے سوال اٹھا کہ پریس کلب کا دائرہ کار کیا ہے اور یونین پی ایف جے یو کا کیا؟ ملک کا ایک بڑا نظریاتی اخبار عشروں تک ہمیں بتاتا رہا "افغان باقی کوہسار باقی یہی اللہ کا حکم ہے اور فیصلہ" ہمارے قومی ہیرو وہ حملہ آور ہیں جنہوں نے ہوس ملک گیری میں یہاں قتال کیا لوٹ مار کی اور ہم اس لوٹ مار اور قتال کو مذہبی تقدس کی چادر اوڑھائے ناقدین کو گالیاں دیتے ہیں۔
میں جب یہ کہتا ہوں کہ ہم ا یسے محنت کش صحافیوں کو توقع تھی کہ پیپلزپارٹی پیکا ایکٹ کے حوالے سے صحافیوں کی آراء کو بھی حکومت کے سامنے رکھے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ٹائوٹوں، مخبروں، ایجنسیوں کے سدھائے ہوئوں یا پراپرٹی ڈیلرز کا موقف۔ بلکہ ان کا جو شعبہ صحافت میں 90 فیصد ہیں وہی خاموش اکثریت جیسی سیاست میں ہوتی ہے۔