Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Haider Javed Syed
  3. Mutalea Kyun Zaroori Hai?

Mutalea Kyun Zaroori Hai?

مطالعہ کیوں ضروری ہے؟

عزیزم توقیر ساجد کھرل نے مطالعہ کی اہمیت پر ایک مختصر تحریر میں ہم عصروں اور دوستوں کو مشورہ دیا کہ مطالعہ کی عادت اپنائیں۔ روزانہ کی بنیاد پر 10 صفحات کے مطالعے سے آغاز کریں پھر بڑھاتے چلے جائیں۔ ان کے مطابق اگر آپ 50 صفحات روزانہ پڑھتے ہیں تو پھر 4 سے 6 دن میں (صفحات کی تعداد کے حساب سے) ایک کتاب پڑھ لیں گے۔

توقیر نے اس طور سال بھر میں پڑھی جانے والی کتابوں کا حساب بھی لکھا ہے۔

ہمارا یہ تلمبوی عزیز خود بھی مطالعہ کا رسیا ہے۔ دو عدد کتابوں کا مصنف و مرتب بھی۔ صحافت کے شعبہ میں ہے۔ کبھی کبھی اندر کا انقلابی بھی چین نہیں لینے دیتا۔ رواں برس کے آخری ایام میں اپنے پڑھنے والوں، ہم عصروں اور دوستوں کو اس نے ایک مناسب بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ بہت ہی مناسب مشورہ دیا۔

کتاب بینی کم ہوتی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ میں"یہ آخری صدی ہے کتابوں کی" والی ڈھمکیری کا قائل نہیں ہوں۔ کتاب شائع ہوتی ہے اور فروخت بھی۔ البتہ یہ دکھ اپنی جگہ ہے کہ 25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں کتاب 500 سے 1000کی تعداد میں شائع ہوتی ہے اب تو 2 سے 3 سو بھی شائع ہونے لگی ہیں۔

ہمارے ہاں سب سے زیادہ مذہبی کتابیں فروحت ہوتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر چسکوں بھری کتب، چسکوں بھری کتب وہ ہوتی ہیں جن میں دوسروں کے مذہبی عقائد کا تمسخر اڑاتے ہوئے خود کو یعنی مصنف کے عقیدے کو جنتی "بوٹا" قرار دیا جائے۔ بس اس "بوٹے" کا پھل جس نے کھایا وہ جنتی ہوا۔

علمی، ادبی، سیاسی، تاریخی، فلسفیانہ مباحث کی کتب قدرے کم فروخت ہوتی ہیں۔ کسی زمانے میں رضیہ بٹ۔ بشریٰ رحمن اور مینا ناز کے ناول دھڑا دھڑ فروخت ہوا کرتے تھے آجکل بھی مذہبی ٹچ والے ناول خاصے فروخت ہوتے ہیں جیسا کہ عمیرا احمد کے ناول ان کی طرح کے کچھ اور بھی مصنفین ہیں جو اپنی تحریروں کو مذہبی تڑکے ضرور لگاتے ہیں۔

وجہ وہی ہے جو بزرگ کہتے تھے "بندہ پیدا پاکستان میں ہوتا ہے جینا یورپ میں چاہتا ہے اور تدفین مدینہ منورہ کے قبرستان میں"۔

سادہ سی بات یہ ہے کہ خود نہیں بدلنا جگہ بدل لینی ہے۔

خیر چھوڑیں ہم مطالعے کی باتیں کررہے تھے۔ مطالعہ اچھی بہت اچھی چیز بلکہ عادت ہے بہت ساری قباحتوں سے آدمی بچا رہتا ہے۔

رواں برس کے دوران میں نے تقریباً 100 کتابیں حاصل کیں ان میں سے 65 ابتری کے باوجود خریدیں اور 35 کے قریب دوستوں نے عنایت کیں۔ ان کتب میں سوانح عمریاں، شاعری، مذہب، ناول، افسانوی مجموعے اور دوسری کتابیں شامل ہیں ان میں سے 81 کتابیں طالب علم نے پڑھ لیں 19 ابھی پڑھنی ہیں۔ حساب یہ ہوا کہ اوسطاً 9 کتابیں ہر ماہ حاصل کیں۔ (4 کتابوں کا ایک آرڈر امید ہے کہ کل تک مجھے مل جائے گا اس طرح رواں برس منگوائی گئی کتب کی کُل تعداد 104 ہوجائے گی)۔

میں لگ بھگ نصف صدی سے باقاعدہ مطالعہ کررہا ہوں آپ میرے مطالعہ کو ضرورت، شوق اور مجبوری تینوں اقسام میں شامل کرسکتے ہیں اس نصف صدی کے دوران مجھے شوکت صدیقی مرحوم کے ناول "جانگلوس" نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔

تین جلدوں میں طبع شدہ یہ ناول میں نے لگ بھگ 10 بار پڑھا۔ دسویں بار دو ماہ قبل پڑھا ہے۔ جانگلوس میں نے جب بھی پڑھا ایک نشست میں تینوں جلدیں پڑھیں دوسرا جو ناول مجھے پسند آیا بالخصوص ایک نشست میں پڑھنے کے لئے وہ قمر اجنالوی کا ناول "چاہِ بابل" ہے۔

ماضی میں یہ ناول میں نے دوبار ایک لائبریری سے کرائے پر حاصل کرکے پڑھا۔ 1996ء میں خریدا بھی تھا پھر رزق سے بندھی ہجرتوں میں کہیں گم ہوگیا گزشتہ دنوں برادر عزیز بلال حسن بھٹی کے آن لائن ادارے "بک ہٹ" کے توسط سے دو دوسری کتابوں کے ساتھ "چاہِ بابل" بھی منگوالیا۔

ناول ملتے ہی ہفتہ بھر میں اسے دوبار پڑھا۔ قمر اجنالوی بھی ان مصنفین میں سے ہیں جن کی تحریر پڑھنے والے کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے۔

یہاں ایک دلچسپ بات عرض کروں وہ یہ کہ گزشتہ کم از کم چالیس برسوں سے میں دوستوں سے کہتا تھا کہ شوکت صدیقی صاحب کا ناول "جانگلوس" ضرور پڑھو، "ضرور پڑھو"۔ اس بارے اپنی پسندیدگی کی وجہ بھی عرض کرتا رواں برس میرے ایک عزیز سید زوہیب حسن بخاری نے طالب علم کے متوجہ کرنے پر "جانگلوس" خریدا وہ غالباً پہلی جلد پڑھ چکے۔

اب مسئلہ یہ ہوا کہ دو ماہ قبل جب میں دسویں بار "جانگلوس" پڑھ رہا تھا تو چار عشروں سے اس ناول بارے قائم میری رائے میں یکسر تبدیلی در آئی۔ پچھلے دنوں ایک نشست میں زوہیب حسن بخاری سے اپنی اس رائے کی تبدیلی پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ان کا کہنا یہ تھا کہ میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھوں۔

روزگار کے غم اور روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی قلم مزدوری ہر دو میں سے وقت نہیں مل پارہا۔ یہ احساس بھی ممکن ہے کہ رہا ہو کہ میں نقاد نہیں طالب علم ہوں۔ ایسا ہے تو بھی ایک طالب علم کو اپنی رائے رکھنے، اظہار کرنے اور رائے سے رجوع کرنے کا پورا پورا حق ہے۔

مثال کے طور پر میں برسوں تک سعید احمد دعلوی کی کتاب "مذہب اور باطنی تعلیم" فاطمہ کی کتاب "حشیشن" اور عبدالعلیم شرر کے ناول "فردوسِ بریں" کا اسیر رہا۔

سعید احمد دہلوی کی تحقیقی محنت کا اب بھی معترف ہوں البتہ ان کی کتاب کے اس حصہ سے عدم اتفاق نے جنم لیا جس میں انہوں نے حسن بن صبا کے "قلعہ الموت" اور اس کے فدائین بارے جو تفصیل لکھی اس سے اگلے برسوں کے مطالعے نے عدم اتفاق کی جانب رہنمائی کی۔

ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے لگتا ہے کہ برصغیر کے مصنفین بالخصوص سعید احمد دہلوی جیسا آزاد منش انسان بھی حسن بن صباح بارے موجود فرقہ وارانہ متھ سے محفوظ نہیں رہ سکا۔

فاطمہ کی کتاب "حشیشن" ہو یا عبدالعلیم شرر کا ناول "فردوسِ بریں" ان میں حسن بن صباح اور اس کی تحریک بارے حقائق مسخ کرکے بیان کئے گئے۔ شرر کا "فردوس بریں" تو چلیں ناول ہے لیکن ناول میں کمی بیشی اور فرقہ پرستوں کی رام کہانیوں کے اثرات قبول کرنا عجیب نہیں لگتا؟

معاف کیجئے گا بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ کالم کا موضوع "مطالعہ" ہے۔ مطالعہ کم از کم مجھے معاشرے میں زندگی کی خوبصورت سچائیوں میں سے ایک سچائی لگتا ہے۔

کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ وارثِ علم ہونے کے مدعی مسلمان اور خصوصاً پاک و ہند کے مسلمان مطالعہ سے کیوں بھاگتے ہیں۔ فقیر راحموں کہتا ہے کہ مطالعہ سوال کرنے کی جس اخلاقی جرات کو پروان چڑھاتاہے اس سے صدیوں کی متھیں، تعصبات اور انھدیر نگری تینوں روندے جاتے ہیں۔

ہمیشہ اس طرح کی باتیں سن کر مجھے یاد آتا ہے کہ سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا تھا "غربت علم کا راستہ نہیں روک سکتی"۔

ایک دن ہمارے استاد مکرم سید عالی رضوی مرحوم نے کہا "صاحبزادے یہاں غربت سے مراد دنیاوی غربت ہے ذہنی غربت نہیں"۔

عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ مطالعہ بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ 10 صفحات روزانہ پڑھتے ہیں تو یہ ایک ماہ میں 300 صفحات ہوئے اور سال بھر میں 3600 صفحات۔ ہمارے اکثر نوجوان دوست شکوہ کرتے ہیں کہ کتابوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔

میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ دو تین دوست مل کر کتاب خریدیں باری باری اسے پڑھیں پھر کتاب کے موضوع پر ماحاصل کی روشنی میں گفتگو اٹھائیں اس سے ایک تو پڑھی گئی کتاب کے اہم نکات یادداشت کا حصہ بن جائیں گے دوسرا یہ کہ مزید کتابیں خریدنے کی خواہش جنم لے گی۔

میرے وہ نوجوان دوست جو ہم جولیوں کے ساتھ ہوٹلنگ وغیرہ کے شوقین ہیں وہ اگر مہینے بھر میں دوبار ہوٹلنگ کرتے ہیں تو ایک بار ہوٹل میں محفل جمائیں ایک بار کے پیسوں کی کتابیں خریدیں۔

ویسے ہمارا سماج بھی عجیب و غریب ہے کسی دن آپ شاپنگ سنٹروں اور بازاروں میں خریداروں کی دھکم پیل دیکھیں کپڑوں اور جوتیوں کے علاوہ دیگر ضروریات کے حوالے سے پسندیدہ برانڈز ہیں، مگر اسکے مقابلہ میں کتابوں سے دلچسپی بہت کم ہے۔

بالائی سطور میں عرض کرچکا 25 کروڑ کی آبادی والے سماج میں 500 سے 1000 تک کتاب کی اشاعت لائق تحسین ہرگز نہیں۔ وہ مصنف اور کتاب دونوں خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی کتاب کا دوسرا ایڈیشن پبلشر "بتا" کر شائع کرے خیر چھوڑیئے یہ ایک الگ موضوع ہے پبلشروں کی وارداتوں والا۔

آدمی کو پڑھنا چاہیے بلکہ پڑھتے رہنا چاہیے۔ اخبارات سے مطالعہ کا آغاز کیجئے وقت ملے تو کسی اردو انگریزی اخبار کا اداریہ اورشائع شدہ ایک دو کالم ضرور پڑھیں۔

ٹی وی چینلروں کے ٹکروں اور اخباری سرخیوں سے آپ حالات کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ٹکر اور سرخیاں دونوں کمرشل ازم کے سودے اور میڈیا منیجمنٹ کے کاروبار کے فروغ کا حصہ ہیں (مزید باتیں پھر کبھی سہی)۔۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo