کیا ہم اکٹھا رہ سکتے ہیں؟

ہمیں (یعنی ہم سب کو) کھلے دل سے تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم اخلاق باختگی کی معراج "پا" چکے ہیں۔ وہ دن ہوا ہوئے جب دشمن گھر کی خواتین کے لئے آنکھوں میں حیا، دل میں احترام اور الفاظ کے چنائو میں احتیاط واجب ہوا کرتے تھے اب تو واجب و سنت کے رولے اتنے ہیں کہ سمجھ میں بھی کچھ نہیں آرہا۔
برادر عزیز محمد عامر حسینی نے طالب علم کے گزشتہ کالم "نرم" ریاست سے "گرم" ریاست تک۔ کو ایک خصوصی نوٹ کے ساتھ اپنی فیس بک وال پر شیئر کیا وہ گاہے اس طرح کی نوازش کرتے رہتے ہیں ان کی بدولت پڑھنے والوں کا حلقہ وسیع ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کالم پر جو نوٹ تحریر کیا اس میں ذکرِ امام علیؑ ہے ذکر اور فہم کی پوری دعوت کے ساتھ۔ آج کا کالم لکھتے ہوئے جناب سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالبؑ کا یہ ارشاد گرامی دستک دے رہا ہے "کلام کرو تاکہ پہچانے جائو"۔ نہج البلاغہ میں ہی ایک اور جگہ یہی ارشاد کچھ یوں بھی ہے "انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے"۔
میرا جی چاہتا ہے کہ مرشدوں کے مرشد اعلیٰ امام علیؑ کے حرم (خانقاہ) تک رسائی ہو اور ان کی خدمت میں عرض کروں۔
آقائے من! میں تو آدمیوں کے جنگل میں جی بس رہا ہو۔ انسان ملتے ہیں تو ان تک آپ کا ارشاد پہنچاتا ہوں کہ "انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے"۔
ہمارے چار اور جو ہورہا ہے اسے نرم سے نرم الفاظ میں بچے کھچے سماج کے کریا کرم کی تیاری سمجھ لیجئے۔ فقیر راحموں کہتا ہے "شاہ جی بنجر دہنوں میں شہد بھرے الفاظ کی فصل کاشت نہیں ہوتی"۔ آپ کا پتہ نہیں میں فقیر راحموں سے متفق ہوں۔
یہ طالب علم گو عشروں سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا آرہا ہے "صاحبو! بٹوارے کے خونی کھیتوں میں گلاب نہیں اُگتے"۔
سچ یہ ہے کہ عوام کی حاکمیت سے محروم ریاست میں عوام نہیں رعایا ہوتی ہے۔ میں ہوں کہ آپ۔ ہم رعایا ہی ہیں۔ چار اور آدمیوں کا جنگل ہے۔ یہی ریاست، سرمایہ دار، بالادست سامراج مزاج اقتدار پرست طبقات کو وارے کھاتا ہے۔
انسانی سماج میں غور و فکر ہوتا ہے۔ سوال اچھالے جاتے ہیں۔ مکالمے سے رونق لگتی ہے۔ مکالمے کی طاقت سے جہل کے گھٹاٹوپ اندھیرے کٹتے ہیں۔
ہمارے ہاں پچھلے چھہتر ستتر برس سے جہالت کا راج ہے۔ بندروں کے ہاتھوں میں استرا ہے وہ اچھل کود رہے ہیں۔ مسائل کا سورج سوا نیزے سے کچھ نیچے ہے۔ عوام کی حاکمیتِ کُلی کے راستے میں پہلے چھوٹے موٹے نالے بصورت ڈیفنس آف پاکستان رولز ہوا کرتے تھے اب تو مالکان نے ساجھے داروں کے تعاون سے حضرت پیکا ایکٹ مدظلہ کی دیوارِ چین کھڑی کردی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصی و خاندانی کمپنیاں ہیں مذہبی جماعتوں کے نام پر فرقہ پرستوں کے ہجوم۔ ان رنگ برنگے ہجوموں کا حق اپنا اپنا ہے۔ ہر حق کا باطل اپنا۔
ایک دن ہم نے ایک دوست سے کہا "حق و باطل کا جو معیار فرقہ پرست دکانوں پر فروخت ہورہا ہے اسے اگر گرائنڈ کرکے دیکھا جائے حق تلاش کرنے سے نہیں ملے گا"۔
دوست بولے میں تمہاری طرح شوق شہادت ہرگز نہیں پالتا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ شکر ہے آئی گئی ہوئی ورنہ وہ فتوے کے نیزے ہمارے سینے میں چھید بھی کرسکتے تھے۔
معاف کیجئے گا اب تک کی بالائی سطور کچھ خشک خشک سی ہیں۔ رمضان المبارک میں چسکے دار سطور لکھنے سے روزہ متاثر ہوتا ہے ہمارا تو روز ہی متاثر رہتا ہے۔ چلیں مطلب کی بات کرتے ہیں۔
مجھ طالب علم کو سندھی سماج و دانش کے آفتاب شیخ ایاز مرحوم پسند ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں مجھے دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا "قومی تشخص کا فخر بری بات ہرگز نہیں بری بات یہ ہے کہ آپ اپنے فخر کو حق ثابت کرنے کے لئے دوسرے کے قومی تشخص کو منہ بھر کے گالی دیں"۔ شیخ ایاز نے ہی ایک سوال کے جواب میں کہا تھا "اپنے قومی وجود کی تاریخی حقانیت ثابت کرنے کے لئے دوسروں کی تاریخ سے انکار کرنے والے مجاور ہوتے ہیں آدمی نہیں۔ طالب علم نے عرض کیا، شیخ صاحب آدمی کیوں انسان کیوں نہیں؟ انہوں نے رسان سے کہا آدمی ہوگا تو انسان بننے کی جستجو کرے گا"۔
آپ چار اور نگاہیں دوڑاکر دیکھ لیجئے یہ ریاست، اس کے ساجھے دار طبقات، شخصی و خاندانی سیاسی جماعتیں، فرقہ پرست ہجوموں کے مالکان یہ سب ہمیں رعایا رکھنے کے لئے اندر کھاتے متحد ہیں یعنی
"وچوں وچوں کھائی جاتے اتوں رولے پائی جا"۔
ہمارے ہاں قومیتی سوال پر بات کرنا جرم ہے ایک سے زائد بار ان سطور میں عرض کرچکا ہوں اس ریاست کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ چار اور کی سچائیوں پر یک قومی نظریہ کی لاٹھیاں برسائے جارہی ہے۔ اب لاٹھیوں کی جگہ بندوقوں نے لے لی ہے۔
ہمارے ہاں کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ غیر متوازن نظام کی وجہ سے فیڈریشن کی بنیادیں لرز رہی ہیں۔ حب الوطنی کا جوشاندہ فروخت کرنے والوں کو نجانے کب عقل آئے گی کہ "حب الوطنی جوشاندہ" آئوٹ آف ڈیٹ ہوچکا۔
ریاستیں بندوقوں، جوشاندوں، میرا حق تیرا باطل، میں مسلمان تو کافر وغیرہ وغیرہ سے نہیں بلکہ انصاف، علم، مکالمے، مساوات پر قائم و دائم رہتی ہیں۔
اس ریاست کو چلانے والے بگاڑ کو دیکھنے سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہیں یہ محرومی آج کی نہیں ہمیشے سے ہی ہے۔ یہ زعم بھی کہ جو ہم جانتے ہیں دوسرا کوئی نہیں جانتا، ایک لاعلاج بیماری ہے۔
خطے میں چودہراہٹ کے شوق نے رسوا کیا اس کا غصہ اپنے لوگوں پر نکالا جارہا ہے۔ تعلیم، صحت اور انصاف کاروبار بنا دیئے گئے۔ منصف بھی ٹکسالوں میں گھڑے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں عدالتی فیصلے بولتے ہیں ہمارے ہاں جج بولتے ہیں۔
حبس ہے اندھیرا ہے جہالت اور حب الوطنی جوشاندہ۔ چارہ گر دور دور تک دیکھائی نہیں دیتا جو ہمیں پسند ہے وہی نائب الارض ہے باقی چھان بُورا ہے۔
بات تلخ ہے لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ایٹمی طاقت، بڑی فوج، دو درجن خفیہ ایجنسیاں اگر مملکت کے وجود کی ضمانت ہوسکتیں تو سوویت یونین تحلیل نہ ہوتا۔ سمجھنے والوں کے لئے اشارہ بہت ہے۔
ہمیں (ہم سب کو) غور کرنا ہوگا کہ عدم توازن کا علاج کیا ہے۔ قومیتی شناخت اور اپنے وسائل پر اپنا حق مقدم سمجھنے والے فیڈریشن سے ناراض کیوں ہیں۔ را کی سازش، عالمی دشمن، غیر ذمہ دار پڑوسی والے سری پائے اور کھدیں مزید فروخت نہیں ہونے والے۔
فقط اہل اقتدار اور بندوق برداروں کو ہی نہیں ہم سبھی کو سوچنا ہوگا۔ فقط یہ کہ "کیا ہم اکٹھے رہ سکتے ہیں؟"
اکٹھے رہ سکتے ہیں تو کیسے اور نہیں رہ سکتے تو اس کی وجوہات کیا ہیں۔
یہ سوال ہے گالی نہیں نہ حب الوطنی کے جوشاندے کے مقابلے میں نیا جوشاندہ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ فیڈریشن سے شکایات نفرت میں کیوں تبدیل ہوئیں؟
تھوڑا سا حوصلہ اگر مزید کرلیا جائے تو ایک سوال یہ بھی ہے کہ جس اخلاق باختگی میں ہم گردن تک دھنسا دیئے گئے ہیں اس سے نجات کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جارہی؟
سوالات اور بھی ہیں، فرقہ وارانہ شدت پسندی ہے، طالبانائزیشن ہے، بلوچ عسکریت پسندی ہے، انصاف برائے فروخت ہے۔ ایک ایک کرکے آئندہ کالموں میں ہم ان سوالات پر بات کریں گے۔
آج کا سوال فقط یہ ہے کہ "کیا ہم اکٹھا رہ سکتے ہیں؟"
آیئے اس پر اپنے اپنے عصری شعور کی روشنی میں غور کرنے کی زحمت کرلیں تاکہ دیر نہ ہوجائے۔