کے ایچ خورشید مرحوم
مظفر آباد میں حالیہ آٹھ روزہ قیام کے دوران طالب علم نے جموں کشمیر کی تاریخ سے آگاہی کے لئے پروفیسر محمد ادریس احمد کی تصنیف "تاریخ جموں کشمیر" (عہد قدیم سے عہد جدید تک) اور آزاد کشمیر کے مرحوم صدر کے ایچ خورشید پر محمد سعید اسعد کی کتاب "کے ایچ خورشید" حیات و خدمات، حاصل کیں۔ پروفیسر محمد ادریس احمد کی تصنیف مطالعہ کے لئے خاصا وقت مانگتی ہے البتہ محمد سعید اسعد کی کے ایچ خورشید مرحوم پر کتاب پڑھ رہا ہوں اس کے مطالعے کے لئے پہلے سے زیرمطالعہ دونوں کتابیں فی الوقت رکھ دی ہیں۔
کے ایچ خورشید یکم مئی 1959ء کو آزاد کشمیر کے صدر بنے اور اس منصب پر 15 اگست 1964ء تک فائز رہے۔ طالب علم رہنما کی حیثیت سے انہوں نے بٹوارے سے قبل کے جموں کشمیر میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نظریہ کی ترویج کے لئے خاصی جدوجہد کی۔ قائداعظم محمدعلی جناح کے سیکرٹری بھی رہے کچھ عرصہ محترمہ فاطمہ جناح کے سیکرٹری کے طور پر بھی فرائض ادا کئے۔ ان کی صاحبزادی پی آئی اے شعبہ " تعلقاتِ عامہ " میں ہیں اور صاحبزادے پاکستان سے باہر۔
حیات و خدمات کے عنوان سے لکھی گئی محمد سعید اسعد کی کتاب بنیادی طور پر ان کا ایم فل کا مقالہ ہے جسے کتابی شکل دینے کے لئے انہوں نے خاصی محنت کی البتہ ایک طالب علم کے طور پر مجھے لگتا ہے کہ مصنف نے مرحوم کے ایچ خورشید کو بطور انسان، سیاستدان اور دانشور کے طور پر کم اور دیوتا کی حیثیت سے زیادہ دیکھا سمجھا۔
اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان کی سیاسی جدوجہد، استقامت اور بعض دوسرے معاملات پر وہ خاص تقدس حاوی ہوگیا جس کا مصنف نے ان کی ذات کے گرد حصار کھینچ دیا ہے۔
اپنی ذاتی زندگی میں وہ ایک بے مثال شخصیت تھے۔ 1959ء میں جب وہ آزاد کشمیر کے صدر بنائے گئے ان دنوں صدر پارلیمانی انتخابی کالج یا براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتا تھا بلکہ آزاد کشمیر میں رولز آف بزنس کے تحت امور حکومت چلائے جاتے تھے۔
20 اپریل 1959ء کو آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم خان مستعفی ہوگئے قبل ازیں انہیں حکومت پاکستان کا ایک خط موصول ہوا کہ صدر جنرل ایوب خان ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اس لئے وہ اپنے منصب سے مستعفی ہوجائیں۔
ان برسوں میں مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ آزاد کشمیر کے صدر کے چنائو کا اختیار رکھتی تھی لیکن یہ اختیار حتمی نہیں تھا۔ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے خصوصی اجلاس میں صدر آزاد کشمیر کی نامزدگی کے لئے ایک قرارداد پاس کرکے وزارت امور کشمیر کو چند افراد کے ناموں پر مشتمل ایک پینل بھیجا جاتا۔ وزارت امور کشمیر اس میں سے پسندیدہ شخص کے حق میں صدر پاکستان کو سمری بھیجتی اور صدر پاکستان اس شخص کو آزاد کشمیر کا صدر نامزد کردیتے۔
27 اپریل 1959ء کو راولپنڈی میں مسلم کانفرنس کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا اس اجلاس میں 18 میں سے 14 ارکان نے شرکت کی اور متفقہ طور پر کے ایچ خورشید کو صدر آزاد کشمیر کے منصب کے لئے نامزد کردیا۔
یکم مئی کو کے ایچ خورشید نے 36 برس کی عمر میں آزاد کشمیر کے صدر کے عہدے کے طور پر حلف لیا۔ ان برسوں میں آزاد کشمیر کے رولز آف بزنس میں صدر کے عہدے کے لئے کوئی خاص مدت مقرر نہیں تھی۔
آزاد کشمیر پہلے صدر (انہیں بانی صدر بھی کہا جاتا ہے) سردار ابراہیم خان 1948ء میں پاکستان کے زیرانتظام آنے والے آزاد کشمیر کے صدر بنائے گئے انہوں نے 20 اپریل 1959ء کو اپنے منصب سے استعفیٰ دیا کیونکہ پاکستان پہلے فوجی آمر صدر جنرل ایوب خان ان کی کارکردگی سے خوش نہیں تھے۔
سردار ابراہیم خان کے استعفے اور کے ایچ خورشید کی تقرری کا تجزیہ کیا جائے تو اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس تبدیلی نے آزاد کشمیر کے باسیوں کے ایک حلقے میں اس تاثر کو اجاگر کیا کہ آزاد کشمیر بس نام کا آزاد کشمیر ہے عملی طور پر یہ پاکستان کی ایک کالونی ہے۔
محمد علی جناح صاحب کی اصول پسندی کے سیاسی طور پر ان کے شاگرد کے ایچ خورشید پر بھی چھاپ رہی ہوگی لیکن انہوں نے عوامی رائے دہی کی بجائے ایک سیاسی جماعت کی قرارداد اور پھر فوجی آمر کے تقررنامے پر آزاد کشمیر کا صدر بننا کیوں قبول کیا اس بارے ان پر لکھی گئی کتاب مکمل طر پر خاموش ہے۔
کے ایچ خورشید نظریہ پاکستان کے حامی تھے۔ جناح صاحب کے سیکرٹری اور قبل ازیں جموں کشمیر مسلم سٹوڈنٹس میں اپنے سرگرم کردار کی بدولت ان کی فکری اٹھان اسی دو قومی نظریہ کی مرہون منت تھی جس نے برصغیر کے ساتھ ریاست جموں کشمیر کےبٹوارے کی بنیاد رکھی اس بٹوارے کے زخم ایل او سی کے دونوں طرف آباد کشمیریوں کو 76 سال بعد بھی خون رلاتے ہیں۔
خورشید صاحب ذاتی زندگی میں دیانتدار اور اُجلے شخص تھے انہوں نے منصب صدارت سے دوسروں کی طرح "زندگی کشید" کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم کہہ لکھ سکتے ہیں کہ وہ زندگی بھر طمع و جمع سے دامن بچا رکھنے میں کامیاب رہے
1960ء میں آزاد کشمیر میں پہلی بار بنیادی جمہوریت (بلدیاتی اداروں) کے نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ بنیادی جمہوریت کا یہ نظام پاکستان میں بھی متعارف کرایا گیا۔
یہی نظام فوجی آمر جنرل ایوب خان کی طاقت بنا اسی نظام کے بطن سے کنونشن مسلم لیگ نکالی گئی۔
20 نومبر 1960ء کو آزاد کشمیر میں انتخابی عمل کے ذریعے 2400 بی ڈی ممبر منتخب ہوئے ان میں 12 سو آزاد کشمیر میں اور 12 سو پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین میں سے تھے۔ پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کی 12 سو نشستوں میں 6 سو جموں اور 6 سو وادی کشمیر (سرینگر وغیرہ) کے مہاجرین کی تھیں۔
بلدیاتی انتخابات کے وقت کے ایچ خورشید ہی آزاد کشمیر کے صدر تھے۔ 7 اکتوبر 1961ء کو لوکل باڈیز (بنیادی جمہوریت کے بی ڈی ممبروں) کے ارکان نے آزاد کشمیر کے صدر کا انتخاب کیا۔ 30 خالی نشستوں کے علاوہ 2 ہزار 3 سو 70 ارکان نے ووٹ ڈالے اور کے ایچ خورشید 949 ووٹ لے کر آزاد کشمیر کے پہلے صدر منتخب ہوگئے (اس وقت وہ 38 برس کے تھے)۔
ان کے مدمقابل امیدواروں میں سردار عبدالقیوم خان نے 924 پیر علی جان شاہ نے 206، خواجہ غلام نبی نے 29، محمد دائود نے 7 اور چوہدری سلطان علی نے 145 ووٹ حاصل کئے۔
انہوں نے 19 اکتوبر 1961ء کو آزاد کشمیر کے پہلے منتخب صدر کے طور پر حلف اٹھایا۔ ان کی پہلی صدارتی تقرری مسلم کانفرنس کی قرارداد اور پاکستان کے پہلے فوجی آمر صدر جنرل ایوب کی نامزدگی پر عمل میں آئی تھی۔ دوسری بار لوکل باڈیز کے انتخابی کالج سے کامیاب ہوکر صدر بنے
1962ء میں انہوں نے جموں کشمیر لبریشن لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی ان کے مسلم کانفرنس سے راستہ جدا کرنے اور اپنی جماعت بنانے کے اس عمل پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی پیروی کی ایوب خان نے بھی اپنی سیاسی جماعت کنونشن مسلم لیگ کے نام سے قائم کی تھی۔
بعدازاں ایک مرحلہ پر انہوں نے اپنی جماعت، ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی میں ضم کردی یہ ادغام 16 ستمبر 1976ء کو جلال آباد مظفر آباد میں منعقدہ ایک جلسہ میں ہوا اس جلسہ میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی شرکت کی تھی کتاب کے مصنف نے جی ایم مفتی کے حوالے سے لکھا کے ایچ خورشید کہتے تھے لبریشن لیگ کو پی پی پی میں ضم کرنے کے لئے بھٹو نے مجبور کیا تھا۔
البتہ مصنف کا کہنا ہے کہ لبریشن لیگ کو پیپلزپارٹی میں ضم کرنے کا فیصلہ خورشید صاحب کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی اور یہ فیصلہ ان کے تابندہ ماضی اور بے داغ کردار پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتا تھا۔
پاکستان میں تیسرے مارشل لاء (جنرل ضیاء کا مارشل لاء) کے پہلے ہی برس 15 اکتوبر 1979ء کو کے ایچ خورشید نے اپنی جماعت لبریشن لیگ کی بحالی کا اعلان کردیا لبریشن لیگ اور پیپلز پارٹی کا یہ سنجوگ 17 ماہ ہی چل سکا۔
11 مارچ 1988ء کو کے ایچ خورشید گوجرانوالہ کے شمالی بائی پاس پر ہونے والے ٹریفک حادثے میں راہی ملک عدم ہوئے۔
کتاب کے مصنف نے اس ٹریفک حادثے کو سازش کے طور پر پیش کرنے کے لئے جو چند سطری کہانی بُنی وہ نبھ نہیں پائی ہاں پاکستان ایسے ملک میں جہاں سازشی تھوریوں کی ریوڑیاں سردیوں کے ساتھ گرمیوں بھی خوب فروخت ہوتی ہیں یقیناً کتاب کے قارئین کے لئے خاصے کا مال ہوگا۔
اپنی سیاسی فکرکے حساب سے وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے دشمن کبھی بھی نہیں سمجھے گئے اعلیٰ ذاتی اوصاف اور دیانتداری کی بے مثال شہرت رکھنے والے مرحوم کے ایچ خورشید بہرطور آزاد کشمیر کے پہلی بار صدر پاکستان کے پہلے فوج آمر جنرل ایوب کے جاری کردہ تقررنامے پر ہی بنے تھے۔
(مظفر آباد کا مزید احوال آئندہ کالموں میں)۔