بلاول اور پیپلز پارٹی کہاں کھڑے ہیں
چند دن اُدھر پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو سے سوال ہوا، کیا پیپلزپارٹی آج بھی طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھتی ہے؟ ان کا جواب تھا۔ بعض لوگ نفرت کی سیاست کرکے ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں لیکن ہم اس طرح کی سیاست نہیں کریں گے ہم آج بھی عوام کو ہی طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے صاحبزادے نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے سیاسی نظریات، پارٹی پالیسی، مستقبل کی سیاست میں کردار، مخالفوں کے بعض الزامات اور دیگر مسائل پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ ایک ترقی پسند اور سامراج دشمن جماعت کے طور پر قائم ہونے والی پیپلزپارٹی نصف صدی سے کچھ اوپر کا سفر طے کرچکی، ایک رائے بھی رہی اور ہے کہ پیپلز پارٹی سوشلسٹ ترقی پسند نہیں بلکہ سنٹرل لبرل ترقی پسند جماعت ہے اسی لئے اس میں دائیں اور بائیں بازو کی فہم کے حاملین کے علاوہ سنٹرل لبرل سوچ والے لوگ بھی ہیں۔
البتہ ایک طبقہ پیپلز پارٹی کے اندر ایک خاص قسم کی مذہبی تفہیم کے تنگ نظر پرچارکوں سے نالاں ہے فہمیدہ طبقات پیپلز پارٹی پنجاب کے سٹڈی سرکل کی اندھی تنگ نظر مذہب پرستی پر بھی حیران ہیں کہ یہ مخلوق کہاں تخلیق ہوئی۔
پچھلی تقریباً چھ دہائیوں کے دوران پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نظریہ ضرورت کے تحت پھانسی چڑھائے گئے۔ ان کی صاحبزادی بینظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں پُرہجوم سڑک پر دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔ بھٹو صاحب کے خاندان کی قربانیاں بلاشبہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی قائم کردہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں نے بھی پچھلی چھ دہائیوں کے دوران بہت شاندار قربانیاں دیں۔
لیکن طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ لگانے والی پیپلزپارٹی کا المیہ یہ بھی ہے کہ عشروں سے اس پر وہی طبقات قابض ہیں جن کے خلاف پارٹی بنی تھی۔ آج اگر بلاول بھٹو اپنے نانا اور والدہ کی جماعت کے شعوری اور عوامی احیاء کے خواہشمند ہیں تو انہیں بھی سمجھنا ہوگا کہ سماج کے مظلوم و محکوم طبقات کی آواز بن کر ہی سیاسی عمل میں مئوثر کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔
پیپلزپارٹی مزاحمتی و ترقی پسندانہ سیاست کا چہرہ تھی۔ دیکھنا اور سمجھنا ہوگا کہ اس مزاحمتی و ترقی پسندانہ چہرے پر دھول کیوں پڑی اور کیا پارٹی اپنے اساسی نظریات کے ساتھ کھڑی رہی؟
ہر دو سوالوں کا نرم سے نرم الفاظ میں جواب یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپریل 1986ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد پہلے مرحلہ میں سامراج دشمنی کو ترک کیا اور دوسرے مرحلہ میں سمجھوتوں کی سیاست کو گلے لگایا۔ ایک خطا اور بھی سرزد ہوئی وہ یہ کہ 1990ء کی دہائی میں پنجاب میں مخلوط حکومت بناتے وقت ایک انتہاپسند تنظیم کے رکن صوبائی اسمبلی کو صوبائی وزیر بنایا گیا۔
آج کے حالات میں ملک کی سیاست کو دو چیزوں کی اشد ضرورت ہے اوّلاً عوام دوست اور سامراج دشمن افکار کی حامل سیاسی جماعت اور ثانیاً ایسی سیاسی جماعت جس کے اندر نیچے سے اوپر تک حقیقی جمہوریت بھی ہو اور کارکن کلچر بھی۔ کیا پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین اس امر سے لاعلم ہیں کہ جمہوریت کے ساتھ فکری استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے کی خواہش ایک چیز ہے اور کھڑا ہونا دوسری چیز۔
طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ بلند کرتی پیپلزپارٹی کی قیادت ذرا ٹھنڈے دل سے اپنی تنظیمی صورتحال اور تنظیم میں ہر سطح کے عہدیداروں کے حوالے سے طبقاتی سروے تو کرواکر دیکھ لے۔
جمہوریت کی حالت یہ ہے کہ پی پی پی میں عہدوں پر نامزدگیوں کے لئے انتخابی عمل کے بجائے انٹرویوز ہوتے ہیں۔ معاف کیجئے گا انٹرویوز تو لمیٹڈ کمپنیوں میں ملازمتوں کی فراہمی کے لئے ہوتے ہیں۔ سیاسی عمل اور پارٹی جمہوریت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
مکرر عرض ہے کہ جمہوریت اور صرف جمہوریت اس کے سوا کا کوئی بھی نظام ایڈونچر ہوگا۔ بلاول جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ خوش آئند بات ہے مگر کیا وہ اس استحصالی طبقاتی نظام کو جمہوریت سمجھتے ہیں یا پھر طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے قومی جمہوریت کا راستہ نکالنے کے خواہشمند ہیں؟
قومی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو پہلے مرحلہ میں اپنی جماعت میں حقیقی جمہوری عمل کو فروغ دیں۔ نامزدگیوں کی بدعت کو ختم کریں۔ سیاسی مجبوریاں اور مسائل ہیں تو مرحلہ وار انتخابات کروالیں۔ ویسا تماشا نہ ہوکہ ساڑھے تین منٹ کے اندر جیسے پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے مرکزی اور صوبائی عہدیداران کا چناؤ ہوگیا تھا۔
ان کی یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ بعض لوگ نفرتوں کی سیاست کرکے ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اور وہ یا ان کی جماعت نفرت کی سیاست کا حصہ نہیں بنے گی۔
ہماری دانست میں سیاسی جماعت کا کام سماج کے مختلف طبقات کو ساتھ لے کر چلنا اور مخالفین سے مکالمے کے لئے دروازے کھلے رکھنا ہے۔ سیاست بند گلی یا دور افتادہ ویران جزیرے پر نہیں ہوتی یہ ایک بھرے پُرے سماج کی ضرورت ہے اور سماج کو انتہاؤں میں تقسیم کرکے "کسی" کا راستہ تو ہموار کیا جاسکتا ہے عوام کے حق حکمرانی کا ہرگز نہیں۔
بلاول کے سامنے اپنی جماعت کی چھ دہائیوں کی تاریخ ہے وہ کھلے ڈلے انداز میں اپنی بات کہتے اور پارٹی موقف کا اظہار کرتے ہیں۔
اس لئے انہیں یہ بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان پانچ قوموں کی فیڈریشن ہے اور قوموں کے مساوی حقوق اور حق حکمرانی کے لئے نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ اس عمرانی معاہدے کےلئے 1973ء کے دستور کے تحت ہی راستہ نکالنا ہوگا۔ پاکستانی سیاست کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے نہیں بلکہ خود سماج کے ایک طبقے کی لشکریوں سے محبت اور پھر مذہبی انتہاپسندوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی الگ رنگ رکھتی ہیں۔
ایسے میں پیپلزپارٹی اگر تعصبات و انتہاپسندی اور اسٹیبلشمنٹ کا سہارا بننے کے بجائے ترقی پسندانہ افکار کی روشنی میں قومی جمہوریت کے لئے جدوجہد کا راستہ اختیار کرے تو ایک حقیقی عوام دوست سیاست اور جماعت دونوں کا احیاء ہوسکتا ہے۔
کیا بلاول نہیں سمجھتے کہ اگر سیاست کو گالی اور کاروبار بنا دینے والوں کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو آنے والے ماہ و سال میں سیاسی عمل بھی بدزبانیوں سے ہی نہیں اٹے گا بلکہ کارپوریٹ کلچر کی طرح کا بدنام زمانہ دھندہ بن کر رہ جائے گا؟ بلاول ابھی نوجوان ہیں ان کے پاس وقت بھی ہے سو انہیں مروجہ سیاست کے ناز اٹھانے کے بجائے اپنے اعلان کردہ فہم کے مطابق پیپلزپارٹی کو پھر سے عوام دوست اور سامراج دشمن جماعت کے طور پر منظم کرنا ہوگا۔
اس کے لئے کیا کیا کام ضروری ہیں بالائی سطور میں عرض کرچکا۔
بہر طور شکایات کے دفتر کھولے بغیر یہ عرض کرنا زیادہ ضروری ہے کہ طبقاتی شعور، عوام دوستی، سامراج دشمنی، استحصالی طبقات کے خلاف دوٹوک موقف، دستور میں فرد اور اداروں کے لئے طے شدہ حدود کے احترام کا یقین کامل ہونا۔
یہی نکات جس سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہوں اور وہ ان پر عمل کرتی دیکھائی دے اسے ہی سماجی پذیرائی ملتی ہے۔ فیصلہ پیپلزپارٹی کو کرنا ہے کہ اسے کھل کر بائیں بازو کی عوام دوست سیاست کرنی ہے یا مروجہ سیاست کا حصہ رہنا ہے۔ مروجہ سیاست کا حصہ رہنا ہے تو پھر عام آدمی کے لئے پیپلزپارٹی میں کیا کشش ہوگی؟
بارِ دیگر عرض ہے پیپلزپارٹی کو اپنے اساسی نظریات کی جانب ہی پلٹنا ہوگا۔ ایک حقیقی عوام دوست جماعت جو استحصال اور مقامی و عالمی سامراجیت کے خلاف میدان عمل میں ڈٹ کر مزاحمت کرسکے۔