ایک بلوچ دوست کا موقف
معروف ادیب اور بلوچ دانشور ذوالفقار علی زلفی ہمارے قابل احترام دوست ہیں انہوں نے ہمارے گزشتہ روز والے کالم "بلوچ لانگ مارچ اور سرائیکی وسیب" کے جواب میں اپنی تفصیلی رائے کا اظہار کیا ان کی رائے کو کالم کا حصہ بنانے میں کوئی امر مانع نہیں کیونکہ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ جغرافیائی حدبندیوں میں تبدیلی کے دو ہی راستے ہیں اولاً مکالمہ ثانیاً قانون سازی، بدقسمتی سے پاکستان میں مکالمہ کا رواج نہیں اور قانون سازی ان حالات میں ممکن نہیں جب دستور ہی طاقتوروں کی ٹھوکروں میں رہتا ہو۔
یہ وضاحت بھی از بس ضروری ہے کہ بلوچ سرائیکی بحث ہم نے شروع نہیں بلکہ لانگ مارچ کے شرکا کے بعض نعروں اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ صاحبہ کی دو تقاریر کے بعض نکات نے اس بحث کا دروازہ کھولا ذوالفقار علی زلفی کی یہ بات البتہ درست ہے کہ وقت ہمسایہ قوموں کو اختلافی امور پر بات چیت کیلئے مل بیٹھنے کا موقع دے گا۔
آپ سئیں ذوالفقار علی زلفی کا جواب پڑھ لیجے کوئی اور دوست بھی اس موضوع پر رائے دینا چاہئے تو کالم کا دامن حاضر ہے سئیں زلفی لکھتے ہیں
"میں روزِ اول سے اس بحث کو نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میری نگاہ میں فی الوقت یہ اہم اور فوری مسئلہ نہیں ہے۔ اب آپ نے بات چھیڑ دی ہے چند گزارشات پیش کردیتا ہوں۔
اول: ڈیرہ غازی خان اور راجن پور پر بلوچ سیاسی موقف آج کا نہیں ہے۔ یہ ہماری قومی تحریک کے بانی یوسف عزیز مگسی کے بنیادی مطالبے میں بھی شامل تھا۔ انہوں نے جیکب آباد میں آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے پلیٹ فارم سے بھی انگریز نوآبادکاروں سے مزکورہ خطوں کی بلوچستان حوالگی کا مطالبہ کیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد ڈیرہ کے سرداروں کو پنجاب میں اپنا مستقبل زیادہ محفوظ نظر آیا، انہوں نے پنجاب کے حق میں فیصلہ دیا۔ آج وہ سرائیکی قومی سوال پر پنجاب کو بلیک میل کرکے اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان میں قوم پرست بیانیے میں ان خطوں کی بلوچستان حوالگی کا مطالبہ برقرار رہا اور یہ مطالبہ آج بھی موجود ہے۔
یہ تو ہوگیا سیاسی موقف، زمینی صورت حال یہ ہے کہ بلوچ قوم پرست سرحد بدلنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ ان کے قوت و اختیار سے باہر ہے۔ بلوچ قوم پرست بلوچستان کے پشتون خطوں کی علیحدگی کی حمایت کرتے ہیں مگر واضح سیاسی موقف کے باوجود وہ انتظامی صوبہ بلوچستان تک کو تقسیم نہیں کر پا رہے۔ ڈیرہ غازی خان و راجن پور کی حوالگی تو دور کی بات ہے۔
میری ذاتی رائے میں اس کا فیصلہ ان خطوں کے عوام کو کرنا چاہیے۔ وہ جہاں بہتر سمجھیں وہاں رہیں۔ بہرحال میری رائے لیکن نہ اہمیت رکھتی ہے اور نہ ہی کسی کو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔
سو مجھے تو یہ ساری بحث ہی لایعنی محسوس ہوتی ہے۔
دوم: محنت کش چاہے کوئی بھی زبان بولتا ہو اس کو نقصان پہنچانا درست عمل نہیں ہے۔ مگر جنگ ایک ایسی آگ ہے جس میں تر اور خشک دونوں جل جاتے ہیں۔
اس وقت بلوچستان میں خود بلوچ محفوظ نہیں ہے۔ ہر آن جان کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ پھر مسلسل قتل و غارت گری کے باعث پنجاب سے نفرت بھی شدید ہے۔ شاید ہی کوئی بلوچ ایسا رہ گیا ہو جس کا کوئی قریبی جبری گم شدگی یا قتل ہونے سے رہ گیا ہو۔ سو حاکم خطے سے نفرت بلا جواز نہیں ہے (حماس کا حملہ ہی دیکھ لیں)۔
ان خوف ناک حالات میں پنجاب سے کوئی محنت مشقت کرنے آئے تو اس کی جان کی ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے؟ واضح رہے سرائیکی پنجاب کی لگائی آگ میں جل رہے ہیں۔ اصولی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے مگر جنگ میں جس چیز کا پہلے قتل ہوتا ہے وہ اصول ہی ہے (نہتی عورتوں پر حملہ دیکھ لیں)۔
میں متعدد دفعہ محنت کشوں کے مسئلے پر قوم پرستوں سے لڑ چکا ہوں مگر طبقاتی سوال کو اولیت دینے میں ہم تاحال ناکام ہیں اور آگے بھی امید کم ہی ہے۔ ایسے میں پنجاب کے محنت کشوں کو خوف ناک جنگ کی آگ میں جلتے خطے میں کام کی تلاش کے لئے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔
سوم: سرائیکی قومی سوال پر ہمارا موقف واضح ہے۔ اگر سرائیکی اپنی زبان و ثقافت کو بنیاد بنا کر خود کو ایک الگ قومی شناخت قرار دیتے ہیں تو ہم ان کی اس اجتماعی دانش کا کاملاً احترام کرتے ہیں۔
سرائیکی قومی تشخص کی جدوجہد کی بلامشروط پرجوش حمایت کرتے ہیں۔ پنجابی ہمارا ہمسایہ نہیں ہے مگر سرائیکی نہ صرف ہمارا ہمسایہ ہے بلکہ سرائیکی زبان بلوچ کی قومی زبان کا بھی درجہ رکھتی ہے۔
ہم اپنے اس ہمسائے سے مسلسل جنگ کی حالت میں نہیں رہ سکتے جس کی زبان تک ہم نے اپنائی ہے۔ اسی طرح پشتون اور سندھی بھی ہمارا ہمسایہ ہے جن سے لڑنا مستقبل کو تباہ کرنا ہے۔۔ بلکہ سندھی تو ہمارا میزبان بھی ہے۔ میں خود لاکھوں بلوچوں کی طرح جدی پشتی سندھ کا شہری ہوں۔
آخری بات: ہم پاکستانی نوآبادکار سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمارا سب کچھ داؤ پر لگا ہے۔
ایسے میں سرحدوں اور جغرافیے کی لایعنی بحث کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ نوآبادکار سے جان چھڑا لیں پھر دو ہمسایوں کی طرح برابری کی بنیاد پر یہ معاملہ بھی حل کر لیں گے۔ فی الحال براہ مہربانی ہمیں اس بحث میں نہ الجھائیں"۔
بالائی سطور میں آپ ہمارے بلوچ دانشور دوست ذوالفقار علی زلفی کا موقف پڑھ چکے باردیگر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ بلوچ سرائیکی بحث ہم نے شروع نہیں کی بحث کا دروازہ کھولا گیا تو جواب عرض کرنا پڑا ہماری رائے بہت سادہ اور واضع ہے وہ یہ کہ سرائیکی وسیب میں آباد مختلف نسلی اکائیوں کا شعوری اور جمہوری حق ہے کہ وہ وسیب کی قومی شناختی تحریک کا حصہ بنیں یا الگ رہیں الگ صوبے کی تحریک بارے بھی ہر کس و ناکس کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے اسی طرح کسی خطے میں آباد اکائیاں اگر اپنا وزن مقامی قومی شناخت کے پلڑے میں ڈالتی ہیں تو ان کے موقف کا احترام لازم ہے۔
ہمسایہ اقوام کو اختلافی امور مزاکرات سے ہی طے کرنا ہوں گے ہمارے دوست کے بقول "ابھی وہ وقت نہیں آیا" ان کی بات سر آنکھوں پر لیکن ہم یہ سوال تو پوچھ سکتے ہیں کہ بلوچ لانگ مارچ کی قائد کی تقاریر اور بعض نعروں کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کیوں کیا گیا جب سرائیکی وسیب میں آئندہ الیکشن کو قومی مزاحمت کے اظہار کے طور پر دیکھا جارہا ہے؟
ہم سرائیکیوں کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جانے انجانے میں سرائیکی قومی وحدت پر ضرب لگائی گئی ہے؟