Friday, 14 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Izzat Se Larte Hue Maare Jana Behtar Hai

Izzat Se Larte Hue Maare Jana Behtar Hai

عزت سے لڑتے ہوئے مارے جانا بہتر ہے

ڈاکٹر حسن ظفر عارف جیسے استاد ہم جیسے طالب علموں کے لیے مشعل راہ تھے جنھوں نے کارل مارکس کے اس قول کو اپنی زندگی کا رہنماء اصول بنایا کہ فلسفیوں کا کام سماج کی تشریح کرنا نہیں بلکہ اسے تبدیل کرنے کا ہے۔ وہ درمیانے طبقے کے غدار اور محنت کش طبقے کے ھیرو تھے۔ جنھوں نے سچائی کی خاطر اپنی اکیڈمک لائف قربان کردی۔

سن 1984ء کو وہ مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کرنے کی پاداش میں کراچی یونیورسٹی سے نکال دیے گئے۔

وہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف گیارہ سال مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ انھوں نے بحالی جمہوریت کے اتحاد ایم آر ڈی میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کام جاری رکھا۔ وہ کراچی میں مزدوروں، طالب علموں اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ ان کی قیادت میں ہزاروں افراد سماجی۔ سیاسی تبدیلی کے شعور سے بہرہ ور ہوئے۔ وہ پیپلزپارٹی میں ترقی پسند، روشن خیال سوشلسٹ نظریات کی توانا آواز تھے۔ انھوں نے جہاں ضیاء الحق کے اتحادی دائیں بازو کے رجعتی عناصر کا مقابلہ کیا وہیں پیپلزپارٹی کے اندر رجعت پرستی، موقعہ پرستی اور اس کے دائیں طرف جھک جانے کے رجحانات کا مقابلہ بھی کیا۔

انھیں جمہوریت پسند کیمپ کے ایسے ہی موقعہ پرست سیاست دان بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے جن کے خلاف وہ سینہ سپر رہے تھے اسی لیے 1989ء میں انھیں بحال نہیں کیا گیا جبکہ ان کے ساتھ سرکاری اداروں سے نکالے جانے والے ہزاروں افراد کو ان کی نوکریوں پہ بحال کیا گیا تھا۔

انھیں پیپلزپارٹی کے دائیں طرف جھکاؤ کی مخالفت اور سمجھوتے بازی و مصلحت پسندی پر تنقید کی سزا خود جمہوریت کے نام لیوا پی پی پی کے ناخداوں نے دی۔ پی پی پی پی میں ان کا رہنا محال کردیا گیا اور وہاں سے بھی انھیں نکلنے پر مجبور کردیا گیا۔

انہوں نے ساری عمر مہاجر نیشنل ازم کو رد کیا تھا جیسے وہ نیشنل ازم کی دیگر شکلوں کی مخالفت کرتے رہے تھے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں انھوں نے جب اردو اسپیکنگ مہاجر کمیونٹی کے خلاف بدترین ریاستی جبر ہوتے دیکھا۔ مہاجر نوجوان سیاسی ورکروں کی جبری گمشدگیوں، ماورائے آئین قتل کے پر جب انہوں نے خاموشی کا راج دیکھا وہ نہ صرف بول پڑھے بلکہ متحدہ قومی موومنٹ کی مرکزی رابطہ کمیٹی کا عہدہ بھی قبول کرلیا۔ ان پر ان کے اپنے ساتھیوں اور شاگردوں نے اس فیصلے پر تنقید کی اور دبے دبے لہجے میں احتجاج بھی کیا۔ پیرانہ سالی میں 80 سال کی عمر میں وہ خطرناک دہشتگرد گرد بناکر گرفتار لیے گئے۔ مہینوں وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے لیکن انھوں نے ریاستی جبر و تشدد کے آگے سرنڈر نہ کیا۔

اکتوبر 22,2016ء کو انھیں رینجرز نے کراچی پریس کلب کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔ ان پر ملک دشمنی، غداری، دہشت گردی جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ان کی تحویل سے اسلحہ، گولہ بارود بھی برآمد ہوتے دکھایا گیا تھا۔ انھیں ہتھکڑیوں میں جکڑ کر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جاتا رہا۔

ان کی گرفتاری پر بھی ملک کے تمام نام نہاد بڑے بڑے جمہوریت پسند سیاست دانوں نے خاموشی اختیار کی جن میں وہ بھی تھے جنھوں نے سیاست کی اے بی سی ان سے سیکھی تھی۔ انھیں ڈر تھا کہ کہیں وہ بھی عتاب کی اس لہر کا شکار نہ ہوجائیں جس کا شکار ایم کیو ایم کے کارکن، رہنماء اور ہمدرد بن رہے تھے جنھوں نے اسٹبلشمنٹ کی بنائی ایم کیو ایم بہادر آباد یا پاک سرزمین پارٹی میں شرکت نہیں کی تھی یا جو اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ کچھ کو یہ خوف لاحق تھا کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے حق میں آواز اٹھانے پر انھیں نسل پرستانہ سیاست کی حمایت کرنے کا جرم وار ٹھہرایا جائے گا۔

ایسے میں کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد نے جب ان کی رہائی کے لیے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا اور وہاں گئے تو انھیں بھی پریس کلب کے باہر سے رینجر نے اغوا کیا۔ ان پر بہیمانہ شرمناک تشدد کیا گیا اور ناجائز پستول ڈال کر انھیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور اس ملک کے جمہوریت پسندوں کو پیغام دیا گیا کہ اگر وہ ڈاکٹر ظفر عارف کا ساتھ دیں گے تو ان کے ساتھ یہی حشر کیا جائے گا۔

ڈاکٹر ظفر حسن عارف کے جس جیل کی بیرک میں بند تھے اسی جیل کی بیرک میں انھیں بند کیا گیا۔

ڈاکٹر ظفر عارف کو قید میں رکھنے والے نہیں جانتے تھے کہ وہ ڈاکٹر ظفر حسن عارف کو خوفزدہ نہیں کرسکیں گے۔ استاد جی نے وہیں جیل میں ساتھی قیدیوں کو سیاسی تعلیم و تربیت دینا شروع کردی۔ اسٹڈی سرکلز قائم کرنا شروع کیے۔ ان کی ان سرگرمیوں سے گھبرا کر انھیں ایک روز ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ اسی سالہ بوڑھا شیر سیاسی سرگرمیاں ترک کردے گا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلے گا۔ لیکن ڈاکٹر حسن ظفر عارف تو پہلے سے بھی زیادہ سیاسی طور پر سرگرم ہوگئے۔ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں جن کی انہوں نے کبھی پرواہ نہیں کی تھی۔

انھوں نے ایک بار پھر غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کو للکارا۔ اسی پاداش میں آخر ایک دن ان سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔

ان کی جعلی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کی گئی اور ان کی موت کو طبعی موت قرار دیا گیا۔ ان کی بیٹی کو مجبور کیا گیا کہ وہ بھی اس موت کو طبعی قرار دیں اور یوں ان کے ریاستی قتل پر پردہ ڈالا گیا۔

ڈاکٹر حسن ظفر عارف 13 جنوری 2018ء کو لاپتہ کیے گئے اور پھر ان کی لاش ابراہیم حیدری کی ایک سڑک کے کنارے کار میں پائی گئی۔

جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل اس ریاست کی غیر منتخب ھئیت مقتدرہ کا ایک ایسا طریقہ واردات ہے جس پہ یہ پچاس کی دہائی سے عمل پیرا رہی ہے جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کراچی کے مرکزی رہنماء حسن ناصر کو اس نے اغواء کرنے اور جبری گمشدہ بناکر لاہور شاہی قلعے کے بدنام زمانہ ٹارچر سیل میں اذیتیں دے کر قتل کیا تھا اور اسے خودکشی کا رنگ دیا تھا۔

یہ طریقہ واردات اس نے کبھی ایک یا دو افراد کے باب میں استعمال کیا اور کبھی اجتماعی قتل عام کے طور پر نافذ کیا۔

بلوچ سیاسی کارکنوں کے خلاف اس نے یہ طریقہ واردات پہلے 1948ء میں قلات میں اپنایا پھر 1950ء میں بنگالی کمیونسٹوں کے خلاف استعمال کیا۔ 1971ء میں ایک بار پھر بنگالیوں کی نسل کشی کے پروگرام میں اسے بے دردی سے استعمال کیا اور 1974ء میں پھر اسے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال کیا۔ 80ء کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے نذیر عباسی اور پیپلزپارٹی کے متعدد کارکنوں کے خلاف استعمال کیا۔

سن 2006ء سے اس نے ایک بار پھر اس طریقہ واردات کو بڑے پیمانے پر بلوچ نوجوانوں پر استعمال کیا جو اب تک جاری ہے۔ بلوچستان میں دشت کے قبرستان میں سینکڑوں گمنام قبریں اس طریقہ واردات کو استعمال کیے جانے کی گواہ ہیں۔

یہ طریقہ واردات پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں اور ہمدردوں کے خلاف بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

پاکستان میں ہر وہ شخص ریاستی جبر کا نشانہ بنتا ہے جو غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کی غیر آئینی، غیر قانونی مداخلت، قبضہ گیری، حملہ آوری، وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ ہزاروں لاکھوں ذہین دماغ اور حریت فکر سے سرشار سیاسی کارکن، شاعر، ادیب، طالب علم ان کے ظلم و جبر اور بربریت کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں بدترین ذلت اور جبر کا شکار ہوئے ہیں۔ اس غیر منتخب ھئیت مقتدرہ نے کریمہ بلوچ جیسی نوجوان عورتوں کو بھی اس جرم کے ارتکاب میں معاف نہیں کیا۔ اسے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسی نوجوان عورتیں ایک آنکھ نہیں بھاتی ہیں۔ سنگین الزامات کے تحت جھوٹے مقدمات کا اندراج، مار پیٹ، غیر قانونی حراست تو معمول کی بات بن چکی ہے جس کے خلاف فیصلے دینا عدالتوں کے لیے امر محال ہے۔ یہ جس فرد یا گروہ کے خلاف ہوجائیں ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ یہ جن زمینوں پر قبضہ کرنے کی ٹھان لیں ان پر قبضے سے انھیں کوئی روک نہیں سکتا اور جو روکنے کی کوشش کرے وہ آزادی سے محروم کردیا جاتا ہے۔

آج ڈاکٹر ظفر حسن عارف کی برسی ہے جو ہمیں ایک ہی سبق دیتی ہے کہ ذلت کی زندگی سے بہتر عزت سے لڑتے ہوئے مرجانا بہتر ہے۔

Check Also

Balochistan, Shorish, Siasat Aur Taraqqi Ki Pechida Guthi

By Qadir Khan Yousafzai