Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Purana Bargad

Purana Bargad

پرانا برگد

میرے گھر سے نکلتے ہی فیکٹری ایریا آتا ہے جہاں پر یہ برگد یا بوہڑ کا ایک بہت پرانا اور گھنا درخت تھا۔ جی وہی برگد جوپرندوں کا پسندیدہ مسکن ہوتا ہے۔ اسے عرف عام میں بوہڑ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک گھنا سایہ دار درخت ہوتا ہے جس کی عمر ایک ہزار سال سے تجاوز کر جاتی ہے۔ برگد کا درخت جب ایک خاص عمر سے بڑا ہو جائے تو اس کی شاخیں سے ریشے جھک کر زمین میں مل جاتی ہیں اور درخت کی چوڑائی زیادہ ہو جاتی ہے اسے ریش برگد (برگد کی داڑھی) کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ درخت سڑکوں اور شاہراہوں کے کناروں پر عام تھا۔ لیکن اب عدم توجہی کی وجہ سے معدوم ہوتا جارہا ہے۔

پہلے وقتوں میں اسے دیہات کا مرکزی درخت بھی کہا جاتا تھا جس کے نیچے چوپالیں لگائی جاتی تھیں۔ قصے کہانیاں اور فیصلے سنائے جاتے مگر یہ ثقافت اور روایات اب ختم ہو چکیں۔ ہر شخص وقت کی کمی کا بہانہ بناتے ہوئے زندگی کے ان مزوں سے محروم ہوگیا ہے۔۔ ہیں۔ اب مادہ پرستی کا اژدہا ہماری سکون اور صحت مند زندگی کو نگلنے کو بے تاب ہے۔ وہ برگد جس کے فوائد لازوال ہیں پر ہمارے پرکھوں کی وہ نشانیاں جن سے ہم نے پیار کرنا تھا۔ بہت کم رہ گئے ہیں۔۔

تو میں بتا رہا تھا کہ میں فیکٹری ایریے میں اکثر اس عجیب پراسراریت لیے کھڑے اس درخت کے پاس سے گزرتے ہوئے بچوں کو بتاتا کہ رات کو اس کی شاخوں پر جن کے بچے کھیلتے ہیں۔ میں دن اور رات کو آتے جاتے اسے دیکھتا تھا اور سوچتا تھا اس نے کتنے زمانے اور لوگ دیکھیں ہوں گے، کتنے لوگ اس کی چھاؤں میں بیٹھے ہوں گے، کتنے بچے اس کی شاخوں پر جھولے ہوں گے۔ اب یہ ایک ٹوٹے ہوئے پلاٹ میں کھڑا ہے جس کے سائے سے ملازمین کو لانے والی لاریاں اور ان کے ڈرائیور فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔

ساتھ میں مجھے یہ بھی خوف تھا کہ جس دن اس پلاٹ کے مالک نے ادھر فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیاتو کیا ہوگا۔ اگر اچھے ذوق کا مالک ہوا تو کم از کم اس سارے کو نہیں کاٹے گا اور ایک کونے میں لگے درخت کو کچھ حصہ صحن میں لازمی رکھے گا۔

آج دفتر سے واپسی پر میری نظر اس پلاٹ پر پڑے تو دل دھک سے رہ گیا۔ درخت کے ٹوٹے ٹوٹے ہوکر ٹریکٹر ٹرالی پر سج چکے تھے اور ناجانے کتنی ٹریکٹر ٹرالیاں اس سے پہلے اس کی باقیات کو لے کر جاچکی تھیں۔ اس پلاٹ کا مالک یقیناً انتہائی خشک مزاج، جمالیاتی حسوں سے محروم شخص ہوگا کہ جس کا دل اتنا پرانے اور گھنے درخت کو جڑوں سے ختم کرنے پر نہ کانپا ہوگا۔ بہرحال لوگوں نے یہی کہنا ہے کہ ادھر انسانی زندگیوں کی قدر نہیں ہے اور آپ ایک درخت کو رو رہے ہیں لیکن میں کیا کروں مجھے پرانی چیزوں سے عشق ہے خاص طور پر پرانے درختوں سے۔۔

اس درخت کا حشر دیکھ کر مجھے ہمارے آبائی محلے میں واقع واحد پیپل کے درخت کی یاد آگئی جو ہماری بچپن کی یادوں میں سے ایک یاد تھا اور ہماری اکثر دوپہریں اس کے نیچے کھیلتے ہوئی گزری تھیں۔ اس ہرے بھرے درخت کو بھی بڑی بے رحمی سے کاٹ دیا گیا تھا اور شاید محلے میں سے کسی کو بھی اس پر اعتراض نہ ہوا ہوگا لیکن جب مجھے پتا چلا تھا تو بہت دکھ ہوا تھا۔۔

درخت کٹ گیا لیکن وہ رابطے ناصر
تمام رات پرندے زمیں پہ بیٹھے رہے

Check Also

Khushi Lamha Lamha

By Sabiha Dastgir